راجہ مہدی علی خاں کے من موہنے گیت
فلم بین راجہ مہدی علی خاں کے مشہورگیتوں سے تو واقف ہیں مگر ان کی شخصیت سے زیادہ تر لوگ بیگانے ہی رہے
راجہ مہدی علی خاں ایک بڑے فلمی نغمہ نگار تھے، مگر بالی ووڈ میں ان کو وہ شہرت نہ مل سکی جو شکیل بدایونی، ساحر لدھیانوی، حسرت جے پوری اور مجروح سلطان پوری کو حاصل ہوئی تھی۔
فلم بین راجہ مہدی علی خاں کے مشہورگیتوں سے تو واقف ہیں مگر ان کی شخصیت سے زیادہ تر لوگ بیگانے ہی رہے وہ کیفی اعظمی کی ٹکر کے نغمہ نگار تھے وہ شہرت پسند نہیں تھے ان کی کوئی پی آر نہیں تھی جتنے عرصے وہ فلم انڈسٹری سے وابستہ رہے وہ گیت لکھتے رہے اور ان کے گیت ہٹ ہوتے رہے۔
اس سے پہلے کہ میں ان کی ذاتی زندگی پر روشنی ڈالوں، ان کے مشہور گیتوں کے کچھ مکھڑے بیان کرتا چلوں، یہ وہ گیت ہیں جو لاکھوں دلوں میں گھر کر چکے تھے جیسے کہ یہ گیت جو انھوں نے فلم آنکھیں کے لیے لکھا تھا۔
ہم عشق میں برباد ہیں برباد رہیں گے
دل روئے گا تیرے لیے آنسو نہ بہیں گے
اسی فلم کا ایک اور گیت تھا جو مکیش کی آواز میں تھا:
پریت لگا کے میں نے یہ پھل پایا
سُدھ بُدھ کھوئی چین گنوایا
فلم '' ان پڑھ'' کا یہ گیت تو کبھی بھلایا ہی نہیں جاسکتا، جو لتا منگیشکر کی آواز میں تھا جس کی موسیقی لیجنڈ موسیقار مدن موہن نے دی تھی۔ گیت کے بول تھے۔
آپ کی نظروں نے سمجھا پیار کے قابل مجھے
دل کی اے دھڑکن ٹھہر جا مل گئی منزل مجھے
یا پھر راجہ مہدی علی خاں کا لکھا ہوا یہ گیت:
ہے اسی میں پیار کی آبرو
وہ جفا کریں میں وفا کروں
ابھی میں راجہ مہدی علی خاں کے گیتوں کی کھوج میں لگا ہوا تھا کہ ایک بہت ہی خوب صورت گیت میرے احساس کے پردے پر ابھرا یہ وہ گیت تھا جس کی گونج ایک طویل عرصے تک سارے ہندوستان میں پھیلی رہی یہ فلم دو بھائی کا گیت تھا اور اس کے موسیقار ایس ڈی برمن تھے، گیت کے بول تھے۔
میرا سُندر سپنا بیت گیا
میں پریم میں سب کچھ ہار گئی
بے درد زمانہ جیت گیا
یہ راجہ مہدی علی خاں کے ابتدائی دور کا گیت تھا اور آل انڈیا ریڈیو کر سروسز ریڈیو سیلون اور ریڈیو زاہدان سے رات دن بار بار نشر ہوتا تھا اور ہر دل کو چھوتا تھا۔
اب میں راجہ مہدی علی خاں کی ابتدائی زندگی ان کی شاعرانہ شخصیت اور ان کی جدوجہد کی طرف آتا ہوں راجہ مہدی علی خاں نے لکھنے کی ابتدا بطور صحافی کی تھی فلمی دنیا میں آنے سے پہلے ان کی بڑی ادبی خدمات ہیں۔
یہ شروع ہی سے ایک ذہین لکھاری تھے ان کا تعلق ایک مشہور ادبی گھرانے سے تھا یہ برصغیر ہندوستان کی نامور ادبی شخصیت مولانا ظفر علی خاں کے بھانجے تھے ان کی والدہ حمیدہ بیگم صاحبہ بھی ایک اچھی شاعرہ تھیں اور اپنے دور کی مشہور رائٹر تھیں وہ ح۔ب کے قلمی نام سے اس دور کے مشہور ادبی رسائل میں لکھا کرتی تھیں۔
ان کی شاعری پر مبنی ایک مجموعہ کلام ''نوائے حرم'' کے نام سے منظر عام پر آیا تھا اور اسے بڑی پذیرائی ملی تھی راجہ مہدی علی خاں کو اپنے گھر ہی سے علم و ادب کا خزانہ ملا تھا اور انھوں نے نوعمری کے زمانے ہی سے لکھنا شروع کردیا تھا اور ابتدا میں صحافت کا پیشہ اختیار کیا تھا وہ اس دور کے کئی مقامی اور مشہور اخبارات سے بطور صحافی منسلک رہے ان اخبارات میں روزنامہ انقلاب، زمیندار اور احسان کا بڑا نام تھا اسی دوران وہ دیگر رسائل، نیرنگِ خیال، پھول اور عالمگیر جیسے ماہناموں میں بھی لکھتے رہے۔
(جاری ہے)