دہشت گردی کے خاتمے کا عزم
پاکستان میں دہشت گردی 2000 میں شروع ہوئی۔ یہ 2009 میں اپنے نقطہ عروج پر تھی
شمالی وزیرستان کے علاقے میر علی میں جنوبی پنجاب کے ضلع ڈیرہ غازی خان سے تعلق رکھنے والے 6 محنت کش لوگوں کو قتل کر دیا گیا، مقتولین کی میر علی بازار میں ہیئر کٹنگ کی دکان تھی، میڈیا کی اطلاع کے مطابق مقتولین کی لاشیں میر علی بازار کے قریب کھیتوں سے ملی ہیں۔ تمام افراد کو گولیاں مار کر قتل کیا گیا ہے۔
میڈیا نے یہ اطلاع بھی دی ہے کہ ان چھ افراد کو ایک دن قبل رات کے وقت نامعلوم افراد نے اغوا کیا تھا، گزشتہ روز ان کی گولیاں زدہ نعشیں ملیں۔ میڈیا نے مقامی پولیس کے حوالے سے خبر دی ہے کہ یہ دہشت گردی کا واقعہ ہے۔ اس اجتماعی قتل کی ذمے داری فی الحال کسی دہشت گرد گروپ نے قبول نہیں کی ہے۔
ادھر ایک اور خبر کے مطابق سیکیورٹی فورسز نے دہشت گردوں کی موجودگی کی اطلاع پر شمالی وزیرستان میں آپریشن کیا جہاں شدید فائرنگ کے تبادلے میں ایک خودکش بمبار سمیت چار دہشت گرد ہلاک ہوئے۔
آئی ایس پی آر کے مطابق علاقے میں دہشت گردوں کو ختم کرنے کے لیے آپریشن جاری ہے، فورسز ملک سے دہشت گردی کی لعنت کو ختم کرنے کے لیے پر عزم ہیں۔
پاکستان میں دہشت گرد گروہ اور ان کے ماسٹر مائنڈز کثیرالجہتی حکمت عملی کے تحت کارروائیاں کر رہے ہیں، صوبائیت، نسلی، لسانی اور مذہبی فرقہ واریت کے لبادے میں بھی دہشت گردی کی وارداتیں کر رہے ہیں، ملک کے معتدل اور روشن خیال طبقے کے خلاف بھی دہشت گردی کی واردات کر رہے ہیں۔
دہشت گردی کی ان تمام جہتوں کا مرکزی نکتہ ریاست پاکستان پر اپنا اقتدار قائم کرنا ہے، ریاستی سسٹم میں دراڑ ڈال کر اس میں اپنے ہمدرد اور ایجنٹ انجیکٹ کرنا ہے۔ ایک کمزور اور بوسیدہ ریاستی سسٹم والا پاکستان دہشت گردوں اور ان کے ماسٹر مائنڈز کے لیے آسان ہدف ہوگا، ریاست اور ریاستی سسٹم جتنا مضبوط ہوگا، نان اسٹیٹ ایکٹرز اور ان کی لڑاکا افرادی قوت اتنا ہی کمزور ہوتی جائے گی۔
دہشت گردی کے حالیہ واقعات سے اس بات کی تصدیق ہوگئی ہے کہ دہشت گردوں کی سہولت کاری مسلسل جاری ہے، وہ مکمل منصوبہ بندی کے ساتھ جب جی چاہتا ہے، پاکستانی اداروں اور عوام کے مفادات کو بھاری جانی اور مالی نقصان پہنچا دیتے ہیں۔
اس وقت دہشت گردوں کو سب سے زیادہ طاقت اندرونی سہولت کاروں سے حاصل ہو رہی ہے۔ ہر دہشت گردی کی واردات میں وائٹ کالر سہولت کاروں کا بہت بڑا کردار ہے۔ لہٰذا پاکستان کے اسٹیک ہولڈرز کو دہشت گردوں اور ان کے سہولت کاروں کی بیخ کنی کے لیے اپنی صلاحیت اور کارکردگی کا دوبارہ جائزہ لے کر نئی حکمت عملی بنانے کی ضرورت ہے۔
نگراں حکومت نے اگست 2023 میں غیر قانونی تارکین وطن پر زور دیا کہ وہ اکتوبر کے آخر تک رضاکارانہ طور پر پاکستان سے نکل جائیں، سیکیورٹی خدشات کو سامنے رکھا جائے تو یہ فیصلہ انتہائی ضروری ہے بلکہ کئی سال پہلے ہی اس پر عمل ہونا چاہیے تھا ۔
