2024 کے بڑے چیلنج

کیا انتخابات نتیجہ خیز ہوں گے اور اُن کے انعقاد سے وطنِ عزیز میں وہ استحکام آئے گا جس کی اشد ضرورت ہے


Shakeel Farooqi January 05, 2024
[email protected]

وطنِ عزیز مسلسل گردشِ حالات کے گرداب میں پھنسا ہوا ہاتھ پاؤں مار رہا ہے اور صورتحال یہ ہے کہ بقول غالبؔ :

کوئی امید بر نہیں آتی

کوئی صورت نظر نہیں آتی

سب سے بُرا حال معیشت کا ہے جس سے نکلنا آسان کام نہیں ہے۔ سیاسی حالات کی نحوست نے ملک کو کہیں کا نہیں چھوڑا۔ روز افزوں مہنگائی نے عوام کا کچومر نکال کر رکھ دیا ہے اور عام آدمی کو دوا دارو تو کُجا دو وقت کی روٹی بھی میسر نہیں آرہی اور پیٹ کی دوزخ کو بھرنا جوئے شِیر لانے کے مترادف ہو رہا ہے۔

اِس صورتحال کا بنیادی سبب ہمارے قائدین کی نااہلی اور لوٹ مار ہے۔ سیاست کے نام پر تجارت ہو رہی ہے۔ اِس غیر یقینی صورتحال نے ملک کی چولیں ہلا دی ہیں۔

ایسا لگتا ہے کہ ہم ایک بند گلی میں پھنسے ہوئے ہیں جہاں سے نکلنے کا کوئی راستہ نظر نہیں آرہا۔ غیر جمہوری حکومتوں نے جمہوریت کے نام کو بدنام کردیا ہے۔ اِس بند گلی سے نکلنے کا صرف ایک ہی راستہ باقی رہ گیا ہے اور وہ ہے عام انتخابات کا انعقاد۔

یہ حقیقت کسی سے پوشیدہ نہیں کہ پرانے سیاسی کھلاڑیوں کی کوشش یہی تھی کہ کسی بھی طور عام انتخابات کے انعقاد میں ایسے اڑنگے لگائے جائیں کہ اِن کا انعقاد ناممکن نہیں تو کم ازکم مشکل ضرور ہوجائے۔

کفر ٹوٹا خدا خدا کر کے۔ عدالتِ عظمیٰ نے انتہائی ہمت اور جرات کا مظاہرہ کرتے ہوئے انتخابات کے انعقاد کی حتمی تاریخ کا تعین کردیا، یوں انتخابات کی راہ میں رکاوٹ پیدا کرنے والی قوتوں کے غبارے سے ہوا نکل گئی۔

گیا سال کئی کاری زخم لگا کر رخصت ہوا۔ قارئینِ کرام کو نیا سال مبارک۔ اللہ کرے کہ گئے سال کے زخم مندمل ہوجائیں اور نیا سال گلشنِ انسانیت میں نئے پھول کھلائے اور خوشیوں اور خوشحالی کا دور دورہ ہو۔

گزشتہ سال وطنِ عزیز کے لیے ہچکولوں کا سال تھا۔ ملک طرح طرح کے چیلنجوں کا شکار رہا۔ یہ دیوالیہ ہونے کے کنارے تک پہنچ گیا تھا لیکن چین اور بعض دیگر دوست ممالک نے مصیبت کی اِس گھڑی میں بھرپور ساتھ دیا جس کے نتیجے میں ڈولتی ہوئی نیّا بال بال بچ گئی۔ واقعی دوست آں باشد کہ گیرد دست دوست۔ در پریشاں حالی و درماندگی۔

الیکشن نومبر 2023 میں ہونے چاہیے تھے لیکن اِنہیں نئی مردم شماری کی بنیاد پر کی جانے والی حلقہ بندیوں کے بہانہ ملتوی کردیا گیا۔ ایک طرف معاشی تقاضوں کا دباؤ تھا اور دوسری جانب دہشت گردی کے اژدھے نے پھر سر اٹھالیا۔

