نو آبادیاتی تسلط کل اور آج آخری حصہ
اس نظام کے نمایندہ ممالک امریکا کی سرکردگی میں پوری دنیا میں یہ مہم چلارہے ہیں کہ جنگلوں کو ختم ہونے سے بچایا جائے
اس بات پر پوری دنیا میں اتفاق رائے پایا جاتا ہے کہ کرہ ارض کی فضا میں جس بھاری مقدار میں کاربن ڈائی آکسائیڈ اگلی جاری ہے، اس سے ماحولیات کو شدید خطرات درپیش ہیں اور اگر اس مسئلے پر فوری قابو نہ پایا گیا تو پوری دنیا کا ماحولیاتی نظام درہم برہم ہوجائے گا۔
تاہم، جدید نوآبادیاتی دور میں جو ترقی یافتہ ملک دنیا پر بالواسطہ قبضہ جمائے ہوئے ہیں وہ اس اہم ترین مسئلے کو نظر انداز کرنے کا خطرناک رویہ اختیار کیے ہوئے ہیں۔
اعداد و شمار سے معلوم ہوتا ہے کہ ہر سال کاربن کے پانچ ارب ٹن ٹھوس ذرات فضا میں شامل ہوتے ہیں، لیکن اس حقیقت کو عام طور سے پوشیدہ رکھا جاتا ہے کہ سب سے زیادہ کاربن ڈائی آکسائیڈ صرف ایک ملک فضا میں اگلتا ہے۔ کیا آپ کو اس ملک کا نام معلوم ہے؟
اگر نہیں تو سن لیں کہ یہ ملک امریکا ہے۔ ریوڈی جنیروکی ارتھ کانفرنس میں جب اس مسئلے کو اٹھایا گیا اورکہا گیا کہ فضا کو مسموم کرنے والی اس زہریلی گیس کے اخراج میں کمی کا کوئی نظام الاوقات طے کرلیا جائے تو امریکا نے ایسا کرنے سے انکار کر دیا۔
آج جب عالمی حدت کی وجہ سے پیدا ہوتی موسمیاتی تبدیلیوں نے پورے کرہ ارض کے وجود کو خطرے میں ڈال دیا ہے اور جس کے نتیجے میں معیشت بھی تباہ ہوسکتی ہے تو امریکا بھی مجبور ہوکر ماحول کو فضائی آلودگی سے بچانے اور اوزون کی پرت میں پھیلتے ہوئے شگاف کو مزید بڑھنے سے روکنے کے لیے پوری دنیا میں زبردست مہم چلارہا ہے لیکن اس میں بھی خود کچھ کرنے کے بجائے ترقی پذیر ملکوں پر دبائو ڈالا جا رہا ہے۔
امریکا اور مغربی یورپ کے ملک تیسری دنیا میں ایسی غیر سرکاری انجمنوں کی سرپرستی اور کفالت کر رہے ہیں جو ماحول کے تحفظ کے لیے کام کرنے کی دعویدار ہیں۔ یہ انجمنیں ترقی پذیر ملکوں کی حکومتوں پر دباؤ ڈالتی ہیں کہ وہ ایسے منصوبے شروع نہ کریں جن سے ماحول میں آلودگی پیدا ہوتی ہے۔
امریکا اور اس کے حلیف یورپی ملک ان این جی اوز کے ذریعے تیسری دنیا میں بڑے ڈیموں کی تعمیر کے خلاف مہم چلواتے ہیں۔ ہائیڈل پاور منصوبوں کی تو مخالفت کی جاتی ہے لیکن انھی ملکوں میں لگنے والے تھرمل بجلی گھروں کے خلاف نہ امریکا اور نہ اس کی غیر سرکاری تنظیمیں کسی قسم کا احتجاج کرتی ہیں، کیونکہ یہ تھرمل پاور پروجیکٹ امریکا اور مغرب کی بڑی بڑی ملٹی نیشنل کمپنیاں لگاتی ہیں۔
یہ مثال ظاہر کرتی ہے کہ دنیا پر ایک ایسا نیا سامراجی نظام مسلط ہوچکا ہے جو ماحولیات کے تحفظ، بنیادی حقوق اور جمہوریت کے پردے میں اپنے معاشی مفادات کو آگے بڑھاتا ہے اور کھلی منافقت کا مظاہرہ کرتے ہوئے ایشیا، افریقہ اور لاطینی امریکا کے غریب ملکوں کا استحصال کرتا ہے۔
کوپ 28 کی حالیہ بین الاقوامی کانفرنس میں بھی ترقی یافتہ ملکوں نے سنجیدہ طرز عمل اختیار نہیں کیا۔ زہریلی گیسوں کا سب سے زیادہ اخراج کرنے والے ملک ترقی پذیر ملکوں کو مدد کے وعدے کرتے ہیں جو اکثر پورے نہیں کیے جاتے۔ پاکستان کی مثال لیں جو کاربن کا 1 فیصد سے کم اخراج کرتا ہے لیکن موسمیاتی تبدیلی سے متاثرہ سرفہرست ملکوں میں شامل ہے۔
دنیا میں قائم اس نئے جدید نوآبادیاتی نظام کی ایک اور جھلک ملاحظہ فرمائیں۔ ان دنوں اس نظام کے نمایندہ ممالک امریکا کی سرکردگی میں پوری دنیا میں یہ مہم چلارہے ہیں کہ جنگلوں کو ختم ہونے سے بچایا جائے۔ اس بات سے کوئی اختلاف نہیں کرسکتا کہ جنگل اگر اسی تیزی سے کٹتے رہے تو بارشیں نہیں ہوں گی جس سے خشک سالی پھیلے گی اور جہاں بارشیں ہوں گی وہاں جنگلوں کے نہ ہونے سے سیلاب آئیں گے۔ دنیا کا درجہ حرارت بڑھے گا۔ قدرتی ماحول خراب ہوگا اور جنگلی حیات رفتہ رفتہ ناپید ہوجائے گی۔
ان تمام حقائق سے قطع نظر اب یہ دیکھنا چاہیے کہ یہ ملک اس اہم عالمی مسئلے کو اپنے مفاد میں کس طرح استعمال کررہے ہیں۔ 19ویں اور20 ویں صدی کے دوران امریکا میں جس بڑے پیمانے پر جنگلات کو کاٹا گیا اس کی مثال شاید پوری تاریخ میں نہیں ملتی۔ مغربی آبادکاروں کو کھلی چھوٹ دی گئی کہ وہ جنگلوں کو کاٹ کر جس قدر چاہیں زمین حاصل کرلیں۔
آج امریکی حکومت ان جنگلوں کو میدان میں تبدیل کرنے والے کاشت کاروں کو اس زمین پر کاشت نہ کرنے کا معاوضہ ہر سال 75ارب ڈالر کی صورت میں ادا کرتی ہے تاکہ اگر مستقبل میں ضرورت پڑے تو ان میدانوں کو دوبارہ زراعت کے کام میں لایا جاسکے۔
آج کوئی امریکی حکومت سے یہ سوال پوچھنے کی جرأت نہیں کرتا کہ جب وہ ہر سال اربوں ڈالر '' فارم سبسڈی '' کے نام پر اس لیے دیتی ہے کہ ان زمینوں کو خالی رکھا جائے تو وہ اسی رقم سے یہاں دوبارہ جنگل کیوں نہیں لگاتی۔ اپنے مفاد کی خاطر پہلے جنگلوں کو بے دردی سے کاٹا گیا اب ہر سال اربوں ڈالر صرف اس لیے دیے جارہے ہیں کہ ان زمینوں کو خالی رکھا جائے تاکہ یہاں جنگل دوبارہ نہ پیدا ہوجائیں جب کہ دوسری طرف تیسری دنیا کے ملکوں پر پورا دباؤ ڈالا جارہا ہے کہ وہ جنگلوں کو نہ کاٹیں۔
اس وقت بھی پوری دنیا کے سب سے زیادہ جنگل ایشیا اور لاطینی امریکا میں پائے جاتے ہیں۔ کیا اسے ستم ظریفی نہیں کہنا چاہیے کہ یہ ملک اپنے یہاں جنگل نہ اگانے کے لیے اربوں ڈالر سالانہ کی زر اعانت دیتے ہیں اور دوسرے ملکوں کو اس حوالے سے بلیک میل کرتے ہیں۔