اقوام متحدہ کے ہائی کمشنر برائے مہاجرین کی 2023 کی رپورٹ کے مطابق، پاکستان میں پناہ گزینوں کی 99 فیصد تعداد افغانستان کے باشندوں پر مشتمل ہے، 2022 میں کابل پر طالبان کے قبضے کے بعد بھی افغانستان سے لاکھوں لوگ پاکستان میں داخل ہوئے۔
خیبر پختونخوا سمیت پنجاب، بلوچستان اور سندھ میں افغان پناہ گزینوں کی وجہ سے غیرقانونی سرگرمیوں میں اضافہ ہوا، دہشت گردوں کے لیے سہولت کاری شروع ہوگئی، جرائم کی بھرمار ہوئی، یوں پاکستان کو ناقابل تلافی نقصان کا سامنا کرنا پڑا۔ افغانستان سے جدید امریکی اسلحے کی پاکستان اسمگلنگ اور ٹی ٹی پی کا سیکیورٹی فورسز اور پاکستانی عوام کے خلاف امریکی اسلحہ کا استعمال افغان عبوری حکومت کا اپنی سر زمین پاکستان کے خلاف استعمال نہ ہونے دینے کے دعوؤں پر بہت بڑا سوالیہ نشان ہے۔
ممتاز عالمی جریدے یورو ایشین ٹائمز کے مطابق، پاکستان میں ٹی ٹی پی کے دہشت گردوں کی کارروائیوں میں امریکی ساخت کے اسلحے کا بھی استعمال کیا جا رہا ہے۔
امریکی محکمہ دفاع پینٹاگون نے بھی اس بات کی تصدیق کی ہے یہ تمام حقائق اس بات کی طرف اشارہ کرتے ہیں کہ افغان رجیم نہ صرف ٹی ٹی پی کو مسلح کر رہی ہے بلکہ دیگر دہشت گرد تنظیموں کے لیے محفوظ راستہ بھی فراہم کر رہی ہے، اگرچہ پاکستان میں عسکریت پسندوں کے دوبارہ سر اٹھانے میں کئی عوامل کارفرما ہیں لیکن اس کی سب سے بڑی وجہ پاکستان کی پرو طالبان پالیسی ہے۔
پی ٹی آئی حکومت نے کابل میں اشرف غنی حکومت کے خلاف طالبان کی حمایت کی، اس وقت پاکستانی عوام کو یہ لولی پاپ دیا گیا کہ اگر افغانستان پر حکومت قائم کرلیتے ہیں تو بھارت کی سازشیں بند ہوجائیں گی، افغان طالبان کی مدد سے ٹی ٹی پی کو لگام ڈالی جائے گی، تاہم طالبان کی اقتدار میں واپسی نے ٹی ٹی پی کو ایک نئی زندگی دے دی۔
ٹی ٹی پی نے طالبان کی فتح کو اپنی فتح کے طور پر منایا۔ پاکستان میں اس کی حکومت نے بھی طالبان کی داد وتحسین کی، پاکستان میں سرکاری مراعات کے بل بوتے پر امیر ہونے والے ایک مخصوص طبقے نے اطمینان کا اظہار کیا ۔
طالبان حکومت نے پاکستان کو کوئی مدد دینے کے بجائے ٹی ٹی پی کو پاکستان کا اندرونی معاملہ قرار دیا۔ طالبان نے صرف سہولت کاری کی پیشکش کی بشرطیکہ اپنے اختلافات کو میز پر حل کرنے اور سیاسی تصفیہ تک پہنچنے کے لیے پاکستان اور ٹی ٹی پی دونوں متفق ہوں۔
پاکستان میں دہشت گردی 2000 میں شروع ہوئی۔ یہ 2009 میں اپنے نقطہ عروج پر تھی، لیکن اس کے بعد پاکستانی افواج کی عمدہ کارکردگی کی بدولت اور عوام کے جرات مندانہ حوصلے سے اس میں کامیابی نصیب ہوئی اور یہ آہستہ آہستہ ختم ہونا شروع ہوگئی، لیکن اب اس نے نئے سرے سے سر اٹھا لیا ہے۔
