یہاں اصلی اور نسلی کون ہے
کب، کون پیارا اور لاڈلہ ہوجائے کسی کو پتا نہیں اورکون نظروں سے گرجائے اور قید وبند کی صعوبتیں برداشت کرتا پھرے
عوامی مسلم لیگ کے سربراہ شیخ رشید اکثر اپنے بیانوں میں خود اپنی تعریف کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ موصوف ہی اس ملک میں اصلی اور نسلی سیاستداںہیں یعنی ان کی نظر میں باقی سارے سیاسی رہنما جعلی اور غیر نسلی ہیں۔
وہ مزید یہ بھی کہتے ہیں کہ PTI کے بانی کے لیے انھوں نے گزشتہ دنوں ایک چلّہ بھی کاٹا تھااور وہ اُن کے وفادار ہیں اورہمیشہ وفادار ہی رہیں گے۔ اس ملک میںہمیں بہت کم ہی ایسے سیاسی رہنما ملیں گے جنھوں نے اپنی سیاسی وفاداریاں اورپارٹی نہ بدلی ہو۔
اس معاملے میں پاکستان پیپلزپارٹی اور جماعت اسلامی ہمیں کچھ بہتر نظر آتی ہیں جن کے رہنماؤں نے کم کم ہی سیاسی وفاداریاں بدلی ہیں، ورنہ بہت سے سیاسی رہنماؤں نے بدلتے حالات اورذاتی مفادات کے مطابق پارٹیاں بدلی ہیں۔
شیخ رشید ایک عرصے تک مسلم لیگ ن کا حصہ رہے ہیں، وہ اس زمانے میں میاں نوازشریف کے قصیدے اُسی طرح پڑھاکرتے تھے جس طرح آج کل وہ بانی پی ٹی آئی کے پڑھا کرتے ہیں، وہ اس وقت تک مسلم لیگ ن کے ساتھ رہے جب میاںنوازشریف نے انھیں 2002 میں مشرف دور کے انتخابات میں پارٹی کا ٹکٹ دینے سے انکار کر دیا۔ میاں صاحب سے ان کی مخالفت اسی روز سے شروع ہوتی ہے۔ اس کے بعد وہ نو دس سالوں تک اکیلے ہی سیاست کرتے رہے۔
اُن کی سیاسی پارٹی میں وہ اوراُن کے کچھ بھانجے بھتیجے ہی شامل رہے ہیں ورنہ وہ خود اپنی پارٹی کے بارے میں یہی کہتے رہے ہیں کہ وہ تو اکیلے ہی اس کے سربراہ بھی ہیں اورممبر بھی۔ 2011میں سیاسی منظر نامہ تبدیل ہوتا دیکھ کر انھوں نے ایک ایسی دوسری پارٹی کے ساتھ اتحاد کرنا اپنی ساکھ اور سیاست کو زندہ رکھنا ناگزیر جانا جسے اس وقت کی اسٹبلشمنٹ کی مکمل سپورٹ حاصل تھی۔
یہ پارٹی انھیں اس لیے بھی سوٹ کرتی تھی کہ وہ پنجاب میں نواز شریف کے اثر و رسوخ کو توڑنے کے لیے میدان میں لائی گئی تھی ورنہ اس سے پہلے وہ خان صاحب کی سیاست کے بارے میں جو کچھ TV پروگراموں میں کہتے رہے وہ کسی سے بھی ڈھکا چھپا نہیں ہے۔ 1996 سے لے کر 2011 تک کسی کو بھی معلوم نہ تھا کہ بانی پی ٹی آئی کی تحریک انصاف اس طرح کبھی عوامی پذیرائی حاصل کر پائے گی۔ یہ تو پس پردہ قوتوں کی مہربانی تھی کہ جس نے PTI کو اتنی جلابخش دی ۔
شیخ صاحب ویسے تو خود کو اس ملک کی اسٹیبلشمنٹ کا زبردست جانثار اور وفادار ظاہرکرتے رہتے ہیں لیکن نوازدشمنی میں انھوں نے اپنی ترجیحات بدل دیں۔
گیٹ نمبر 4 کی پیداوارجیسے چٹکلے اور اسٹیبلشمنٹ کی نرسری میں پرورش پانے والوں کے بارے میں فقرے بازی اُن کا دیرینہ مشغلہ رہا ہے، وہ اپنے ایسے بیانوں سے ایک طرف اپنے مخالفوں کو نشانہ بنا رہے ہوتے ہیں تو دوسری طرف مقتدر قوتوں پر تنقید کے تیربھی چلارہے ہوتے ہیں۔
