پیپلز پارٹی اور لیاری
پیپلز پارٹی 1967 میں قائم ہوئی تو اس وقت تک لیاری میں ہارون خاندان کا طوطی بولتا تھا
بھٹو خاندان نے لیاری سے انتخاب نہ لڑنے کا فیصلہ کیا ہے۔ بے نظیر بھٹو کی چھوٹی صاحبزادی آصفہ بھٹو کی سیاسی میدان میں لانچنگ مؤخر کردی گئی ہے۔
کراچی کے دل لیاری سے محترمہ بے نظیر بھٹو، آصف علی زرداری اور بلاول بھٹو انتخابات میں حصہ لے چکے ہیں مگر کبھی بے نظیر بھٹو اور آصف زرداری کو شکست کا سامنا کرنا نہیں پڑا تھا۔ بلاول بھٹو زرداری 2018 کے انتخابات میں لیاری سے شکست کھا گئے تھے۔
ان کے دونوں صوبائی امیدوار بھی اکثریت ووٹ حاصل نہ کرسکے تھے۔ پیپلز پارٹی کے مضبوط ترین گڑھ سے بھٹو اور زرداری خاندان کے انتخابات میں حصہ نہ لینے کے فیصلے کی وجوہات جاننا ضروری ہیں۔
پیپلز پارٹی 1967 میں قائم ہوئی تو اس وقت تک لیاری میں ہارون خاندان کا طوطی بولتا تھا۔ ہارون خاندان کے سپوت یوسف ہارون اور محمود ہارون نے گزشتہ صدی میں کئی دفعہ لیاری سے قومی و صوبائی کے انتخابات میں کامیابی حاصل کی تھی۔ گزشتہ صدی کی 60 ویں دہائی میں لیاری و لسبیلہ قومی اسمبلی کے حلقے کے ضمنی انتخاب میں نیشنل عوامی پارٹی کے رہنما میر غوث بخش بزنجو کامیاب ہوئے تھے۔
اس وقت مغربی پاکستان میںگورنر امیر محمد خان کا راج تھا۔ 60 کی دہائی کے پہلے انتخابات میں کسی فرد کو مسلم لیگ کی مخالفت کا حق حاصل نہ تھا۔ ذوالفقار علی بھٹو نے پیپلز پارٹی کی بنیاد رکھی تواسے سب سے زیادہ لیاری سے عوام کی حمایت حاصل ہوئی۔
معمر مزدور رہنما عثمان بلوچ جو ہمیشہ لیاری کا فرزند ہونے پر فخر محسوس کرتے ہیں اپنی یاد داشتوں میں لکھتے ہیں کہ جب بھٹو صاحب نے پیپلز پارٹی قائم کی تو ہم نوجوان ان سے ملنے 70 کلفٹن جاتے تھے اور ایک ملاقات میں یہ طے ہوا کہ بھٹو صاحب کو کسی طرح لیاری میں متعارف کرایا جائے۔
بھٹو صاحب طے شدہ شیڈول کے مطابق نائٹ شو دیکھنے کے لیے مشہور سینما بمبینو میں آئے جہاں لیاری کے نوجوانوں سے انھوں نے ہاتھ ملایا۔ ان نوجوانوں میں عثمان بلوچ بھی شامل تھے۔ ذوالفقار علی بھٹو کو لیاری میں چائے پینے کی دعوت دی گئی جس کو ذوالفقار علی بھٹو نے قبول کیا۔ ذوالفقار علی بھٹو ایک دن رات کو لیاری کے مرکزی علاقے چاکیواڑہ چوک میں آگئے۔
انھوں نے عثمان بلوچ اور ان کے ساتھیوں کے ساتھ فٹ پاتھ پر بیٹھ کر چائے پی اور پھر چاکیواڑہ کے مشہور پان بنانے والے دکاندار نے مخصوص انداز میں پان بھٹو کے منہ میں رکھا، یوں لیاری کے لوگ پیپلز پارٹی کی طرف متوجہ ہونے لگے۔
