دہشت گردی کے عفریت کا سر کچلنا ہوگا

صوبہ خیبرپختونخوا اور افغانستان کی سرحد سے متصل بلوچستان دہشت گردوں کے نشانے پر ہے


Editorial January 02, 2024
صوبہ خیبرپختونخوا اور افغانستان کی سرحد سے متصل بلوچستان دہشت گردوں کے نشانے پر ہے۔ فوٹو فائل

پاک فوج نے افغانستان سے دہشت گردوں کی پاکستان میں دراندازی کی کوشش ناکام بنا دی ہے، فائرنگ کے تبادلے میں تین دہشت گرد مارے گئے اور ایک پاکستانی فوج کا نائیک شہید ہو گیا۔

ایک اور واقعے میں افغانستان کے اندر سے پاکستانی سرحدی چوکی پر فائرنگ کی گئی، جس کا سیکیورٹی فورسز کی جانب سے بھرپور جواب دیا گیا اور دہشت گردوں کو بھاری نقصان اٹھانا پڑا، جب کہ بلوچستان میں مشکئی کے علاقے میں سیکیورٹی فورسز اور دہشت گردوں کے درمیان شدید فائرنگ کا تبادلہ ہوا، اس کارروائی میں پانچ دہشت گرد مارے گئے ہیں۔

افغانستان سے پاکستان میں داخل ہونے والے دہشت گرد امریکی اسلحے استعمال کرتے ہیں، اس حوالے سے بھی واضح شواہد سامنے آئے ہیں۔ کالعدم ٹی ٹی پی کے دہشت گردوں کو افغانستان میں امریکا کا چھوڑا ہوا اسلحہ دستیاب ہے، جس سے خطے کی سلامتی کو نقصان پہنچایا جا رہا ہے۔

حامد کرزئی اور اشرف غنی کے دور حکومت میں جو فوج تشکیل دی گئی، اس افغان آرمی کو امریکی اسلحہ سے مسلح کیا گیا تھا، دوحہ معاہدے کے نتیجے میں طالبان کی مورال پوزیشن بہتر ہوئی، طالبان کی حامی قوتوں نے اسے فتح قرار دینے اور طالبان کو فاتح کے روپ میں پیش کرنے کا پراپگینڈا شروع کیا۔

اس کی وجہ سے اشرف غنی اور عبداﷲ کی اقتدار پر گرفت کمزور ہوگئی اور افغان نیشنل آرمی میں مایوسی پیدا ہوگئی، یہی وجہ ہے کہ ابتدا میں افغان نیشنل آرمی نے طالبان کی مزاحمت کی لیکن اشرف غنی کے اچانک کابل سے فرار کی وجہ سے افغان نیشنل آرمی کے افسر اور جوان مایوس ہوگئے کیونکہ افغانستان کا حکومتی ڈھانچہ زمین بوس ہوگیا تھا۔

یہ صورتحال دیکھ کر افغان فوج کے کئی اعلیٰ فوجی افسروں نے درپردہ طالبان سے ڈیل کرلی ، جو افسر طالبان کے ساتھ نہیں ملے، وہ تاجکستان اور ازبکستان میں پناہ گزین ہوگئے، یوں طالبان نے دارالحکومت کابل پر بغیر کسی مزاحمت کے قبضہ کرلیاجب کہ افغان نیشنل آرمی کا سارا اسلحہ طالبان کے کنٹرول میں چلا گیا، افغانستان سے انخلا کے وقت امریکی فوج نے بھی دانستہ بھاری مقدار میں اسلحہ چھوڑ دیا۔

افغانستان میں طالبان کے اقتدار کے بعد پاکستان میں دہشت گردی کی کارروائیوں میں اضافہ ہونا شروع ہوا، پاکستانی سیکیورٹی فورسز نے جن دہشت گردوں کو ہلاک کیا، ان کے پاس امریکی ساختہ اسلحہ تھا، پاکستان میں ایک مخصوص گروہ نے اس اہم ایشو پر بھی ابہام پیدا کرنے کی کوشش کی ہے، لیکن اب حقائق سامنے آرہے ہیں کہ افغانستان کی عبوری حکومت کے اسٹیک ہولڈرز کے ہاتھ اور نیت دونوں صاف نہیں ہیں۔

وہ مسلسل ٹی ٹی پی کی حمایت کررہے ہیںالبتہ مختلف حیلے بہانوں سے یہ تاثر دیتے ہیں کہ ان کا ٹی ٹی پی کے ساتھ تعلق نہیں ہے،لیکن عملاً ایسا نہیں ہے۔

