میں اپنا ووٹ کس کو دوں
ہمارے یہاں اب تک کسی بھی جمہوری حکمران کو تسلسل کے ساتھ کام کرنے ہی نہیں دیاگیا
نئے عام انتخابات کی آمد آمد ہے ،عوام اپنا حق رائے دہی 8 فروری 2024 کو آزادانہ طور پراستعمال کرنے جارہے ہیں، کسی کو مجبور نہیں کیا جارہا ہے کہ فلاں کو ووٹ دیں اور فلاں کو نہ دیں۔ یہ سب کچھ عوام کی مرضی پر چھوڑدیا گیا ہے۔
گزشتہ الیکشن کے مقابلے میں اس بار دو کروڑ سے زائد نئے ووٹر شامل ہوئے ہیں ، یہ نئے ووٹرز وہ ہیں جو اِن پانچ سالوں میں 18 برس کی عمر میں داخل ہوچکے ہیں اوراِن میں سے اکثریت اُن جوانوں کی ہے جو ہمارے پرانے سیاستدانوں کی سیاست سے متنفر ہوچکی ہے، اُن کا خیال ہے اس ملک کو اب نئی قیادت کی اشد ضرورت ہے جو اس ملک کو تمام مالی اور اقتصادی بحرانوں سے باہر نکالے۔
ہمارا قومی المیہ یہ ہے کہ ہمارے یہاں اب تک کسی بھی جمہوری حکمران کو تسلسل کے ساتھ کام کرنے ہی نہیں دیاگیا، کہنے کو میاں نوازشریف تین بار وزیراعظم بن چکے ہیں لیکن ان کے تینوں ادوار کا دورانیہ نو سال سے بھی کم بنتاہے۔
باتیں کرنے کو ہم ترکی کے طیب اردگان اورملائیشیا کے مہاتیر محمد سمیت کچھ اور سیاستدانوں کے بڑی مثالیں پیش کرتے رہتے ہیں کہ دیکھو اُن سب لوگوں نے اپنے ملک کو کہاں سے کہاں پہنچادیا ہے، لیڈر شپ ہوتو ایسی ہولیکن یہ سب کہتے ہوئے ہم یہ بھول جاتے ہیں کہ اِن رہنماؤں کوسکون واطمینان اورتسلسل کے ساتھ اپنی مرضی و منشاء کے مطابق کام کرنے دیا گیا، اُن کے سروں پرکسی کی تلوار نہیں لٹکتی رہی۔
طیب اردگان 2001 سے اپنے ملک کے حکمراں بنے ہوئے ہیں۔ اسی طرح حسینہ واجد بھی 2009 سے مسلسل بنگلا دیش کی وزیراعظم بنی ہوئی ہیں۔یہی وجہ ہے کہ یہ دونوں ممالک ہم سے کہیں زیادہ ترقی کرگئے۔خود ہمارے یہاں اگرکبھی بہت زیادہ ترقی ہوئی اورہم دنیا کے لیے رول ماڈل بننے جارہے تھے تو وہ دور کس کاتھا۔
دس سالوں سے مسلسل بلاروک ٹوک حکمرانی کرنے والے فیلڈ مارشل محمد ایوب خان کا تھا۔ انھیں کسی نے پریشان بھی نہیں کیا،اس کے علاوہ ہمارے یہاںکوئی ایک بھی جمہوری حکمران اپنی آئینی اوردستوری مدت پوری نہ کرسکا۔
موجودہ حالات میں اگر کوئی نئی حکومت برسراقتدار آئی تو اس کے بارے میں ابھی سے خدشات پیدا کیے جارہے ہیں کہ وہ 18ماہ سے زیادہ نہیں چل پائے گی۔اسی طرح اس سسٹم کو اگر چلاناہے تو بہتر ہے کہ یہاں الیکشن پرقوم کا پیسہ ضایع نہ کیاجائے اوراعلان کردیاجائے کہ یہاں کوئی بھی جمہوری حکومت برسراقتدار نہیں آسکتی اور اگر آبھی گئی توچلنے نہیں دی جائے گا۔ جس طرح ہمارے ایک اور اسلامی ملک مصر میں کیاگیا۔
محمد مرسی کو ایک عوامی جدوجہد کے بعد اقتدارضرور ملا لیکن وہ ایک سال سے زائد حکمرانی نہیں کرپائے اوروہاں پھرسے وہی طبقہ حکمراں بن گیا جس نے وہاں ہمیشہ سے حکمرانی کی ہے۔قاہرہ کے تحریر اسکوائر پرکی جانے والی مثالی عوامی جدوجہد کا نتیجہ ازخود نیست ونابود ہوگیا اور اب وہاں کوئی بھی جمہوری حقوق کی شمع جلانے والاباقی نہیں بچا۔جس کے پیچھے وہ قوم کھڑی ہوئی تھی وہ جیل کی سلاخوں کے پیچھے ہی اس دنیا سے رخصت ہوکرباقی جمہوریت پسندوں کے لیے نشان عبرت بن گیا۔