ذوالفقار علی بھٹو نے اپنے پہلے ہی دورے میں لیاری کے مکینوں کو لیز دینے اور پانی کے کنکشن گھروں میں لگانے کے وعدے کیے تھے۔
ذوالفقار علی بھٹو نے 1970 کے انتخابات کے دوران اعلان کیا تھا کہ پیپلز پارٹی نے سندھ میں حکومت بنائی تو سندھ کی کابینہ کا پہلا اجلاس لیاری میں ہوگا۔ ذوالفقار علی بھٹو کو یہ وعدہ یاد رہا، سندھ کے پہلے وزیر اعلیٰ ممتاز علی بھٹو کی صدارت میں سندھ کی کابینہ کا پہلا اجلاس لیاری کے ککری گراؤنڈ میں ہوا۔
پیپلز پارٹی کی حکومت نے لیاری کی ترقی کے لیے کئی منصوبے شروع کیے۔ بھٹو نے لیاری کو پیرس بنانے کا بھی وعدہ کیا تھا ، یوں لیاری میں اسپتال، اسکول اور کالج تعمیر ہوئے۔ کئی سڑکوں کی توسیع کا سلسلہ شروع ہوا، لیکن پھر حالات خراب ہوئے تو پیپلزپارٹی کی حکومت کا تختہ فوج نے الٹ دیا گیا اور جنرل ضیاء الحق نے مارشل لاء نافذ کیا۔
مارشل لاء حکام کے احکامات کے خلاف پہلا جلوس لیاری سے نکلا۔ کمیونسٹ پارٹی کے جاوید شکور اور رمضان میمن کو جلوس نکالنے پر قید اور کوڑوں کی سزائیں دی گئیں۔ بھٹو کو سزائے موت سنائی گئی تو سب سے زیادہ احتجاج لیاری میں ہوا۔
1983 میں تحریک بحالی جمہوریت MRD کی احتجاجی تحریک شروع ہوئی تو لیاری سے سیکڑوں نوجوانوں نے گرفتاریاں دیں، ان میں خواتین کی بڑی تعداد تھی۔ لیاری کے ایک نوجوان کو سزائے موت سنائی گئی۔
جب 1988میں پیپلز پارٹی کی حکومت آئی تو لیاری کے عوام کو امید تھی کہ اب لیاری پیرس بن جائے گا مگر اب حکومت کی ترجیحات میں لیاری کی ترقی شامل نہیں تھی۔ اگرچہ پیپلز پارٹی کے 15سالہ دورِ اقتدار میں لیاری میں سڑکیں بنیں، یونیورسٹی قائم ہوئی اور میڈیکل کالج بھی بنا، لیاری جنرل اسپتال تو بھٹو دور میں قائم ہوگیا تھا مگر میڈیکل کالج بننے سے اس میں کئی شعبے قائم ہوئے مگر لیاری کا بنیادی انفرا اسٹرکچر جدید خطوط پر ترقی نا کرسکا۔
اگرچہ پیپلز پارٹی حکومت نے لیاری پر مسلسل 15سال حکومت کی ہے مگر ان پندرہ برسوں میں لیاری میں وہ ترقی نہ ہوئی جس کے وعدے کیے گئے تھے۔
لیاری کی سڑکوں اور گلیوں میں گٹر کے پانی کا بہنا اور ہر نکڑ پر کوڑے کے ڈھیر بننا معمول کی بات بن گئی۔ لیاری میں گزشتہ کئی برسوں سے 8 سے 10 گھنٹے بجلی کی لوڈ شیڈنگ ہوتی ہے۔ سوئی گیس کا آنا ایک خواب بن کر رہ گیا ہے۔
لیاری گینگسٹرز کی آماجگاہ بن گیا۔ گینگ وار نے ایک طرف لیاری کو دنیا بھر میں بدنام کیا تو دوسری طرف سیکڑوں نوجوان جن میں پیپلز پارٹی کے کارکن بھی شامل ہیں، بے گناہ مارے گئے۔ گینگ وار کی تاریخ کا جائزہ لیا جائے تو ایک بات تو ثابت ہوتی ہے کہ پیپلز پارٹی کی قیادت ان سے نمٹنے کے لیے مؤثر حکمت عملی نہ بنا سکی۔
