یاد ایام گزشتہ کانفرنس
بس اس کے ردعمل میں اس احساس نے جنم لیا ہے کہ حاضر و موجود ہی سب کچھ نہیں ہے۔۔۔
الحمرا آرٹ کونسل کی بین الاقوامی کانفرنس اتوار کی شام بخیر و خوبی تمام ہوئی مگر ہم تو اس کے بعد بھی دو دن تک کانفرنس ہی کے اثر میں چلتے پھرتے رہے۔ نشہ جب چڑھ جاتا ہے تو اترنے میں بھی تو وقت لیتا ہے۔ ادھر ہم اپنے دو معزز مہمانوں کے پیچھے دوڑ رہے تھے کہ کسی طرح انھیں ان کے مداحوں کے نرغے سے نکالیں اور انھیں سانس لینے کا موقعہ دیں۔ علی گڑھ سے ڈاکٹر ابوالکلام قاسمی' ایک تو علی گڑھ سے ان کی نسبت اور پھر ان کی نقاد والی حیثیت۔ ایک فرد اور سرخاب کے دو پر۔ پھر شمیم حنفی اردو کے چوٹی کے نقاد۔ جامعہ ملیہ سے ان کی نسبت۔ ایسے معزز مہمان کب کب مُیّسر آتے ہیں۔
اور ہاں لیجیے۔ ہندوستان سے آیا ہوا ایک ایوارڈ ہمارا مستقل تعاقب کر رہا تھا اور ہمارا اعتراض یہ تھا کہ یہ ایوارڈ دینے کا کونسا طریقہ ہے کہ آپ بطور مہمان ایک تقریب میں آئے ہیں۔ دوستوں کے لیے تحفوں کے ساتھ ساحرؔ لدھیانوی کے نام کی نسبت سے مٹھی بھر ایوارڈ بھی تھیلے میں رکھ کے لے آئے اور یہاں آ کر اس طرح بکھیرے کہ یار نہال ہو گئے۔ ساحرؔ لدھیانوی کے نام پر آپ نے اگر لدھیانہ میں کوئی ٹرسٹ قائم کیا ہے تو جو کام کریں ایسا کریں جو ساحرؔ لدھیانوی کے شایان شان ہو۔
ساحرؔ جسے قبول عام کا وہ شرف حاصل تھا جو اردو کے گنتی کے شاعروں کو حاصل ہو سکا ہے۔ اس کی نسبت سے کوئی کانفرنس' کوئی جشن کوئی سیمینار کیجیے۔ ان کے نام پر جنھیں ایوارڈ دینا چاہتے ہیں انھیں ساتھ عزت کے بلایئے اور ایوارڈ سے نوازئیے۔ تب اس ایوارڈ کو بھی وقار حاصل ہو گا اور ایوارڈ دینے والوں کی بھی نیک نامی ہو گی۔
اور اب ذرا خود اس کانفرنس پر بھی تھوڑی بات ہو جائے جس پر اب کالم کے بعد کالم باندھے جا رہے ہیں۔ منہ زبانی باتیں بھی بہت ہو رہی ہیں۔ اس پر یار حیران بھی ہیں اور نکتہ چین بھی کہ بھلا یہ بھی کوئی ایسا موضوع ہے جس کا تین دن تک مسلسل راگ الاپا جائے۔ ایک ستم ظریف نے کہا کہ عنوان ذرا لمبا تھا حالانکہ اسے مختصر کر کے ''پرندے کی فریاد'' کیا جا سکتا تھا ؎
آتا ہے یاد مجھ کو گزرا ہوا زمانہ
وہ جھاڑیاں چمن کی وہ میرا آشیانہ
مگر ایک انگریزی اخبار کے رپورٹر نے اس اجتماع کو صحیح نام دیا ہے۔ نوسٹا لجیا موٹ Nostalgia Moot۔
