عمومی طور پر دیکھا جائے تو دنیا میں جتنے بھی انسان ہیں ان کی زندگی گزارنے کے نظریات دو قسم کے ہیں۔ ایک وہ گروہ ہے جو زندگی گزارنے کےلیے کسی مذہب کا قائل ہے کہ کوئی اس دنیا کو بنانے والا ہے اور جو بنانے والا ہے اس کے احکامات کے مطابق زندگی گزاری جائے، جبکہ دوسرا گروہ وہ ہے جس کا خیال ہے کہ دنیا کسی نے نہیں بنائی، لہٰذا زندگی گزارنے کےلیے اصول ہم خود بنا لیں اپنی مرضی سے۔
جن لوگوں کا یہ نظریہ ہے کہ دنیا کسی نے بنائی ہے، کوئی دنیا کا بنانے والا ہے اور اس کے مطابق زندگی گزاری جائے، ان لوگوں کے دو گروہ ہیں۔ ایک گروہ وہ ہے جو ایک سے زیادہ خدا کے تصور پر یقین رکھتا ہے، اور دوسرا گروہ وہ ہے جو خدا کی وحدانیت پر یقین رکھتا ہے اور یہ گروہ مسلمانوں کا ہے، جو سب سے منفرد ہے، جس کا خیال ہے کہ دنیا بنانے والا ایک ہے اور اس نے جو احکامات دیے ہیں اس کے مطابق زندگی گزارنی چاہیے اور ان احکامات میں سب سے اہم پہلو یہ ہے کہ اللہ نے جو احکامات دیے ہیں اس کے مطابق اس روئے زمین پر نظام قائم کیا جائے۔ یوں یہ نظام ریاستی سطح پر بھی ہوگا، معاشرتی سطح پر بھی ہوگا، غرض ہر لحاظ سے ہوگا۔
جب حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے مسلمانوں کی پہلی ریاست قائم کی تو اس کے بعد مسلمانوں نے اسلامی ریاست کو دور دور تک پھیلانے کےلیے بھرپور کوششیں کیں تاکہ دنیا کی تمام ریاستوں میں اللہ تعالیٰ کے احکامات کے مطابق نظام قائم ہوجائے۔ یعنی ایک مسلمان کی زندگی کا مقصد یہ بھی ہے کہ اس زمین پر جہاں تک ممکن ہوسکے اللہ تعالیٰ کا دیا گیا نظام نافذ کیا جائے۔
ظاہر ہے برصغیر کے مسلمانوں کا بھی یہ نظریہ تھا، چنانچہ انہوں نے کوشش کی کہ اس پر عمل بھی کیا جائے اور اس ضمن میں مختلف کوششیں کی گئیں۔ لیکن جب ایک کوشش علیحدہ وطن کے نام پر کی گئی تو برصغیر کے مسلمانوں نے اس موقع کو غنیمت جانا اور اپنے طور پر یہ سمجھا کہ ہم ایک الگ ملک لے کر اس میں اللہ کے احکامات کے مطابق قانون نافذ کریں گے۔ گویا صحیح معنوں میں اس ایک ایسی اسلامی ریاست بنائیں گے جس کا حکم اللہ تعالیٰ نے ہمیں دیا ہے۔ چنانچہ یہی وجہ ہے کہ وہ لوگ جو مسلمان ہونے کے باوجود قیام پاکستان کے نظریے کو درست نہیں سمجھتے تھے، پاکستان بننے کے بعد انہوں نے بھی کھلے دل سے پاکستان کو قبول کرلیا۔
یہاں یہ بات ذرا ذہن میں رکھنی چاہیے کہ دین کا مطالبہ مسلمانوں سے یہی ہے کہ صرف روٹی دال دلیہ کھا کر زندگی نہ گزاری جائے بلکہ اللہ کے جو احکامات ہیں یا نظام ہے، اس کو زمین پر قائم کیا جائے۔ یہی بات ہمیں اسلامی تاریخ میں نظر آتی ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے دنیا سے جانے کے بعد بھی مسلمانوں نے اس سلسلے میں اپنی کوششیں جاری رکھیں اور زمین کے زیادہ سے زیادہ خطے پر اسلامی ریاست قائم کی تاکہ اللہ کا نظام قائم ہو جائے۔ اسی طرح برصغیر کے مسلمانوں نے ترکی میں نظام خلافت کو برقرار رکھنے کےلیے ہندوستان میں تحریک چلائی۔