خود کواصلی اورنسلی ثابت کرنے کے لیے کیا صرف یہی ضروری ہے کہ ہر چند روز بعد میڈیا اوراخبارات کے لیے ایک بیان داغ دیا جائے، اگر ایساہوتا تو جو لوگ 9 مئی 2022 کے بعد PTIسے علیحدہ نہ ہوئے ہیں وہ بھی ایسا کر لیتے اورخود کو اصلی اور نسلی کہتے پھرتے۔ بہت سے سیاستداں جنھوں نے ایک ایسے وقت جب پارٹی کا طوطی سر چڑھ کربول رہا تھا، بھلا کیوں خود کو اصلی اور نسلی ہونے والوں کی فہرستوں سے نکال باہرکرتے، اگر اصلی اورنسلی ہونے کا معیار اگر یہی ہے تو پھر یہاں کوئی بھی اصلی اور نسلی نہیں کہلائے گا، سب نے حالات اوروقت کی ضرورت کے تحت اپنی سیاسی وفاداریاں بدلی ہیں، چند ایک ہی ایسے رہنما ہیں جن کے دامن پریہ داغ ابھی نہیں لگا۔
پارٹیاں بدلنا ویسے کوئی غلط اورکوئی عیب بھی نہیں ہے، جنھوں نے ماضی میں اگر کوئی غلط فیصلہ کر لیا تھا تو انھیں اُسے درست کرنے کی اجازت ہونی چاہیے۔ پیپلز پارٹی کے ندیم افضل چن نے بھی کچھ دنوں کے لیے تحریک انصاف جوائن کر لی تھی لیکن انھیں بہت جلد اپنے اس فیصلے کے غلط ہونے کا احساس ہوگیا اور وہ واپس پیپلز پارٹی میں آگئے۔
کسی پارٹی میں شامل ہو کر ہی اندر کے حالات کا پتا چلتا ہے، لیکن اس کا مطلب یہ ہرگز نہیں کہ پارٹی بدلنا والا اصلی اورنسلی نہیں رہا۔ اسی طرح اگر کچھ سیاستدانوں نے مسلم لیگ نون سے علیحدگی اختیار کر لی ہے تو کیا وہ بھی خدا نخواستہ اصل اور نسلی نہیں رہے۔
دیکھا جائے تو 9مئی کے افسوسناک واقعے کے بعد بہت بڑی تعداد میں سیاستدانوں نے PTI سے علیحدگی اختیار کر لی ہے تو اس کا مطلب ہرگز نہیں کہ وہ سارے کے سارے غیر نسلی ہوگئے ہیں۔ 2018 میں مسلم لیگ نون پر بھی ایک مشکل دور آیا تھا لیکن وہاں اس کے لوگ اس سے جڑے رہے، شاید ہی کسی نے حالات سے سمجھوتہ کر کے پارٹی چھوڑی ہو، وہ سب کے سب پارٹی کی قیادت کے ساتھ کھڑے رہے حالانکہ اُن کے پاس بھی پارٹی چھوڑنے کا واضح اور ٹھوس جواز موجود تھا، جب اُن کی لیڈرشپ نے خود ساختہ جلا وطنی اختیار کر لی تھی۔
پارٹی کے کئی رہنما یہاں نیب کی عدالتوں کے چکرکاٹتے رہے اورکئی کئی ماہ تک جیلوں میں بھی رہے لیکن کسی نے ہمت ہارکر پارٹی نہیں چھوڑی۔ ہمارے خیال میں وہ سارے لوگ اصلی اورنسلی ہیں جنھوں نے ان سخت گیر حالات میں بھی ثابت قدمی دکھائی۔
کچھ سیاستدان PTI کے ساتھ اس وقت تک کھڑے دکھائی دیں گے، جب تک انھیں کوئی اور آسرا یاآشیانہ نہیں مل جاتا۔ موجودہ سیاسی منظر نامے میں اُن کے لیے یہی سود مند ہے کہ وہ خان کی حمایت جاری رکھیں۔ ہوسکتا ہے کل کلاں حالات پھر کروٹ بدل لیں اورسب کچھ بانی پی ٹی آئی کے لیے موافق ہوجائے، پھر حامی سیاستدانوں کے دن بھی بدل جائیںگے اور وہ وصول کنندہ کی صف میں کھڑے ہونگے۔
اس ملک میں سیاست اسی طرح ایک غیر یقینی چیز ہے۔ کب، کون پیارا اور لاڈلہ ہوجائے کسی کو پتا نہیں اورکون نظروں سے گرجائے اور قید وبند کی صعوبتیں برداشت کرتا پھرے کسی کو بھی معلوم نہیں۔ شاید اسی لیے شیخ صاحب نے اپنی ایک علیحدہ پارٹی بنا رکھی ہے۔ وہ خان صاحب کی حمایت ضرور کرتے ہیں لیکن اُن کی پارٹی میں شامل بھی نہیں ہوتے ہیںشاید اس لیے کہ ضرورت پڑنے پر اُن سے لاتعلقی اختیار کرنے کی گنجائش باقی رہے۔