آپ ہم سے یہ تقاضا مت کیجیے کہ نوسٹا لجیا کا اردو میں ترجمہ کیجیے۔ نوسٹا لجیا اب اردو کا لفظ ہے اور اسے اردو میں عام کرنے کا سہرا جس کے سر بندھنا چاہیے وہ ترقی پسند تحریک ہے۔ یہ تقسیم کے فوراً بعد کے دنوں کا ذکر ہے۔ ترقی پسند تحریک ان دنوں اپنے عروج پر تھی۔ اور یہ تحریک اس فلسفہ کی علمبردار تھی کہ ع
بات وہ ہے جو ہووے اب کی بات
قصہ ماضی میں کیا رکھا ہے۔ اصل حقیقت آج کی حقیقت ہے جو لکھنے والا آج کی حقیقت کو فراموش کر کے ماضی کی بھول بھلیاں میں جا کر بھٹکتا پھرے گا وہ فراریت پسند ہے۔ اس فلسفہ نے ہمارے ادب میں خوب مقبولیت حاصل کی مگر تقسیم کے بعد بعض تحریروں میں ایک نیا رنگ نظر آیا کہ پچھلے دنوں کو' ان گزرے دنوں کی باتوں کو ایسی کتنی چیزوں کو جو اچانک تیزی سے بدلتے وقت کے ساتھ گم ہو گئیں ایک سانس کے ساتھ یاد کیا جا رہا ہے۔ ترقی پسند نقادوں نے اس رجحان کو تشویش کی نظر سے دیکھا اور حکم لگایا کہ اس رنگ سے جو لکھتا ہے وہ اصل میں ذہنی مریض ہے۔ نوسٹلجیا کی بیماری کا شکار ہے۔
یہی وہ دن تھے جب ہم نے افسانہ نگاری کی وادی میں قدم رکھا تھا۔ ہمارے ترقی پسند دوستوں نے تھوڑی ہمت افزائی بھی کی مگر ساتھ میں اس تشویش کا اظہار بھی کیا کہ یہ کہانیاں اس موذی بیماری کی چغلی کھا رہی ہیں جسے نوسٹلجیا کہتے ہیں۔ مگر مرض بڑھتا گیا جوں جوں دوا کی۔ پھر کہیں ہم نے علامہ اقبالؔ کا ایک شعر پڑھ لیا ؎
میں کہ مری غزل میں ہے آتش رفتہ کا سراغ
میری تمام سرگزشت کھوئے ہوؤں کی جستجو
لیجیے اس کے بعد تو ہم شیر ہو گئے۔ بیماری کے علاج کے بجائے اپنی بیماری میں لذت لینے لگے۔
لیکن وقت اور انسانی فکر دونوں کا معاملہ یہ ہے کہ دونوں کو قرار نہیں۔ ثبات ایک تغیّر کو ہے زمانے میں۔ وہ زمانہ جس کا ذکر تھا رفت گزشت ہوا۔ ترقی پسند تحریک اب ہماری ادبی تاریخ کا حصہ ہے۔ اس کے کچھ تصورات ہمارے ادبی شعور کا جز بن چکے ہیں۔ باقی ان کے ایجاد کردہ کتنے فارمولوں کو زمانے کی گائے نے چر لیا۔
اب جو زمانہ جا رہا ہے وہ بہت ظالم زمانہ ہے۔ یہ نیا زمانہ اس طرح اپنی ٹیکنولوجی کا ڈھول بجاتا نمودار ہوا ہے کہ ہم سب اس کی چکا چوند میں کھوئے گئے۔ کہاں کا ماضی' کونسی آتش رفتہ۔ ٹیکنالوجی کی معجز نما ایجادات ہیں یا کسی ساحر کا باندھا ہوا طلسم۔ ان کے سوا کچھ نظر ہی نہیں آ رہا ع
محو حیرت ہوں کہ دنیا کیا سے کیا ہو جائے گی