اگست 2021 میں طالبان کے افغانستان میں برسرِ اقتدار آنے کے بعد دہشت گردوں کے حملوں میں اضافہ ہوگیا جس کے نتیجے میں افغانستان کے ساتھ پاکستان کے دو طرفہ تعلقات متاثر ہوئے۔ اصل مسئلہ یہ تھا کہ کالعدم تحریکِ طالبان پاکستان ( ٹی ٹی پی) کی کارروائیوں میں شدت اور تیزی آگئی۔

اب دیکھنا یہ ہے کہ اِس پس منظر میں کیا صورتحال پیش آتی ہے۔24 کروڑ کی اِس قوم کو تین بڑے بڑے چیلنج درپیش ہیں،کیونکہ سال 2024 انتخابات کا سال ہے اس لیے تمام تر توجہ اِس بات پر مرکوز رہے گی کہ نئی حکومت کون بناتا ہے۔

اگرچہ کئی قسم کی غیر یقینی صورتیں موجود ہیں لیکن آثار نظر آرہے ہیں کہ انتخابات مقررہ تاریخ 8 فروری پر منعقد ہوں گے، اگر خدانخواستہ ایسا نہ ہوا تو خاکم بدہن سنگین نتائج مرتب ہوسکتے ہیں اور ملک کا وجود تک خطرہ میں پڑسکتا ہے۔

اس لیے سب کان کھول کر سُن لیں کہ انتخابات کا انتہائی منصفانہ، غیر جانبدارانہ، شفاف اور قطعی غیر متنازعہ ہونا لازمی بلکہ ناگزیر ہے۔ بین الاقوامی ادارے بالخصوص آئی ایم ایف اور عالمی بینک آیندہ انتخابات پر کڑی نظریں جمائے ہوئے ہیں اور اُن کی آیندہ حکمتِ عملی اور پالیسی کا تمام تر دار و مدار انتخابات کے بروقت اور قطعی شفاف ہونے پر ہے۔

ایک اور اہم سوال یہ ہے کہ کیا انتخابات نتیجہ خیز ہوں گے اور اُن کے انعقاد سے وطنِ عزیز میں وہ استحکام آئے گا جس کی اشد ضرورت ہے۔

یہ حقیقت بھی قابلِ ذکر ہے کہ ملک کی ایک سیاسی جماعت جو بار بار یہ کہہ رہی ہے کہ عوام میں اُس کی کافی مقبولیت اور پذیرائی ہے اُس کے عام انتخابات میں شریک ہونے کی راہ میں کئی طرح کی دشواریاں حائل ہیں اور یہ کہ اُسے انتخابات سے باہر رکھنے کے لیے بعض قوتیں ایڑی چوٹی کا زور لگا رہی ہیں۔

سچ پوچھیے تو 2018 کی کہانی دُہرائی جارہی ہے بس فرق اتنا ہے کہ اُن انتخابات میں پی ایم ایل (ن) ہدف تھی اور اِس مرتبہ پی ٹی آئی ہدف ہے، جو بھی ہو اِن حرکات سے پاکستان کی نازک معیشت کو ہی نقصان پہنچا۔ ملک پر واجب الادا قرض 78,000 بلین تک پہنچ گیا ہے۔

آیندہ تین سال میں پاکستان کو بیرونی قرض کی مد میں 70 بلین ڈالر ادا کرنے ہوں گے۔ اِس کا مطلب یہ ہوا کہ پاکستان کو ہر سال 23 بلین ڈالر کی رقم سود پر ادا کرنا ہوگی۔

مشکل یہ ہے کہ انتخابات میں حصہ لینے والی کسی بھی جماعت نے اِس سلسلہ میں کوئی واضح روڈ میپ نہیں پیش کیا ہے۔ بقول غالبؔ:

قرض کی پیتے تھے مے لیکن سمجھتے تھے کہ ہاں

رنگ لاوے گی ہماری فاقہ مستی ایک دن

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں