ایک شور سا مچا اور پھر خاموشی چھا گئی۔ سب بھاگے کہ جانے کیا ہوگیا ہے۔ خواتین گھر کی بالکونیوں سے جھانکے کھڑی تھیں۔ ''ارے ہوا کیا؟'' ایک نے دوسری سے اشاروں میں پوچھا، تو کسی نے آواز لگائی، ''نادی کا نکاح ہوگیا! نادیہ کے گھروالوں نے دو کپڑوں میں ہی اسے رخصت کردیا۔''
نادیہ بھی ان بدقسمت افراد میں سے ایک تھی جن کے خاندانوں میں ونی یا سوارہ کی رسم آج بھی باقی ہے۔ تیرہ برس کی نادیہ کے خاندان کا تعلق سندھ کے ایک گوٹھ سے ہے۔ دیہی علاقوں میں بچیوں کی تعلیم تھوڑی دیر سے شروع ہوتی ہے۔ نادیہ ابھی پانچویں کلاس میں پڑھ رہی تھی۔ وہ بھی ان کو بار بار کہا تو ہی ان کی ماں نے بھائیوں کی مخالفت کے باوجود پہلے ٹیوشن پھر اسکول داخل کرایا تھا۔
ایک دن نادیہ کا ایک بھائی گاؤں سے لڑکی بھگا کر لے آیا۔ کچھ ہی گھنٹے گزرے تھے کہ پولیس پہنچ گئی۔ اس لڑکی کے گھر والوں نے صلح کے طور پر مطالبہ رکھا کہ ہمیں بھی یہ لوگ ایک لڑکی دیں گے۔ اور پھر صلح ہوگئی مگر اس کی وجہ بنی نادیہ۔ نادیہ کا کمزور جسم اس صلح میں مسل دیا گیا۔ دیکھتے ہی دیکھتے سب پہلے جیسا ہوگیا، لیکن نادی، نادیہ بھابھی بن کر رخصت ہورہی تھی۔ کسی کے وہم و گماں میں بھی نہ تھا کہ ایسا کچھ ہوجائے گا مگر ہوگیا تھا۔
ونی ہوتی نادیہ نے آخری بار نہ صرف اپنے گھر پر نگاہ ڈالی بلکہ وہ اس معاشرے کے چہرے پر ونی جیسی رسم کی کالک پر بھی آنسو بہا کر رخصت ہوگئی۔ رواں برس 24 اگست کو بھی سندھ کی علاقے گھوٹکی میں بھی ایسا ہی ایک واقعہ پیش آچکا، جہاں محبت کی شادی کے بدلے بھتیجی کو ونی کردیا گیا۔
ونی یا سوارہ ایک رسم کے دو نام ہیں۔ پنجاب میں اسے ونی جبکہ پختونخوا میں سوارہ کہا جاتا ہے۔ سندھ اور بلوچستان میں بھی اسی طرح کی رسمیں ہیں جن کے ذریعے دو خاندانوں میں بطور جرمانہ یا ہرجانہ لڑکیاں دی جاتی ہیں، بعض اوقات تو کم سن لڑکیاں اس کی بھینٹ چڑھ جاتی ہیں۔
قدیم زمانہ میں قبیلوں اور خاندانوں میں دشمنیوں کو روکنے کےلیے دو خاندانوں کی رنجش ختم کرنے کےلیے لڑکیوں اور خاندانوں کی باقاعدہ رضامندی سے فیصلے ہوتے تھے۔ ہندوؤں میں بھی ایسی رسم موجود ہے، وہاں بھی ایک معصوم لڑکی اس کی بھینٹ چڑھتی ہے۔ شوہر کے مرنے پر ستی ہونے کی وحشیانہ رسم بھی ہندوستان کی روایت کا حصہ تھی۔
جلال الدین اکبر نے اپنے دور حکومت میں مسلمانوں میں ونی اور ہندوؤں میں ستی کی رسم ختم کرانے کی کوشش کی تھی۔ تاہم آج کے واقعات کو دیکھا جائے تو پاک و ہند کہیں بھی یہ رسم مکمل طور پر ختم نہیں ہوسکی۔
اس رسم کے ختم نہ ہونے کی ایک بڑی وجہ کم علمی یا جہالت بھی ہے۔ انصاف کے نظام اور حقوق نسواں کے قوانین پر عملدرآمد میں کوتاہی کے بعد معاشرے کی جہالت ایک بڑی وجہ رہی ہے۔ قبائلی نظام کے غیر متوازن فیصلوں نے بھی بہت برے اثرات مرتب کیے۔ عورت کی قدر و منزلت اور تکریم جو ملنی چاہیے تھی وہ اس نظام میں مسل کر رکھ دی گئی۔
آپ صرف تصور کریں کہ جس بچی کو آپ اپنی دشمنی کے خاتمے کےلیے دے رہے ہیں اس معصوم کلی کے ساتھ وہ دشمن کیا کرے گا۔ یہ صرف ایک ننھی جان نہیں بلکہ ایک خاندان کی تباہی ہوگی۔ جس دشمن کی زمین کی حدود پار کرتے ہوئے آپ کی حالت خراب ہوتی ہے وہاں آپ اپنی معصوم سی بچی کو بھیجیں، یہ بات سوچی بھی نہیں جاسکتی چہ جائیکہ اسے کر گزرا جائے۔
ایسے میں کرنے کے کام کیا ہیں؟ باشعور معاشرے کی تشکیل جس کےلیے ہر ذی عقل کو کام کرنا ہوگا۔ اپنے اردگرد علم کی روشنی کو عام کریں، یہاں تک ایسی جہالت کے خاتمے کےلیے ذاتی حیثیت سے سامنے آئیں۔
قانون کی عمل داری بھی بہت اہم ہے۔ اگر ایسی کوئی بات قانون کے کانوں تک پہنچے تو وہ ایک واقعہ سمجھ کرنظر انداز نہ کرے بلکہ اسے ایک نظام سمجھ کر خاتمے کےلیے مثال قائم کرے۔
سب سے بڑی ذمے داری بنتی ہے ہمارے معاشرے کی، جو اس سسٹم کا حصہ بن جاتا ہے۔ یعنی تماش بین، اگر وہ کھڑے ہوجائیں تو کوئی بھی اس طرح معصوم بچی کو اپنی خواہش اور جھوٹی انا کی بھینٹ نہیں چڑھا سکے گا۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 800 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