بس اس کے ردعمل میں اس احساس نے جنم لیا ہے کہ حاضر و موجود ہی سب کچھ نہیں ہے۔ آدمی آخر آدمی ہی ہے' جنگلی سوئر نام کی مخلوق تو نہیں ہے جو پچھے مُڑ کر نہیں دیکھ سکتی۔ پیچھے مڑ کر بھی دیکھ لینا چاہیے۔ صحیح ہے کہ بہت کچھ پایا مگر اس جائزے میں بھی کیا مضائقہ ہے کہ اس ظالم سفر میں ہم نے کیا کچھ کھو دیا ہے۔ یہ ہے نوسٹلجیا برنگ دگر۔ عطاؔء الحق قاسمی کو خوب سوجھی کہ چلو اسی حساب سے سوچتے ہیں اور تھوڑا مڑ کر دیکھتے ہیں۔ راہی کو بھولی ہوئی منزل بھی یاد آ جائے تو کیا مضائقہ ہے۔
ایک حساب سے واقعی یہ نرالا موضوع تھا مگر جب موضوع چھڑا تو بقول غالبؔ نقشہ کچھ یوں بنا کہ ؎
پر ہوں میں شکوے سے یوں' راگ سے جیسے باجا
اک ذرا چھیڑئیے پھر دیکھئے کیا ہوتاہے
جیسے یار بھرے بیٹھے تھے۔ اک ذرا چھیڑا تو جاری ہو گئے۔ اندر سے کتنا کچھ برآمد ہوا۔ یہ تو جب کہا سنا یکجا کر کے مرتب کیا جائے گا تب پتہ چلے گا کہ اس سے آخر کے تئیں برآمد کیا ہوا۔
مگر ایسا بھی ہوا کہ کتنے بولنے والوں کی سمجھ ہی میں نہ آیا کہ موضوع زیر بحث کا تقاضا کیا ہے۔ انھوں نے اپنا بایو ڈیٹا سنانا شروع کر دیا۔ کتنوں نے اپنے حالات زندگی سنانے شروع کر دیے۔ کسی کسی نے ملازمت کے دوران اپنے کارہائے نمایاں سنانا شروع کر دیے۔ اس پر بھی غالبؔ سے ایک بات سن لیجیے ع
کس قدر شوق گرفتاری ہم ہے ہم کو
اصل میں یہ موضوع بھی تو ایک تقاضا کرتا ہے کہ بات کرنے والے کی کچھ ذہنی تربیت ہونی چاہیے۔ یہ کہ زندگی میں جیسے جیسے زمانوں سے گزرا ہے اور جیسے جیسے تجربات سے سابقہ پڑا ہے وہ اس سے کیا کہتے ہیں یا ان سے اس نے کیا سیکھا۔ اور پھر اپنے اندر جھانکنے کی بھی صلاحیت ہونی چاہیے۔ خیر یہ تو بیان کرنے والے سے بہت کچھ کا تقاضا کرتا ہے۔
بہر حال جب ایسی بحثیں ہوں گی اور اس انداز سے اپنے آپ کو بیان کرنے کا' اپنا محاسبہ کرنے کا موقعہ میسر آئے گا تو رفتہ رفتہ ذہنی تربیت بھی ہو گی۔ مطلب یہ ہے کہ روایتی موضوعات سے ہٹ کر ایسے تجربے بھی ہوتے رہیں تو کیا مضائقہ ہے۔ ویسے تو یہ خود ایک بڑی بات ہے کہ عطاء الحق قاسمی کی سربراہی میں آرٹ کونسل کتنا متحرک ادارہ بن گیا ہے اور ایسے اجتماعات میں بہت سی فرسودہ روایتی باتیں بھی ہوتی ہیں لیکن وہ جو بیچ بیچ میں کچھ سوچنے والے ذہن فکر و خیال کی نئی جوت جگاتے ہیں' حاصل کلام تو وہ ہوتا ہے۔ اسے حرز جان بنائیے۔ باقی کو بیشک رد کر دیجیے۔