ملک کے مختلف حصوں میں دہشت گردی کے جو واقعات ہو رہے ہیں، ان میں سے اکثر میں کالعدم تحریک طالبان پاکستان اور بلوچستان کے مسلح گروہ ملوث ہیں، جن کے لیے افغانستان محفوظ پناہ گاہ بنا ہوا ہے ۔

پاکستان کو معاشی بحران کے ساتھ ساتھ دہشت گردی کے عفریت کا بھی سامنا ہے۔ پاکستان اب بھی دہشت گردی کے خلاف جنگ لڑ رہا ہے۔ اس مقصد کے حصول کے لیے کالعدم تنظیموں، علیحدگی پسندوں اور ملک کے اندر سیاسی اور وطن مخالف عناصر کے خلاف سخت کارروائی کرنے اور ان کے گٹھ جوڑ کو توڑنے کے اقدامات ضروری ہیں۔

یہ واضح ہے کہ دہشت گردانہ واقعات میں خیبرپختونخوا میں سب سے زیادہ شہادتیں ہوئیں جب کہ دوسرے نمبر پر بلوچستان ہے یہ سال رواں کی رپورٹ ہے۔

نگران وزیراعظم انوارالحق کاکڑ کے مطابق افغانستان کو معلوم ہے کہ ٹی ٹی پی کے دہشت گرد کہاں پر ہیں۔ بلوچستان کے نگران وزیر اطلاعات جان محمد اچکزئی نے یہ انکشاف کیا ہے کہ افغانستان میں پاکستان دشمن منصوبوں کی تیاری، عملدرآمد، پاکستان کو مطلوب دہشت گردوں اور ان کی پناہ گاہوں کی مکمل ڈوزیئر افغان عبوری حکومت کو فراہم کر دی گئی ہے۔

اب افغان حکومت ایک ذمے دار ہمسایہ ملک کا فرض ادا کرتے ہوئے پاکستان کو مطلوب دہشت گردوں کو پاکستان کے حوالے کرے لیکن افغان حکومت نے تاحال پاکستان کے مطالبے کا مثبت جواب نہیں دیا ہے، بلکہ افغانستان سے ان دہشت گردوں کے حوصلے بلند ہوکر پاکستان میں دہشت گردی کے واقعات میں اضافہ ہو رہا ہے۔

عبوری افغان حکومت مسلسل اس بات کی تردید کرتی رہی ہے کہ افغانستان میں نہ تو کوئی دہشت گرد تنظیم ہے نہ اس کا ٹھکانہ ہے۔ تو سوال یہ ہے کہ پھر دہشت گرد، جن میں ٹی ٹی پی کے لوگ سرفہرست ہیں، کس طرح افغانستان سے آکر پاکستان میں دہشت گردی کرتے ہیں۔

اس کے علاوہ پاکستان نے جو ڈوزیئر افغانستان کے حوالے کیا ہے اس پر افغان حکومت کارروائی کیوں نہیں کرتی؟ دال میں کچھ کالا تو ضرور ہے۔ اگر ہم پاکستانی طالبان اور افغان طالبان کا جائزہ لیں تو افغان طالبان اور ٹی ٹی پی ایک ہی ہیں۔

اب اس کے رابطے بلوچستان میں شرپسندوں اور داعش کے ساتھ استوار ہوچکے ہیں، یہ تمام گروہ پاکستان میں دہشت گردی کی وارداتوں میں امریکی اسلحہ استعمال کررہے ہیں، اسلحے کا غیرقانونی کاروبار عروج پر ہے۔ یہ حقیقت واضح ہے کہ افغانستان سے ہی دہشت گردوں کو امریکی اسلحہ مل رہا ہے۔

جہاں تک پاکستان میں ہونے والے حملوں کی ذمے داری جو نئے نئے گروپس قبول کر رہے ہیں تو ان سب گروپس کا منبع ایک ہی ہے اور یہ گروپس کسی بھی صورت پاکستان کو معاشی طور پر مستحکم نہیں دیکھنا چاہتے۔

افغانستان کی عبوری حکومت کی ناک کے نیچے ٹی ٹی پی اور داعش کے لوگ بڑے آرام سے ٹریننگ اور کاروبار کررہے ہیں، اور بارہا پاکستانی حکام نے یہ مسئلہ طالبان حکومت کے ساتھ اٹھایا ہے اور حالیہ حملوں پر ایک بار پھر افغانستان کی عبوری حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ پاکستان کے خلاف اپنی سرزمین استعمال نہ ہونے دے لیکن انھوں نے یقین دہانی کے باوجود پاکستان کے ساتھ کیے گئے وعدوں کی پاسداری نہیں کی۔

