سیاسی ٹیسٹ میچ
دوسرے ملکوں کے لوگ بہت ہی بے وقوف ہیں، خصوصاً سیاست دان، ان کو پاکستان آنا چاہیے۔۔۔
آج ملک میں کھیلے جانے والے میچوں پر تبصرہ کرلیتے ہیں، ان کی رننگ کمنٹری تو ہمارے چینلز صبح سے شام تک کرتے رہتے ہیں، لائیو گفتگو بھی کروا دیتے ہیں، لوگ صبح اٹھ کر فون، موبائل سنبھال لیتے ہیں۔ کپڑے استری کرواتے ہیں کہ وہاں جانا ہے، پھر وہاں، پھر وہاں۔ ہاں تو عرض کر رہا تھا کہ سرگودھا کا میچ تو انصاف جیت گیا، عذر لنگ بھی بے حد ''لنگ'' ہے گنتی غلط لکھ دی گئی، ہزاروں کو لکھ دیا گیا سیکڑوں میں، مگر اس سے ''نتائج'' پر کوئی اثر نہیں پڑا یہی تو خاص بات ہے جب ''نتائج'' طے شدہ ہوںگے تو بھلا فرق کیسے پڑے گا، ایک عام بات کہہ رہے ہیں بھلا ہم کون کہ نتائج پر ''اثر انداز'' ہوسکیں؟
دوسرے ملکوں کے لوگ بہت ہی بے وقوف ہیں، خصوصاً سیاست دان، ان کو پاکستان آنا چاہیے اور سیاست کی ٹریننگ لینی چاہیے۔ خیالات کا کوئی ٹکٹ تو نہیں ہے، ان کی کوئی سرحدیں نہیں ہوتیں، بقول گلزار کے تو واپس آتے ہیں ''طالبان ٹیسٹ میچ'' کی طرف اس میں دونوں پارٹیاں ''بارے آرام سے ہیں اصل جفا میرے بعد'' کے مصداق آرام سے ہیں اور اگر ممکن ہوا تو یہ پانچ سال معاف کیجیے گا چار سال تک چلتے رہیں گے، کیوں کہ بالواسطہ یا براہ راست فائدے میں طالبان ہی ہیں۔
حکومت کو چار سال اور چاہیے ہیں ''سامان سمیٹنے'' کو سو وہ طالبان نے دینے کا عندیہ دے دیا ہے۔ مجھے یوں لگتاہے، ویسے میں ہمیشہ غلط ہوتا ہوں۔ اس بات پر تو میری آرزو ہے کہ میں غلط ثابت ہوجاؤں۔ اس ٹیسٹ میچ کے ایمپائر اور تھرڈ ایمپائر آپ کے دیکھے بھالے ہیں پاکستان بننے کے بعد سے انھوں نے ایمپائر کی ٹھیکیداری لی ہوئی ہے۔ قائد اعظم کو نہیں مانا، قائد اعظم کا پاکستان پورا چاہیے۔ آدھا تو کردیا ہے اب یہ آدھا پورا چاہیے۔ آپ سب سمجھ ہی گئے ہوں گے مزید کیا کہنا۔ تو اس ٹیسٹ میچ میں ان کا کردار واضح ہے۔ باؤنڈری لائن پر ''بال بوائے'' بھی ہیں اس میچ میں ان سے بھی قوم کو واقف ہونا چاہیے۔
کیوں کہ اس میچ میں ''بال'' تو قوم ہی ہے اور فیلڈ ''پاکستان'' اب یہاں کے اس علامتی مگر حقیقی میچ سے چلیے ذرا اس طرف جو میچ کے ذریعے میچ جتواتے ہیں ۔ پاکستان کی تاریخ میں اس قدر ''سرگرم'' شخص میں نے پہلی بار دیکھا ہے۔ ''سرگرم'' زیادہ ٹھیک ہے کیوں کہ اسلام آباد میں صحافیوں کے سوال پر خاصے ''گرم'' ہوگئے تھے، انداز وہی اپنایا ہے جو دل کو ''پسند'' آیا ہے بڑے آدمیوں والا۔ اپنے پروگرام میں کہتے کہتے نہیں تھکتے کہ صحافیوں کا کام ہے سوال پوچھنا اور لیڈروں کا کام ہے جواب دینا اس پر ناراض نہیں ہونا چاہیے۔ مگر جب جان پر بن آئی اور دو کروڑ کے پلاٹ کا سوال ہوا تو بڑے لوگوں کی طرح رویہ اپنالیا۔
