عام فلسطینیوں کو سزا کس بات کی
مودی نے پورے ملک میں ڈکٹیٹر شپ قائم کر رکھی ہے اس نے کھیل کو بھی سیاست زدہ کر دیا ہے
اقوام متحدہ نے اعتراف کیا ہے کہ غزہ میں اسرائیل نے جو تباہی و بربادی مچائی ہے وہ جرمنی پر الائیڈ فورسز کی مشترکہ بمباری سے کہیں زیادہ ہے اس نے ساتھ ہی یہ بھی تسلیم کیا ہے کہ ہٹلر نے دوسری جنگ عظیم میں یہودیوں کی جو نسل کشی کی تھی، نیتن یاہو نے اس سے کئی گنا زیادہ فلسطینیوں کی نسل کشی کی ہے اور یہ ہنوز جاری ہے۔
افسوس امریکا اور اس کے حواری یورپی ممالک خاموش تماشائی بنے ہوئے ہیں۔ سلامتی کونسل میں جنگ بندی کے لیے کئی مرتبہ قراردادیں پیش کی جا چکی ہیں مگر امریکا نے انھیں ویٹو کرکے ناکام بنا دیا ہے۔ لوگ سوال کر رہے ہیں کہ اگر غلطی حماس کی تھی تو عام فلسطینیوں کو کیوں سزا دی جا رہی ہے؟
ماضی کو دیکھیں تو عالمی جنگوں کے دوران بھی عام شہریوں پر بمباری نہیں کی گئی، پھر اس وقت شہریوں کو کیوں نشانہ بنایا جا رہا ہے؟ کوئی پوچھنے والا نہیں، کوئی روکنے والا نہیں، اسلامی ممالک بھی خاموش ہیں ، نیتن یاہو باآواز بلند اعلان کر رہا ہے کہ جنگ جاری رہے گی۔
نیتن یاہو فلسطینیوں غزہ کو ہتھیانے کی کوشش کر رہا ہے ، امریکی حکومت نے اسرائیل کی حفاظت کے لیے پہلے ہی اپنے دو بڑے جنگی بیڑے بحیرہ روم میں پہنچا دیے ہیں، اب وہ اسرائیلی تجارتی جہازوں کی حفاظت کے لیے بھی یورپی اور عرب ممالک سے مل کر ایک ٹاسک فورس تیار کرنے کی تگ و دو کر رہا ہے۔
سعودی عرب سمیت کئی عرب ممالک نے اس کا حصہ بننے سے انکار کردیا ہے۔ کئی یورپی ممالک نے بھی اس ٹاسک فورس میں شرکت سے معذرت کر لی ہے۔ ان ممالک میں فرانس، اسرائیل اور اسپین وغیرہ شامل ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ بائیڈن انتظامیہ اس وقت پوری دنیا میں بدنام ہو چکی ہے۔ ہر ملک میں فلسطینیوں کے حق میں اور اسرائیل و امریکا کے خلاف ریلیاں نکالی جا رہی ہیں۔
خود امریکی عوام بائیڈن پر سخت تنقید کر رہے ہیں۔ کئی امریکی شہروں میں مظاہرین نے بائیڈن کے استعفیٰ دینے کے نعرے لگائے ہیں۔ مظاہرین یہ بھی نعرے لگا رہے ہیں فلسطین پر ظلم اور اسرائیل کی حمایت کا وہ بدلہ آنے والے عام انتخابات میں بائیڈن کو شکست دے کر لیں گے۔ لگتا ہے آیندہ سال ہونے والے امریکی الیکشن میں ان کا کامیاب ہونا بہت مشکل ہے۔ ان کے دور میں کئی جنگیں شروع ہوئی ہیں اور جن میں امریکا کو خفت ہی اٹھانا پڑی ہے۔
ایسے ماحول میں جب کہ ہر ملک ہی اسرائیلی جارحیت کی مذمت کر رہا ہے ایک ملک ایسا بھی ہے جو بدستور اسرائیل کے حق میں ڈٹا ہوا ہے وہ بھارت ہے۔ دراصل بھارتی وزیر اعظم مودی کی ذہنیت نیتن یاہو سے ملتی جلتی ہے۔ جس طرح نیتن یاہو شدت پسند ہے اور شدت پسندانہ کارروائیوں کو پسند کرتا ہے بالکل یہی کیفیت مودی کی بھی ہے۔ کشمیر میں بھی فلسطین کی طرح قتل عام جاری ہے۔
بھارت نے کشمیر کے جس حصے کو ہتھیا لیا ہے وہ بھی سلامتی کونسل کی قراردادوں کے مطابق ناجائز قبضہ ہے۔ پورا کشمیر کشمیریوں کا ہے اور وہ بھارت کے مقابلے میں پاکستان کا حصہ بننا چاہتے ہیں۔ یہ ایک دن ہو کر رہے گا اور کشمیر سے بھارت کو دست بردار ہونا ہوگا۔ اس وقت بھارت کے اندرونی حالات بہت مخدوش ہیں۔
مودی نے پورے ملک میں ڈکٹیٹر شپ قائم کر رکھی ہے اس نے کھیل کو بھی سیاست زدہ کر دیا ہے۔ بھارتی کرکٹ بورڈ مودی کی نفرت کی پالیسی پر ہی عمل پیرا ہے۔ وہ بھارتی کرکٹ ٹیم کو پاکستان بھیجنے سے گریزاں ہے۔ بدقسمتی سے اس وقت عالمی کرکٹ کی تنظیم پر اس کا قبضہ ہے۔ اس نے بھی کرکٹ کو سیاست اور نفرت زدہ کردیا ہے۔ اسرائیل کی فلسطینیوں پر بربریت کی وجہ سے اکثر کھلاڑی اس سے ناراض ہیں۔
بھارتی کرکٹ کے کھیل کو استعمال کرکے ایک طرف پاکستان کے خلاف من مانی کارروائی کر رہی ہے تو دوسری جانب اب کرکٹ کو امن عالم کے فروغ کے لیے استعمال کرنے کے بجائے عالمی یکجہتی کو شدید دھچکا پہنچا رہی ہے۔ جب تک بھارت کی کرکٹ سے اجارہ داری ختم نہیں کی جاتی، یہ کھیل مودی کی ہندوتوا کی شدت پسندی کا شکار رہے گا ۔ ادھر اسرائیل کی انتہا پسندی اور توسیع پسندانہ روش کو بھی جب تک لگام نہیں دی جاتی امن عالم خطرے سے دوچار ہی رہے گا۔