پاکستان نے چالیس سال تک افغانستان سے آنے والے لوگوں کو پناہ دی، افغانستان میں قوم پرست ،سوشلسٹ حکومت کے خاتمے کے لیے پاکستان نے افغان مجاہدین کی غیرمعمولی مدد کی ، بعد ازاں طالبان حکومت کی حمایت کی لیکن اس کا صلہ نفرت ، تعصب اور دغابازی کی شکل میں دیا جارہا ہے۔

صوبہ خیبرپختونخوا اور افغانستان کی سرحد سے متصل بلوچستان دہشت گردوں کے نشانے پر ہے۔ بدقسمتی یہ ہے کہ پاکستان کے اندر ایسے لوگ پائے جاتے ہیں جو طالبان حکومت کی حمایت کرتے ہیں، سیدھی سی بات ہے کہ پاکستان میں جتنی بھی دہشت گردی کی وارداتیں ہوئی ہیں،ان کی سہولت کاری پاکستان کے اندر سے ہی کی گئی ہے۔

پاکستان میں دہشت گردی کی وارداتوں کے ڈانڈے افغانستان سے جا ملتے ہیں۔ افغان حکام لاکھ اس امر کا دعویٰ کریں کہ وہ دوحہ معاہدے کے تحت اپنی سرزمین کو دہشت گردی کے لیے استعمال نہیں ہونے دیں گے، تلخ ترین حقیقت یہی ہے کہ نہ صرف افغان سرزمین پاکستان میں دہشت گردی کے لیے مسلسل استعمال ہو رہی ہے بلکہ افغان طالبان فورسز پاک افغان سرحد پر لگی باڑ ہٹانے میں بھی ملوث ہے۔

پاکستانی عوام کو امن و امان برقرار رکھنے والے اداروں اور سیکیورٹی فورسز کے پرعزم کردار و عمل پر کامل بھروسہ ہے۔ دہشت گردی کے خاتمے کے لیے پولیس اور سیکیورٹی فورسز نے بے مثال قربانیاں بھی دی ہیں۔

سوال یہ ہے کہ دہشت گردوں کو ازسرنو منظم ہونے کا موقع کیسے ملا ۔کیا داخلی طور پر کچھ قوتوں نے سہولت کاری کی؟ جیسا کہ کہا جاتا ہے کہ اعتماد سازی کا پروگرام اصل میں خاص فہم اور مقاصد کے لیے سہولت کاری تھی؟ بلاشبہ سیکیورٹی فورسز نے دہشت گردوں کے خلاف جاری آپریشن میں اہداف کے حصول کے لیے کوئی کسر نہیں اٹھا رکھی۔

افسروں اور جوانوں کی شہادتیں اس امر کا ثبوت ہے کہ پاکستان کی سیکیورٹی فورسز دہشت گردی کے خلاف آج بھی سب سے بڑی جنگ لڑ رہی ہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ سیکیورٹی فورسز کو جدید ترین اسلحہ اور وسائل فراہم کیے جائیں، پولیس فورس کی تربیت زیادہ بہتر کی جائے،پولیس کا انفرمیشن سسٹم زنگ آلود ہوچکا ہے۔

پولیس کی براہ راست معلومات کا سورس ناقابل اعتبار اور جرائم پیشہ افراد پر مشتمل ہے، یہ اخلاقی اعتبار سے غیرقانونی کام کی اطلاع تو دے سکتے ہیں لیکن دہشت گردوں کی انفارمیشن رکھنا ، ان کا ایجنڈا نہیں ہوتا اور نہ ہی پولیس کا یہ ایجنڈا ہے، انھی وجوہات کی بنا پر دہشت گرد اور ان کے سہولت کار بلا خوف وخطر کام کررہے ہیں جب کہ پاکستانی عوام مر رہے ہیں۔

حالیہ دونوں کے دوران دہشت گردوں سے برآمد ہونے والا اسلحہ اور گولہ بارود اس امر کی نشاندہی کرتا ہے کہ دہشت گردوں کے پیچھے موجود قوتیں کیا عزائم رکھتی ہیں اور اپنے عزائم کی تکمیل کے لیے کس حد تک جا سکتی ہیں۔

ان حالات میں بہت مناسب ہوگا کہ جہاں پولیس اور سیکیورٹی فورسز کو جدید خطوط پر منظم کیا جائے وہاں سیاسی جماعتیں اور سماج سدھاری کے مشن میں مصروف تنظیمیں بھی آگے بڑھ کر رائے عامہ کو دہشت گردوں اور سہولت کاروں کے خلاف منظم کرنے کے لیے اپنا کردار ادا کریں۔ امن دشمنوں سے جاری جنگ پوری قوم کی مشترکہ جنگ ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