پاکستان کی داخلی علاقائی اور خارجہ پالیسی کے چیلنجز
مسائل کے حل میں کسی بھی سطح پر ڈیڈ لاک پیدا کرنا یا غیر لچک دار رویہ ہمارے حق میں نہیں ہوگا
پاکستان کا بنیادی نقطہ داخلی ، علاقائی او ر عالمی چیلنجز سے نمٹنا ہے ۔ ان سے نمٹنے کے لیے مرکزی نقطہ داخلی سیاسی و معاشی یا سیکیورٹی سے جڑا استحکام ہے۔ کیونکہ جب تک ہم اپنے داخلی معاملات کو درست سمت یا حکمت عملیوں کو بنیاد بنا کر معاملات کو درستگی کی طرف نہیں لے کر جائیں گے، مسائل حل نہیں ہوسکیں گے۔
ہمیں جذباتیت کے مقابلے میں زیادہ سنجیدگی کے ساتھ داخلی معاملات کا تجزیہ درکار ہے اور اسی تجزیے کی بنیاد پر کوئی ایسی متفقہ حکمت عملی جو ہمیں محفوظ راستہ دے سکے ، ہماری ضرورت بنتا ہے ۔داخلی استحکام کی خواہش کا پیدا ہونا یا رکھنا اپنی جگہ اہمیت رکھتا ہے مگر اس سے بھی زیادہ اہمیت اس خواہش کی بنیاد پر ہمارا روڈ میپ او رحکمت عملی کی گہرائی ہے کہ کیسے ہم اس بحران سے نکلنا چاہتے ہیں۔
ہمارا بحران محض سیاسی نوعیت کا نہیں بلکہ اس کو ایک بڑے ریاستی بحران کے فریم ورک میں دیکھنے کی ضرورت ہے ۔ یہ ہی وجہ ہے کہ پاکستان او رپاکستان سے باہر کی پالیسی سازی، تھنک ٹینک یا علمی و فکری بنیاد رکھنے والے افراد یا ادارے ہماری توجہ ہمارے معاملات پر دکھار ہے ہیں۔
حال ہی میں امریکی تھنک ٹینک '' مڈل ایسٹ انسٹی ٹیوٹ ''پاکستان کی صورتحال پر لکھتا ہے کہ ''پاکستان کی خارجہ پالیسی کا انتخاب سیکیورٹی ضروریات پر مبنی رہا ہے ۔تاہم بدلتی ہوئی عالمی حرکیات کے ساتھ موجودہ اسٹیبلیشمنٹ اسٹرٹیجک کلچر اور خارجہ پالیسی کے مفادات میں تبدیلی کا اشارہ دے رہی ہے۔
اسی رپورٹ کے بقول اسٹیبلشمنٹ نے جغرافیائی سیاست سے جیو معیشت کی طرف پالیسی منتقل کی۔اسی رپورٹ میں ہم کو تین نکاتی خارجی پالیسی کا ذکر بھی ملتا ہے ۔اول پاکستان کے نرم امیج کو پروجیکٹ کرنا , دوئم ملک کو علاقائی درمیانی سطح کی طاقت کے طور پر بلند کرنا اور سوئم جغرافیائی سیاست پر جیومعیشت کو ترجیح دینا ہے۔
پاکستان کی نیشنل سیکیورٹی پالیسی کا بھی جائزہ لیں تو اس میں بھی چار نکات اہم ہیں۔ اول جیو معیشت ,دوئم جیو تعلقات , سوئم تنازعات و جنگوں سے خود کو دور رکھنا او رخود کو کسی کی جنگ میں حصہ دار نہ بنانا ، چہارم انسانی ترقی اور اچھی حکمرانی کا عمل ۔اگر ہم نے واقعی ان ہی نکات کو بنیاد بنا کر آگے بڑھنا ہے تو ہمیں داخلی، علاقائی اور خارجی سطح پر کچھ بنیادی تبدیلیوں او راس کے نتیجے میں کچھ بنیادی فریم ورک کی ضرورت ہے۔
یہ نقطہ سب سے زیادہ توجہ طلب ہے کہ ہم دیانت داری سے اپنی داخلی کمزوریوں او رغلطیوں کا تجزیہ کریں اور بالخصوص اس تجزیہ کی بنیاد پر ہم کو عملا مختلف معاملات میں ایک بڑے ''اسٹرکچرل اصلاحات '' درکار ہیں ۔ یہ اصلاحات معمولی نوعیت کی نہیں بلکہ غیر معمولی حالات میں غیر معمولی اور سخت گیر اصلاحات درکار ہیں ۔ کیونکہ اگر ہم جیو معیشت کو بنیاد بنانا ہے تو اس کے لیے جہاں داخلی سیاسی استحکام درکار ہے وہیں ہم کو اپنے ادارہ جاتی سطح پر کافی کچھ تبدیل کرنا ہوگا۔
یہ جو ہمارے یہاں آگے بڑھنے کے لیے کافی سیاسی اور مذہبی یا معاشی بنیادوں پر فکری مغالطے ہیں ان سے باہر نکلنا ہوگا اور دیکھنا ہوگا کہ دنیا میں جن ممالک کے اپنی سیاست سمیت معیشت اور عام آدمی کے نظام کو مضبوط کیا وہ کونسے عوامل ہیں او رہمیںکیا اقدامات اس تناظر میں اٹھانے ہیں۔