وہ ساری دنیا کو ''منیب'' سمجھتے ہیں کہ چپ رہے گی، جو چپ رہے گی زبان خنجر لہو پکارے گا آستیں کا۔ ابھی سر گودھا سے خبر آئی ہے کہ اگر واقعی الیکشن کمیشن نے ''صاف ستھرے'' الیکشن حقیقی ''صاف ستھرے'' کا مظاہرہ کرنا ہے تو پہلے پچھلا ''گند'' صاف کرنا پڑے گا۔ ہر صورت میں ''مٹی پاؤ'' سے کام نہیں چلنے والا۔ ان کو چسکا پڑ گیا ہے کرکٹ کا۔ جان ہی نہیں چھوڑتے۔ دراصل کرکٹ بورڈ لگتا ہے من پسند الیکشن کا انعام ہے اور انعام ''کسی طرح'' بھی ملے انعام ہوتا ہے اسے کون چھوڑتاہے تو بظاہر تو کچھ نہیں ''لے رہے'' مگر کچھ ''چھوڑ'' بھی نہیں رہے۔ زمانہ بہت ترقی یافتہ ہے ''DEAL'' نظر کب آتی ہے ''ہوتی'' ہے اور اس کے بہت سے ارکان۔ شقیں تحریر بھی ہوتی ہیں اور غیر تحریر یافتہ بھی تو ان کا معاملہ ''غیر تحریر یافتہ'' ہے دو کروڑ کا پلاٹ تو آپ سن ہی چکے ابھی بلی کے بعد تھیلے میں اس کے ''بچے'' بھی ہیں ان کا انتظار فرمایئے۔ کیا ملک ہے پاکستان۔ زندہ باد پاکستان۔ نابیناؤں کو آنکھوں کی ''روشنی کا انتظام'' سونپ دیتے ہیں، کرکٹ کا حلیہ بگاڑ کر رکھ دیا ہے۔
اسی کرکٹ سے ضیا الحق نے جنگ ٹال دی تھی اور اسی کرکٹ کی ''میوزیکل چیئر جنگ'' نے ذلیل و رسوال کردیا ہے دنیا میں ایک ایک بورڈ اور ٹیم بناکر ان کو دے دیں کھیلتے رہیں۔ پاکستان کرکٹ پر رحم کریں تو یہ میچ بھی ختم ہو۔ حکومت کا محبوب ترین ہے وہ کیوں کہ حکومت اس کا خسارہ برداشت نہیں کرسکتی۔ ذکا اشرف کے آتے ہی حکومت نے عدالت سے رجوع کرکے فیصلہ حاصل کرلیا جس پر لوگوں کے تحفظات ہیں۔ مگر تعجب خیز بات یہ ہے کہ حکومت کو کچھ فکر نہیں ہے عوام کی۔ ایسا کچھ لگ رہا ہے، غلط بھی ہوسکتاہے کیوں کہ پاکستان کے در اصل عوام غلط ہیں، میں ان میں سے ہوں۔ پاکستان ملک ٹھیک ہے اس کے عوام ٹھیک نہیں ہیں۔ شاید آیندہ وقتوں میں آپ کو حکومت سے یہ اعلان بھی سننے کو ملے کہ پاکستان میں تمام خرابیاں عوام کی وجہ سے ہیں۔
اگر عوام پاکستان میں نہ ہوں تو نہ امن و امان کا مسئلہ ہو نہ بے روزگاری، نہ مہنگائی، نہ کوئی اور مسئلہ، تو عوام کو چاہیے کہ اگر رہنا ہے تو ٹھیک طرح سے رہیں۔ ہمارا ملک ''UNMATCH'' ہے دوسرے جمہوری ملکوں سے۔ یہاں جمہوریت کا نام ''بچہ جمہورا'' ہے۔ ہر وزیر، ہر سفیر اپنا اپنا کام کر رہا ہے ''اپنے مفاد'' میں، ملک جائے...! ہاں ہم اس قدر طاقت ور ہیں کہ ایک سفیر نے ملک کو ناقابل تلافی نقصان پہنچایا، عیش کر رہا ہے دوسرے ملک میں، بیگم بھی مزے میں ہیں، کچھ بگڑا کسی کا؟۔ نہیں بگڑا؟... بگڑا ہے... عوام کا سب کچھ بگڑگیا۔ زندگی بگڑ گئی، آرام ختم ہوگیا، سکون چھن گیا، عزتیں محفوظ رکھنا اور سفید پوشی کا بھرم رکھنا خواب ہوگیا، یہ حکومت تو قیمتوں پر کنٹرول نہیں رکھ سکتی، دودھ والوں سے بھی ہارچکی ہے، تمام میچ۔ تو کسی اور سے کیا کھیلے گی یار زندہ محبت باقی... پھر کھیلیں گے۔ ہم بھی قلم کے میچ۔ انشاء اﷲ آیندہ۔