یہی وجہ ہے کہ جب پاکستان بن گیا تو بھارت کے مسلمانوں نے بڑی تعداد میں ہجرت کرکے پاکستان آنے کو ترجیح دی تاکہ ایک طرف تو ہجرت کی سنت کو دوبارہ قائم کیا جائے اور دوسری طرف اس نئے ملک کو مضبوط کیا جائے تاکہ یہاں اسلام کا نظام قائم ہوسکے۔ اس کے بعد 1971 میں پاکستان پر برا وقت آیا اور بنگلہ دیش کے قیام کےلیے کوششیں کی گئیں تو مہاجروں کی ایک بڑی تعداد جن کو بہاری یا مہاجر کہتے ہیں، انہوں نے دوبارہ سے اس ملک کو بچانے کےلیے کوششیں کیں۔ ان کی کوششوں کا مطلب بھی یہی تھا کہ ایک ایسا ملک قائم رہے جو اسلام کے نام پر قائم ہوا ہے اور اس میں دیر سے سہی لیکن اسلامی نظام قائم ہو۔ ظاہر ہے اسی لیے مہاجروں نے مشرقی پاکستان میں ایک بار پھر اپنے نظریہ حیات کو سامنے رکھتے ہوئے جان و مال کی قربانیاں دیں، اور اج بھی وہ بنگلہ دیش کے کیمپوں میں زندگی گزار رہے ہیں۔
جب مشرقی پاکستان میں پاکستانی فوج نے ہتھیار ڈال دیے اور پھر پاکستانی حکومت نے بھی بنگلہ دیش کے قیام کو تسلیم کرلیا تب یہ وہ مہاجر تھے جنہوں نے اس نظریے کو کبھی خیر باد نہیں کہا اور آج بھی انتہائی پسماندہ زندگی گزارنے کے باوجود اپنے کیمپوں میں پاکستانی جھنڈے لگائے ہوئے ہیں۔
قیام پاکستان کے بعد مہاجروں نے اس ملک کو معاشی لحاظ سے بھی مضبوط بنانے کی کوششیں کیں اور دفاعی لحاظ سے بھی۔ صرف ایک مثال ڈاکٹر عبدالقدیر خان کی ہی لے لیجئے کہ جنہوں نے اس ملک کو نہ صرف ایٹم بم دیا ہے بلکہ اس کے بعد بھی وہ اسرائیل تک مار کرنے والے میزائل پر کام کر رہے تھے۔ مگر افسوس اس ملک کے حکمرانوں نے ان کے ساتھ اس قدر زیادتی کی کہ وہ سخت مایوس ہوگئے۔
مہاجروں نے سیاسی اعتبار سے بھی اس ملک میں ہمیشہ مذہبی جماعتوں کا ساتھ دیا کہ کسی طریقے سے اس ملک میں صحیح اسلامی نظام قائم ہوجائے جس کے لیے یہ ملک بنا تھا۔ مگر افسوس ایسا نہ ہوا بلکہ جب مہاجروں کو بطور مہاجر مختلف مسائل کا سامنا کرنا پڑا اور ان سیاسی اور مذہبی جماعتوں نے ان کے مسائل کی طرف توجہ نہ دی تو بالآخر ان مہاجروں نے مذہبی جماعتوں کا ساتھ چھوڑ کر لسانی سیاست کا رخ کیا۔
ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ ملک کی تمام سیاسی اور مذہبی جماعتیں ان کے مسائل کو اپنے منشور میں شامل کرتیں مگر افسوس جن جماعتوں کےلیے مہاجروں نے ہمیشہ کام کیا انہوں نے الٹا لفظ مہاجر کو غیر اسلامی قرار دے دیا۔ یہ وہ فاش غلطی تھی کہ جس کے بعد اردو بولنے والے مہاجروں کی نئی نسل مذہبی سیاسی جماعتوں سے متنفر ہونے لگی اور ایک لسانی جماعت میں سمٹ کر رہ گئی۔