مرنے والے مسلمان تھے اور مارنے والے اپنے آپ کو مسلمان ہونے کے دعویدار کے طور پیش کرتے ہوں گے، لیکن یہ کہاں کی مسلمانی ہے۔ مسلمان تو مسلمان کا بھائی ہوتا ہے۔ آپ کے لاکھ اختلافات ہوں گے لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ نماز پڑھنے والوں کو موت سے ہمکنار کر دیا جائے۔ بے گناہ محنت کشوں کا قتل عام کیا جائے ۔
اہل وطن کو یہ فیصلہ کرنا ہوگا کہ اب اس عفریت کا کیا کرنا ہے۔ اس کا سر کچلنا ہو گا ورنہ یہ فتنہ بار بار سر اٹھاتا رہے گا۔ ہمیں اپنی پولرائزڈ سوسائٹی کو دوبارہ ایک قوم میں بدلنا ہوگا، ہمیں معاشرتی ناہمواریوں کو ختم کرنا ہو گا۔ انصاف کا بول بالا کرنا ہو گا اور ان لوگوں کی بھی بیخ کنی کرنی ہوگی جو ان دہشت گردوں کے لیے سہولت کاری کرتے ہیں۔
اسی کے ساتھ اپنی سیکیورٹی کو دوبارہ فعال کرنا ہوگا۔ بہت ہو چکا پانی سروں سے گزر گیا اب فیصلے کا وقت ہے اب یا کبھی نہیں۔ ہم سب کی دعائیں تمام شہداء کے لیے ہیں جو شہید ہو گئے۔ عوام کو بھی اب کڑی نظر رکھنی ہوگی کہ مزید آگے کوئی دوسری دہشت گردی کی واردات نہ ہو جائے یا دہشت گرد دوبارہ کسی اور موقع سے فائدہ نہ اٹھا پائیں۔
دہشت گردی کی لہر کے خلاف پاکستان کا ایکشن پلان کیا ہونا چاہیے؟ اس کا جواب تلاش کرنا چاہیے، زیرو ٹالرینس پالیسی کا لفظ سن سن کر قوم تھک گئی ہے، ابھی تک تو ہمیں برداشت کی پالیسی ہی نظر آرہی ہے، پاکستان میں دہشت گردی میں زیادہ تر مقامی سہولت کار ملوث ہیں، اصل مسئلہ یہ ہے کہ ہمارے ہاں جو گورننس کا نظام ہے اس میں بہت کمزوریاں ہیں۔ حکومت کی رٹ نہیں ہے یہ جو دہشت گردی ہورہی ہے اس کے پیچھے ایک پورا نظام کام کر رہا ہے۔
افغانستان اور پاکستان کے تضادات دائرے میں گھوم رہے ہیں۔ ایک ایسے ماحول میں جب پاکستان انڈیا کے خلاف افغانستان میں اسٹرٹیجک ڈیپتھ تلاش کر رہا تھا، طالبان کے زیر حکومت افغانستان نے ٹی ٹی پی کو پاکستان میں ریورس اسٹرٹیجک ڈیپتھ فراہم کر دی ہے۔
پاکستان کی افغان پالیسی پر نظرثانی کیے بغیر، صرف دہشت گردی کے خلاف ایک نئی مہم سے پاکستان کی دہشت گردی کا مسئلہ حل نہیں ہو گا۔ مزید برآں پاکستان کو دہشت گردی کے چیلنج کے بارے میں طویل نظریہ رکھنا ہوگا کیونکہ اس کے برقرار رہنے کا امکان ہے۔
پاکستان میں آیندہ ماہ عام انتخابات ہو رہے ہیں جن کے پر امن انعقاد کے لیے ملک میں امن و امان کی مثالی صورت حال قائم ہونی چاہیے تاکہ کسی کے لیے انتخابات موخر کرانے کا کوئی جواز نہ نکل سکے۔
انتخابات میں ایک طرف امیدواروں کی حفاظت کو یقینی بنانا ایک اہم مرحلہ ہے تو دوسری جانب عوام اور انتخابی عملے کا تحفظ بھی ایک اہم ذمے داری ہے۔ ہماری سیکیورٹی فورسز اس ذمے داری کو نبھانے کے لیے تیار تو ہیں لیکن جس تیزی سے دہشت گردی کی وارداتیں بڑھ رہی ہیں، یہ عام انتخابات کے انعقاد کے راستے میں رکاوٹ بن سکتی ہیں۔