اکبر اعظم کے مرقد پر 

جب ہم اکبر کے مقبرے پر پہنچے تو بمشکل دو درجن سیاح اور چھ ہرن دہکھنے میں آئے


سرور منیر راؤ December 31, 2023
[email protected]

پی ٹی وی میں رپورٹر کی حیثیت سے کام کرتے ہوئے یوں تو بھارت سمیت دنیا کے بہت سے ممالک جانے کا موقعہ ملا ہے۔

بھارت میں قیام کے دوران اجمیر شریف میں معین الدین چشتی، دلی میں حضرت خواجہ نظام الدین اولیاء ؒ اور فتح پور سیکری میں خواجہ سلیم چشتیؒ کے مزارات پر بھی حاضری ہوئی ۔ ضلع روہتک کے گائوں کلانور اور ننگانہ بھی جانے کا موقع ملا ۔یہاں بزرگوں کے آبائی گائوں تھے، لال قلعہ، قطب منیار، ہمایوں اور اکبر کے مقبرے بھی دیکھے۔

آج قارئین کی خدمت میں بادشاہ اکبر اعظم کے مقبرے کا ذکر کرتا ہوں۔ دلی سے صبح بائی روڈ آگرہ کے لیے روانہ ہوئے ،یہ دو سو کلومیٹر کا فاصلہ ہے ، دلی سے پلول (جہاں سے علی گڑھ 88 کلومیٹر ہے ) اور پلول سے کوسی کلان کے شہر اور پھر میتھکرا شہر سے گزرتے ہوئے آگرہ پہنچتے ہیں۔آگرہ سے 30 کلومیٹر پہلے ہم ناشتے کے لیے ایک ڈھابے پر رکے، ڈھابے کے مالک کو جب پتہ چلا کہ ہم آگرہ جارہے ہیں تو کہنے لگا کہ یہاں سے پندرہ کلومیٹرکے فاصلے پر ''سکندرا'' شہر ہے ، آپ وہاں بھی جائیں۔

ہم نے پوچھا، وہاں کیا ہے ؟ وہ کہنے لگا، وہاں ایک مقبرہ ہے کچھ لوگ وہاں جاتے ہیں لیکن مجھے نہیں پتہ کہ وہ کس کا ہے ؟ ہم نے آگرہ جاتے ہوئے '' سکندرا'' میں بریک کیا ، سڑک کے دائیں کنارے ایک بڑا احاطہ اور دروازہ نظر آیا جب وہ وہاں پہنچے تو یہ دیکھ کر خوشگوار حیرت ہوئی کہ یہ جگہ اکبراعظم کے مقبرے کی ہے ۔ بڑے احاطے کی چار دیواری میں شہنشاہ اکبر کی قبر ہے۔ اردگرد باغات ہیں جنھیں ''باغ بہشت ''کا نام دیا جاتا ہے۔

''سکندرا'' وہ مقام ہے جسے سکندرلودھی نے اپنا دارالخلافہ بنایا تھا ۔ اکبر کو سکندرا کے اس باغ سے عشق تھا۔ ''باغ بہشت''کے درمیان شالیمار گارڈن لاہو رکی طرز پر فوارے ہیں اور سرخ اینٹوں کی خوبصور ت روش بنائی گئی ہے۔ اکبر کا مقبرہ باغ بہشت کے درمیان بنایاگیاہے ۔ مقبرے کی گنبد کے اندر جانے کے لیے ڈھلوان دار راستہ سرنگ کی شکل میں بنایا گیا ہے ۔ تقریباً چھ فٹ چوڑی اور بیس فٹ اونچی یہ سرنگ ساٹھ گز لمبی ہے ، چوہتر سالہ گائیڈ پریم نرائن رائے زادہ نے ہمیں بتایا کہ اکبر نے یہ کمرہ اور سرنگ اپنی نگرانی میں بنوائی۔

اس کا کہنا تھا کہ باغ بہشت کا یہ کمرہ مجھے ہندوستان کے تمام محلات سے زیادہ عزیز ہے، اس لیے میرے مرنے کے بعد مجھے اس میں دفن کیا جائے ۔ گائیڈ بتارہا تھا کہ اکبر کا کہنا تھا کہ جب بھی کوئی شخص میرے کمرے میں مجھے ملنے آئے یا میرے مرنے کے بعد میری قبر پر آئے تو اسے آنے جانے میں سیڑھیاں چڑھنے کی دقت نہ اٹھانی پڑے۔

اس کا یہ خیال بھی تھا کہ عمررسیدہ لوگ سیڑھیوں کی وجہ سے میری قبر پر فاتحہ کے لیے نہیں آسکیں گے ، اس ڈھلوان دار سرنگ کی وجہ سے کمرے تک آنا جانا انتہائی آسان ہوگیاہے۔

مغل عہد تک اکبر کے مقبرے کی سرنگ اور مزار کے کمرے کے اندر سونے چاندی سے انتہائی خوبصورت نقش اور پھلکاری کی گئی تھی ، قیمتی غالیچے بچھائے گئے تھے، دور انتشار میں بھرت پور کے حملہ آور لوٹ کرلے گئے ۔ ہم جب سرنگ سے گزرے تو اس کی دیواروں پر صرف سفیدی کی ہوئی تھی ، کمرے میں قبر کے اوپر ایک پیتل کا فانوس لٹک رہا تھا، اس کے ساتھ ایک ساٹھ پاور کا بلب روشن تھا۔

کمرے کے ایک کونے میں لکڑی کا بکس رکھا تھا، قبر کے پاس ایک آدمی کھڑا تھا، جو وقفے وقفے سے ایک میلی ٹاکی سے قبر پر پڑنے والی مٹی جھاڑ رہا تھا ، اس نے اپنا نام عمرخان بتایا ، قبر پر لگا سنگ مرمر کا پتھر اپنی عمرپوری کرچکا ہے، جگہ جگہ سے اس کے کونے بھربھرے ہوچکے تھے۔

اکبر کے مزار کا کمرہ اس تکنیک سے بنایا گیا ہے کہ اگر اس کمرے میں کوئی ہلکی سی آواز بھی پیدا کرے تو اس کی گونج ہر طرف سنائی دیتی ہے ۔ مقبرے کے گیٹ کے اوپر منیار بنائے گئے ہیں،مقبرے کے اوپر کوئی گنبد نہیں ہے ۔یہ مقبرہ پانچ منزلہ ہے جب کہ باقی مقبرے تین منزلہ ہیں۔

اکبر کے مقبرے کے باہر دائیں جانب اکبر کی مسلمان رانی رقیہ بیگم کی قبر ہے ۔ بائیں جانب اکبر اعظم کی بٹیاں سقرب النساء بیگم ، آرام بانو بیگم دفن ہیں ، اکبر کے مقبرے کے صدر دروازے اور تدفین کی جگہ کے باہر کے دروازوں اور ملحقہ دیواروں پر دین اکبری کے نمایندہ نقش بنائے گئے ہیں جن میں اسلامی محراب، عیسائیوں کی صلیب ، بدھ مت کا کاسواستک اور یہودیوں کا اسٹار آف ڈیوڈ شامل ہے۔

شاید یہی وجہ ہے کہ اکبر کے مقبرے پر چند لوگ ہی نظر آتے ہیں، جب ہم اکبر کے مقبرے پر پہنچے تو بمشکل دو درجن سیاح اور چھ ہرن دہکھنے میں آئے ۔جب میں باغ بہشت کے سبزہ زار اور شکستہ فواروں کے درمیان سے گزر رہا تھا تو مجھے اچانک اردو کے مشہور شاعر میرا جی کی منظوم نظم یاد آئی جو فرانسیسی اورانگریزی سے ترجم کی گئی تھی ۔Where are the Snows of Yester year، جگہ کی تنگی کے باعث پوری نظم نہیں لکھ سکتا، صرف عنوان پر ہی اکتفا کریں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