ایک مضبوط نظریہ سامنے آرہا ہے کہ پرانے سامراجی نظام کی جگہ دنیا میں جو جدید نوآبادیاتی نظام وجود میںآیا ہے وہ ورلڈ بینک، آئی ایم ایف اور ڈبلیو ٹی او جیسے اداروں کے ذریعے تیسری دنیا کے ملکوں کا استحصال کرتا ہے اور ان پر اپنا من پسند معاشی نظام مسلط کرتا ہے۔
انٹلیکچوئیل پراپرٹی اور پیٹنٹ رائٹ جو مکمل طور پر نجی شعبے کا معاملہ ہے اس کو اب بین الاقوامی معاہدوں کا ایک باضابطہ حصہ بنا دیا گیا ہے۔ ان دو حوالوں سے اب ہر ایجاد اور اختراع پر سامراجی ممالک اپنی اجارہ داری قائم کرچکے ہیں۔ تیسری دنیا کے ملک اب نہ اس قسم کی اشیا یا مصنوعات تیار کرسکتے ہیں اور نہ اسے گھریلو یا بیرونی منڈیوں میں فروخت کرسکتے ہیں۔
آزاد معیشت کے پردے میں سامراجی سرمایہ بلا کسی روک ٹوک ترقی پذیر ملکوں کی منڈیوں پر قبضہ کر رہا ہے۔ وہ ملک جو آزاد معیشت کی مزاحمت کرتے ہیں یا اپنے مقامی سرمائے اور صنعت کے تحفظ کے لیے تحفظاتی پالیسیاں اختیار کرتے ہیں انھیں ان نام نہاد بین الاقوامی تجارتی معاہدوں کا مخالف قرار دے کر تنہا کردیا جاتا ہے۔
نیا سامراج پوری ترقی پذیر دنیا پر سائنس، ٹیکنالوجی اور سرمائے کی بالادستی قائم کرنے کے ایک باضابطہ منصوبے پر کام کررہا ہے۔ جس کی مثال یہ بھی ہے کہ سامراجی ملک کے سرمائے کو پوری دنیا میں آزادانہ سفر کرنے کی بات تو منوائی جاتی ہے لیکن اسی کلیے کے تحت تیسری دنیا کے کارکنوں کو پوری دنیا میں اپنی محنت فروخت کرنے کی کھلی آزادی نہیں دی جاتی۔
سامراجی ملکوں کو سرمائے کی سبقت حاصل ہے جب کہ ترقی پذیر ملک محنت ((Labour کے شعبے میں برتری رکھتے ہیں لیکن حرکت کی آزادی صرف سرمائے کو حاصل ہے محنت کو نہیں۔
ورلڈ بینک، آئی ایم ایف اور ورلڈ ٹریڈ آرگنائزیشن کی معاشی جارحیت اور ملٹی نیشنل کمپنیوں کا بے محابہ پھیلاؤ نئے سامراجی نظام کے مظاہر ہیں۔ تیسری دنیا کا کوئی ملک تنہا اس نئی سامراجی یلغار کا مقابلہ نہیں کرسکتا۔ اس سے مقابلہ صرف اسی صورت میں ممکن ہے جب تمام ترقی پذیر ملکوں کے عوام اپنے حکمرانوں پر دباؤ ڈالیں کہ وہ اس یلغار کے خلاف متحد ہوجائیں۔
اس کے لیے علاقائی امن اور ترقی پذیر پڑوسی ملکوں کے درمیان تعاون اور دوستی بہت ضروری ہے تاکہ ان کے باہمی اختلافات کی وجہ سے عالمی سطح پر بالادست قومیں فائدہ نہ اٹھا سکیں۔ جب تک ایسا نہیں ہوگا کوئی بھی ترقی پذیر ملک حقیقی معنوں میں معاشی اور سیاسی خود مختاری حاصل نہیں کرسکے گا۔