گینگ وار کے کارندوں کی سرپرستی کی گئی، بعد ازاں قانون نافذ کرنے والے اداروں کے دباؤ پر ان گینگسٹرز سے لاتعلقی کا اظہار کیا گیا۔ اس عرصے میں عوام مسلسل مصائب کا شکار رہے۔ لیاری کے سیاسی کارکن شکایت کرتے ہیں کہ پیپلز پارٹی کی حکومت ملازمتیں دینے کے لیے اندرون سندھ اور لیاری کے شہریوں میں امتیاز کرتی ہے۔
یوں لیاری میں بے روزگاری کی شرح میں بہت زیادہ اضافہ ہوا۔ لیاری میں ایک زمانہ میں پیپلز پارٹی کی سب سے مضبوط تنظیم تھی مگر اب یہ تنظیم کمزور ہوچکی ہے۔ کارکنوں اور رہنماؤں میں خاصا طویل فاصلہ ہے۔ لیاری والے کہتے ہیں کہ جو بھی امیدوار ان کے ووٹوں سے منتخب ہوجائے وہ کروڑ پتی بن جاتا ہے اور لیاری چھوڑ دیتا ہے۔
تنظیمی خامیوں اور گینگ وار کے اثرات کی بناء پر 2018کے انتخابات میں لیاری میں پیپلز پارٹی کی کارکردگی انتہائی خراب رہی تھی۔ یہی وجہ ہے کہ پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری قومی اسمبلی کے انتخاب میں تیسرے نمبر پر آئے تھے اور ان کے ساتھ صوبائی اسمبلی کے دونوں امیدوار شکست کھا گئے۔
پیپلز پارٹی کی قیادت نے بلدیاتی انتخابات میں اچھی ساکھ رکھنے والے کارکنوں کو ٹکٹ دیے تھے، جس کی وجہ سے پیپلز پارٹی نے ان انتخابات میں کامیابی حاصل کی، مگر موجودہ میئر لیاری کے ٹاؤن چیئرمین اور یونین کونسل کو فنڈز دینے کو تیار نہیں ہے۔
بعض ماہرین کا کہنا ہے کہ لیاری میں غیر قانونی طور پر کئی کئی منزلہ عمارتوں کی تعمیر کی اجازت دی گئی، یوں ان عمارتوں میں باہر سے آنے والے لوگ آباد ہوئے ۔
لیاری کی ڈیمو گرافی تبدیل ہوئی۔ بلاول بھٹو نے اپنی والدہ کی برسی کے موقعے پر دس نکاتی منشور کا اعلان کیا جس میں کئی وفاقی وزارتوں کو ختم کر کے غریبوں کو ریلیف دینے کی بات کی گئی ہے مگر ملک کے معاشی بحران کا کوئی دائمی حل پیش نہیں کیا گیا۔ یہ منشور نوجوانوں کو کس حد تک متوجہ کرے گا، یہ ایک سوال ہے؟
یہ حقیقت ہے کہ لیاری آج بھی سب سے زیادہ باشعور لوگوں کی بستی ہے۔ یہ واحد علاقہ ہے جہاں غیر سرکاری تنظیمیں تعلیم اور ماحولیات کی ترقی کے لیے کام کر رہی ہیں۔
لیاری میں خواتین فٹ بال اور باکسنگ جیسے کھیلوں میں حصہ لیتی ہیں اور لیاری کے نوجوان تھیٹر کرتے ہیں اور ڈاکیو منٹری بناتے ہیں۔ سیاسی مباحثے منعقد ہوتے ہیں۔ اب بھی ادبی تقریبات منعقد ہوتی ہیں۔ پیپلز پارٹی کو لیاری کی روایات کو بچانے کے لیے اپنی پالیسیوں پر نظرثانی کرنی چاہیے۔