مہاجروں کے مسائل حل کرنے کے حوالے سے جتنے بھی پلیٹ فارم منظر عام پر آئے ان تمام میں دو بڑے مطالبات شامل تھے، ایک یہ کہ کوٹہ سسٹم ختم کیا جائے اور دوسرے بنگلہ دیش سے بہاریوں یعنی مہاجروں کو واپس پاکستان لایا جائے۔
یہ دونوں مطالبات نہ تو غیر شرعی تھے نہ غیر اخلاقی، مگر افسوس اس پر پاکستان کی تمام جماعتوں نے خاموشی اختیار کرلی۔ یہ خاموشی خود اسلامی لحاظ سے انتہائی غیر مناسب اور غیر منصفانہ تھی۔ یہی وجہ ہے کہ مہاجروں کا ووٹ بینک اب اسلامی سیاسی جماعتوں میں انتہائی کم ہے، جس کی وجہ سے ملکی سطح پر بھی مذہبی سیاسی جماعتیں کمزور ہوئیں۔
اس سارے عمل سے ایک بڑا نقصان یہ ہوا کہ مہاجروں کی نئی نسل جس جماعت سے منسلک ہوئی وہ قوم پرست ہے اور ظاہر ہے اسلامی جماعت اور قوم پرست جماعتوں کے نظام میں، سوچ میں زمین و آسمان کا فرق ہوتا ہے۔
چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ ایم کیو ایم پر صرف زبردستی کھالیں، چندہ لینے، بھتے اور قتل و غارت گری کے الزامات ہی نہیں لگے بلکہ خود ان کی اپنی جماعت کے اہم رہنما مثلاً عظیم احمد طارق اور فاروق احمد کے قتل کے الزامات بھی سامنے آئے۔ یہ نعرہ بھی سامنے آیا کہ جو قائد کا غدار ہے وہ موت کا حقدار ہے۔ (گو کہ مہاجروں کی اس نمائندہ جماعت کے کارکنوں اور عام مہاجروں کے ساتھ بھی ریاست کی جانب سے نہایت ظلم و ستم ہوا، حقوق انسانی کی خلاف ورزیاں بھی کی گئیں۔ یہ الگ کہانی ہے۔)
اب اہم سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ مہاجر اپنے حقوق، اسلامی نظریہ حیات کے دائرے کے اندر لینا چاہیں گے یا اس دائرے سے باہر نکل کر؟ یہ ایک بڑا اہم سوال ہے۔
اس سوال کا جواب یہی ہے کہ جس نظریے کےلیے یا جس نظریہ حیات کےلیے مہاجروں کے آباؤ اجداد نے اپنی جان اور مال کی قربانیاں دیں اور آج بھی دے رہے ہیں۔ یہ ایک بڑی اہم اور بنیادی بات ہے جو مہاجر نام کی سیاست پر کہیں گم ہوگئی ہے۔
بطور مہاجر اس نکتے کو سمجھنا چاہیے کہ جو بھی کوششیں کرنی ہیں، وہ اپنے اسلامی نظریہ حیات کے دائرے میں رہ کر کرنی ہیں۔ کیونکہ مہاجروں کے آباؤ اجداد نے بھی اسی نظریہ حیات کےلیے اپنی تمام کوششیں کی تھیں۔ اگر اس نظریہ حیات کے دائرے سے باہر نکل گئے تو مہاجر اپنے اسلاف کی پچھلی تمام قربانیوں کو بھی برباد کردیں گے۔
ان گزارشات کا مطلب یہ نہیں کہ مہاجر کوئی اسلامی جماعت بنالیں، لیکن یاد رکھنے کی بات یہ ہے کہ جو بھی کوشش کریں، جس پلیٹ فارم سے بھی کوشش کریں، وہ اسلامی نظریہ حیات کے دائرے میں ہونی چاہیے۔
سب سے بڑی خرابی یہی رہی ہے اب تک مہاجر نام پر جتنی بھی سیاست کی گئی، اس میں وہ اصول بھی بنا لیے جن کی اسلام میں قطعی کوئی گنجائش نہیں۔ سوال یہ ہے کہ کوئی مسلمان کسی دوسرے مسلمان سے زبردستی چندہ یا بھتہ لے سکتا ہے؟ جب اسلامی دائرے سے نکل کے اصول بنائے تو پھر ہم نے آپس میں بھی ایک دوسرے کو قتل کرنا شروع کردیا۔ سوال یہ ہے کہ کیا یہ قتل و غارت گری صرف کسی شخصیت یا جماعت سے وفاداری کے نام پر اسلام میں جائز ہے؟ ذرا اسلامی تاریخ پر نظر ڈالیے، خلیفہ وقت منبر پہ کھڑا ہوتا ہے اور ایک آدمی کھڑے ہوکر اعتراض کرتا ہے کہ آپ کا جو کُرتا ہے اس میں کپڑا زیادہ استعمال ہوا ہے، تو مال غنیمت میں سے آپ نے زیادہ کپڑا کیسے لے لیا؟ یہ ہے اسلامی تعلیمات، یہ ہے اسلامی دائرہ۔ کیا ہم کسی کارکن کی تنقیدی گفتگو برداشت کریں گے؟ کیا ہمارا سب سے بڑا جرم یہ نہیں ٹھہرا کہ جس نے اختلاف کیا اس کی شامت آگئی۔
الیکشن میں اردو بولنے والے حریف امیدواروں سے کہا گیا کہ بیٹھو گے یا لیٹو گے؟ کیا مہاجروں کے آباؤ اجداد اپنے مخالفین سے اسی طرح نمٹتے رہے ہیں؟ کیا ہمیں نہیں معلوم یہ دھونس دھمکیاں دینا نہ تو اسلامی نظریے کا کوئی اصول ہے، نہ ہی ہمارے اسلاف کی تعلیمات کا حصہ ہے؟ یہی وجہ ہے کہ اتنی بڑی کامیابی حاصل کرنے کے بعد بھی مہاجر آج خالی ہاتھ اور تنہا کھڑے ہوئے ہیں اور ان کے بڑے مسائل آج بھی جوں کے توں قائم ہیں، بلکہ دیکھا جائے تو ان میں اضافہ ہی ہورہا ہے۔
نہایت افسوس کا مقام ہے کہ ان مہاجر رہنماؤں نے جو زبانیں مخالفین کےلیے استعمال کیں وہ اس قدر نازیبا ہیں کہ مخالفین آج ان کی ویڈیو پروپیگنڈے کے لیے استعمال کرتے ہیں، جب کہ مہاجر تو وہ مہذب قوم ہے جس کی دنیا میں مثالیں دی جاتی ہیں۔ مختصر یہ ہے کہ ایک جانب مہاجر سیاست کرکے ایم کیو ایم کو عروج تو حاصل ہوا مگر اس کے ساتھ ہی اس پر بھتہ خوری، کرپشن، قتل و غارت گری کا لیبل بھی لگا۔ جبکہ مہاجر پہلے سے بھی زیادہ پستی میں چلے گئے۔ جس کی وجہ یہی تھی کہ مہاجر نعرہ تو لگایا گیا مگر ''مہاجر نظریہ'' کی جگہ ''مہاجر قوم پرستی کا نظریہ'' اپنایا گیا، جو کہ ظاہر ہے اسلامی دائرہ سے باہر ہے۔ جس کے اصول بھی جدید قوم پرست والے ہوتے ہیں اسلامی نہیں اور اسی غلطی کا خمیازہ ابھی تک پوری مہاجر قوم بھگت رہی ہے۔
آج یہ کوئی راز نہیں کہ دوسروں کو وڈیروں کی غلامی سے نکلنے کا درس دینے والے خود شہری وڈیرے بن گئے۔ مڈل کلاس کا نعرہ لگانے والے، 120 گز کے گھروں میں رہنے والے، بڑی بڑی کوٹھیوں کے مالک بن بیٹھے ہیں اور بڑے بڑے بزنس مین بن گئے ہیں۔ اگر اسلامی نظریہ اپناتے تو حلال و حرام کی تمیز کرتے تو یہ انجام نہ ہوتا۔ اب بھی وقت ہے کہ مسلمانوں والا اصل ''مہاجر نظریہ'' اپنایا جائے، یعنی وہ نظریہ جو مہاجروں کے اسلاف نے اپنایا اور جس کےلیے اس وطن کا خواب بھی پورا کیا۔ یعنی مہاجر حقوق کی جدوجہد، اسلامی تعلیمات کے دائرے میں ہو نہ کہ اپنے خودساختہ اصولوں پر مبنی ہو۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 800 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