ہمارے آگے بڑھنے میں سب سے بڑی رکاوٹ فرسودہ خیالات ، سوچ، فکر اور عملی طو رپر حکمرانی سے جڑا عدم شفافیت کا نظام ہے ۔ یہ ہی وجہ ہے کہ نہ صرف حکمرانی کے نظام پر لوگ بنیادی نوعیت کے سوالات یا اپنے تحفظات پیش کرتے ہیں بلکہ اس مجموعی نظام پر اپنا عدم اعتماد بھی وہ پیش کرتے ہیں ۔ اسی بنیاد پر ریاست، حکومت اور شہریوں کے درمیان جو ریاستی تعلق ہے وہ بھی کمزوری اختیار کررہا ہے۔
مرکزیت پر کھڑا ہمارا حکمرانی کا نظام کبھی یہاں اچھی حکمرانی کے نظام کو قائم نہیں کرسکے گا جب تک ہم عدم مرکزیت کے نظام کا حصہ نہیں بنیں گے ۔ یہاں طاقت ور طبقوں کو قانون کی گرفت میں لانا او ران کے لیے قانونی دائرہ کار کو یقینی بنائے بغیر ہم کیسے شفافیت کا نظام قائم کرسکتے ہیں۔
سیاست ، جمہوریت اور ہماری اس سے جڑی فیصلہ سازی یا معیشت کو مضبوط بنانا یا علاقائی تعلقات میں بہتری پیدا کرنے کا عمل عملا متبادل آپشن پر ہوتا ہے ۔ کسی بھی مسئلہ کا مضبوط حل پہلے سے موجود حل کا تجزیہ او رایک متبادل سوچ او رفکر کا تقاضہ کرتا ہے ۔لیکن یہ عمل ایک بڑے فریم ورک میں سیاسی، سماجی ، آئینی ، قانونی او رمعاشی سمیت سیکیورٹی مشاورت سے جڑا ہوا ہے۔
اگر کوئی سمجھتا ہے کہ یہ کام کسی فرد واحد یا کسی بھی بڑے فریق کو نظرانداز کرکے ہوسکتا ہے تو وہ غلطی پر ہے ۔یہاں مسئلہ محض غیر سیاسی فریق ہی نہیں بلکہ ہمارے سیاسی فریق بھی ہیں جو کسی بھی طور پر خود کو تبدیل کرنے کے لیے تیار نہیں ۔ جب سیاسی نظام بانجھ پن کا شکار ہوگا اور کچھ بھی نیا پن سامنے نہیں لایا جائے گا تو سیاسی قیادت ہوں یا سیاسی جماعتیں یا سیاسی نظام وہ بھی اپنی اہمیت کھودیتے ہیں۔
یہ جو سیاست میں ایک دوسرے کو گرانے، وجود کو قبول نہ کرنے کی روایت یا سیاسی دشمنی اختیارکرنے کے عمل نے مجموعی طور پر ہماری سیاست اور ریاست دونوں کو کمزور کیا ہے ۔جب علاقائی او رخارجہ پالیسی کی بات ہوتی ہے تو ہمیں اس میں دشمن پیدا کرنے یا دشمن کو پالنے کے بجائے ان کے ساتھ تعلقات کو بہتر بنانا یا ان کو بہتر تعلقات کے لیے جوڑنا ہی ہماری سیاسی حکمت عملی کا حصہ ہونا چاہیے۔ اس وقت بھارت اور افغانستان ہمارے لیے دو بڑے چیلنج ہیں ۔ ان کے ساتھ بہتر تعلقات ہی ہمارے مسائل کی کنجی ہے۔
ہمیں اپنی خارجہ یا علاقائی پالیسی میں جذباتیت کی آنکھ سے معاملات کے بجائے ہوش سے اور زیادہ دانش سے معاملا ت کا کوئی حل نکالنا ہوگا ۔جو دنیا میں عالمی اور علاقائی سطح پر تبدیلیاں رونما ہورہی ہیں، ان میں خود کو ایک ایسی جگہ پر رکھنے کی کوشش جو ہمیں فائدہ دے سکے اور ہماری اہمیت کو بڑھاسکے ، ہماری ترجیح ہونی چاہیے۔
مسائل کے حل میں کسی بھی سطح پر ڈیڈ لاک پیدا کرنا یا غیر لچک دار رویہ ہمارے حق میں نہیں ہوگا۔ہماری خارجہ پالیسی کی بنیاد معیشت کی ترقی ، لوگوں کے مفادات کو فائدہ پہنچانے ، نیا روزگار پیدا کرنے ، اندرونی اور بیرونی سرمایہ کاری اور صنعتوں کا فروغ او رانسانی ترقی بالخصوص کمزور طبقات کو مستحکم کرنے سے جڑا ہونا چاہیے۔
اب سوال یہ ہے کہ کیا ہماری حکمران اشرافیہ میں ایسے حالات کا مقابلہ کرنے یا ان مسائل سے نمٹنے کی صلاحیت نظر آتی ہے۔کیونکہ اگر ہم نے آگے بڑھنا ہے تو ہمیں کچھ نیا کرنا ہوگا ۔اس نئے کو کرنے کے لیے پرانے خیالات او رپرانی حکمت عملیوں سے باہر نکل کر ایک جدید سیاسی ، انتظامی ، قانونی ، معاشی اور حکمرانی کے فریم ورک کو بنیاد بنانا ہوگا۔
اسی طرح بہت سے معاملات کا حل روائتی عمل سے نہیں بلکہ غیر معمولی اقدامات اور آوٹ آف باکس جاکر تلاش کرنا ہوگا ، یہ ہی حکمت عملی ہمیںداخلی ، علاقائی او رعالمی استحکام او رترقی سے جوڑ سکے گی ۔