قوم نئے انتخابات کے حوالے سے تذبذب کاشکار ہے کہ وہ اپنا ووٹ کس دے ۔میدان عمل میں اس وقت جو سیاسی پارٹیاں موجود ہیں اُن میںکوئی بھی ایسا نہیں ہے جس کی قیادت آزمائی نہیں گئی ہو۔ اسی لیے فیصلہ کرنا مشکل نظر آتاہے۔ دوسرے ہمارے یہاں سیاست میں مظلومیت کا فیکٹر ایک بہت بڑاکردار اداکرتاہے۔
محترمہ بے نظیر بھٹوکی شہادت کے بعد اس فیکٹرکابراہ راست فائدہ پاکستان پیپلزپارٹی کو پہنچا اورجناب آصف علی زرداری اس کے وصول کنندہ بن گئے۔ یہی وجہ ہے کہ ناگہانی واقعے کے اس بہت بڑے نقصان کے باوجود وہ الیکشن ملتوی کرنے یا اس کابائیکاٹ کرنے کے حق میں قطعی طورپر رضامند نہ تھے۔
آج خان صاحب کو بھی اسی فیکٹر کا فائدہ حاصل ہے ورنہ اُن کے نامہ اعمال میں ملک اورقوم کی خدمت اورکارکردگی کے حوالے سے ایک کام بھی ایسا نہیں ہے جسے گنواکے وہ عوام کے پاس جاسکیں۔ وہ اگر اپنے لوگوں کو خود کی گرفتاری پرایسا ردعمل ظاہر کرنے کا درس نہ دیتے تو شاید اُن کے حق میں بہترہوتا لیکن انھوں نے وہ کام کردکھایا جو ہمارا ازلی دشمن بھی آج تک نہ کرسکا۔
آرمی پبلک اسکول پشاور پردشمنوں کا حملہ شاید اس سے بھی نسبتاً چھوٹا اٹیک تھامگرساری قوم نے اس پر متحد ہوکرفیصلہ کیا کہ بہت ہوگیااب ایسی کسی کارروائی کو برداشت نہیں کیاجائے گا۔مگرGHQاور کورکمانڈر ہاؤس پرحملے اس سے بھی کئی درجہ بڑی دشمنی تھی۔آج اگر اسے نظراندازکردیاگیاتو کل کسی گروہ کی طرف سے اس سے بھی بڑی کارروائی کی جاسکتی ہے۔
کارکردگی کے لحاظ سے میاں نوازشر یف کاریکارڈ موجوہ سیاسی کھیپ میں سب سے بہترہے، انھیں جب جب موقعہ ملا ، بے شک وہ مختصر سا تھا لیکن انھوں نے کام کرکے دکھایا۔ تنقید کرنے والے کہتے ہیں کہ اگرانھوں نے اگریہ ترقیاتی کام کیے ہیں تو کونسے اپنے پیسوں سے کیے ہیں، قوم کا پیسہ تھاجو اگر خرچ کیا ہے تو کونسااحسان کیاہے۔
یہی تو فرق ہے اُن میں اورباقی سیاستدانوں میں ۔ موقعہ تو پیپلزپارٹی اورتحریک انصاف کو بھی ملاتھالیکن انھوں نے عوام کا پیسہ عوام پرخرچ کرنے کے بجائے کہیں اورخرچ کردیا۔میاں نواز شریف نے اگر قرض لیے تو انھیں درست طریقے سے استعمال بھی کیے ہیں۔
بانی تحریک انصاف نے تمام پچھلے ادوار کے مقابلے میں دگنے قرض لیے لیکن اِن قرضوں سے کونسا ترقیاتی کام کروایا ہے، یہ لنگرخانے اورشیلٹر ہومز توہمارے فلاحی ادارے پہلے ہی بہتر طریقے سے چلارہے ہیں۔
حکومتوں کاکام لنگرخانے چلانے کا نہیں ہوتا۔ اس کا کام ملک میں ترقیاتی منصوبے شروع کرنے اورانھیں پائے تکمیل تک کا ہوتا ہے۔ہمیں آج ایک بار پھرحکمراں منتخب کرنے کا موقعہ مل رہا ہے تو ہمیں چاہیے کہ ایسے حکمراں منتخب کریں جو ہمیں ہمارے مالی مصائب اورقرضوں کے دلدل سے باہرنکالیں، جو صرف باتیں نہ کریں بلکہ کام کرکے دکھائیں۔
ہمیں IMF کے چنگل سے چھٹکارا دلائے اوربہت جلد ترقی یافتہ قوموں کے صف میں لاکھڑا کردے۔ ذاتی پسند اورناپسند کے بجائے اجتماعی قومی مفادات کو مدنظر رکھ کر فیصلہ کریں کہ کون اس ملک کی ترقی و استحکام کے لیے سب سے بہتر شخص ہوسکتاہے۔