خوشی اور اطمینان

موجودہ دور کا انسان پچھلے تمام ادوار کے انسانوں سے بہتر اور آرام دہ زندگی گزارنے کے قابل ہے


عبد الحمید January 05, 2024
[email protected]

خوش ہونا، خوش رہنا ایک نعمت ہے۔اس سے چہرے پر بشاشت اور شخصیت میں نکھار آتا ہے۔خوشی اور غم ایسے احساسات ہیں جن سے ہر کوئی، چھوٹا بڑا، امیر غریب آشنا ہوتا ہے۔

یہ ہر ایک کے تجربے میں آتے ہیں لیکن خوشی محسوس ہونے کے یہ لمحات ایک تو بہت کم ہوتے ہیں اور ہاتھ سے یوں نکل جاتے ہیں گویا کبھی تھے ہی نہیں۔خوشی ایک کیفیت ہے اور یہ بہت ہی Fleeting کیفیت ہے۔

خوشی ایسی چیز نہیں جسے بنایا جا سکے۔یہ کوئی چیز بھی نہیں۔خوشی ہمارے اعمال و افعال سے پھوٹتی ہے۔خوشی اور مسرت کی کوئی جامع تعریف شاید ممکن نہیں۔ مختلف اشخاص اور معاملات میں خوشی کا الگ الگ احساس ہوتا ہے۔

ماہرینِ نفسیات کا کہنا ہے کہ خوشی،مسرت اور شادمانی کے احساسات 50فیصد ہمیں وراثت میں ملتے ہیں، 40فی صد مختلف سرگرمیوں سے پیدا ہوتے ہیں اور 10فی صد کا تعلق ہماری روز مرہ زندگی سے ہوتا ہے۔ خوشی انسان کے نفسیاتی دباؤ کو کم کر دیتی ہے۔جو افراد زیادہ خوش رہتے ہیں وہ تعمیری جذبے کے مالک ہوتے ہیں۔خوشی لمبی زندگی کی نوید بھی بنتی ہے۔

دورِ جدید کی سائنسی ایجادات نے جہاں سہولتیں بڑھائی ہیں وہیں ڈیپریشن اور نفسیاتی امراض کو بھی بڑھاوا دیا ہے۔ تیز ترین حالاتِ زندگی نے وقت گزرنے کے احساس کو کم کر دیا ہے،گویا کہ وقت کے اندر سے برکت ختم ہو گئی ہے۔

ان عوامل نے انسان کو دکھ،غم،پریشانی اور عدم تحفظ کا احساس دے کر خوشیاں چھین لی ہیں۔بیشتر افراد اب خوش نظر نہیں آتے حالانکہ ہر گزرے دن کے ساتھ سہولتوں میں بے پناہ اضافہ ہو چلا ہے۔آج ہمیں گزشتہ کل کے مقابلے میں امراض کی تشخیص کی بہتر اور تیز تر سہولیات میسر ہیں۔ جدید تحقیقات کی بدولت آج ہم بہت کارگر ادویات سے فائدہ اٹھا رہے ہیں۔

جدید سرجری کی سہولتوں کی بدولت بیماری کو جڑ سے کاٹ پھینکا جا رہا ہے۔ ہم نے بہت قربانیاں دے کر اور تگ و دو کر کے روئے زمین پر اپنے لیے یہ سہولتیں پیدا کی ہیں۔ ہمیں اب وہ سہولتیں حاصل ہیں جو ابھی کچھ عرصہ پہلے تک بادشاہوں کو بھی نصیب نہیں تھیں۔

ہزاروں سال پر محیط ادوار میں بادشاہوں اور بڑے بڑے امراء کو بھی ایک جگہ سے دوسری جگہ جانے کے لیے بہت مصیبت اٹھانی پڑتی تھی،بہت وقت درکار ہوتا تھا۔راستے میں مشکلات اور مصیبتیں جھیلنی پڑتی تھیں۔آج تیز ترین اور انتہائی آرام دہ گاڑیاں میسر ہیں۔ہوائی جہاز سے ہزاروں کلومیٹر کا سفر چند گھنٹوں میں طے ہو رہا ہے۔

انسان خلا اور خلا سے پرے جھانک رہا ہے۔کپڑے کے کارخانوں میںاعلیٰ سے اعلیٰ پوشاکیں ڈھیروں کے حساب سے بن رہی ہیں تاکہ انسان جسم کی حفاظت بھی کرے،زینت بھی حاصل ہو اور قیمت بھی مناسب ہو۔دریاؤں اور ندی نالوں کے اوپر پل بنا کر،پہاڑوں کا سینہ چیر کر اور سرنگیں کھود کر لمبے اور کٹھن فاصلوں کو کم کیا جا رہا ہے۔

زراعت کی ترقی نے فوڈ سیکیورٹی کو ممکن کر دکھایا ہے۔ صرف ایک صدی پہلے تک یہ سب کچھ سوچنا بھی محال تھا۔موبائل،اسمارٹ ٹی وی ، انٹرنیٹ اور سب سے بڑھ کر آرٹیفیشل انٹیلیجنس )اے آئی (نے دنیا ہی بدل دی ہے۔ہم کہہ سکتے ہیں کہ موجودہ دور کا انسان مادی لحاظ سے بہت آسانیوں میں زندگی بسر کر رہا ہے۔

جب سے انسان نے روئے زمین پر قدم رکھا ہے،موجودہ دور کا انسان پچھلے تمام ادوار کے انسانوں سے بہتر اور آرام دہ زندگی گزارنے کے قابل ہے لیکن سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا ان سہولیات نے انسان کو زیادہ خوش رہنے والی زندگی بھی عطا کی ہے تو اس کا جواب نفی میں ہے۔ماڈرن دور کی حیران کن سہولیات خوشی کی نوید نہیں بن سکیں۔

بعض اوقات کسی نا ممکن چیز کا حصول،کسی مسئلے کا حل یا کسی پیچیدہ الجھن کے دور ہونے سے وہ خوشی ملتی ہے جو انسان کو اپنی گرفت میں یوں لے لیتی ہے کہ بیان سے باہر ہو جاتی ہے۔یونانی ہیئت و سائنس دان ارشمیدس کے زمانے میں بادشاہ کو شک ہوا کہ اس کا تاج بناتے ہوئے سنار نے بے ایمانی کی ہے اور تاج میں سارا سونا استعمال نہیں کیا بلکہ سونے میں کچھ مقدار کسی دوسری دھات خاص طور پر چاندی کو شامل کر دیا ہے۔

اس نے اپنے شک کو رفع کرنے کے لیے ارشمیدس کی خدمات مستعار لیں۔ارشمیدس غور و فکر کرتا رہا لیکن اس کے دماغ میں کوئی حل نہیں آ رہا تھا۔اسی الجھن کو لیے ہوئے ایک دن وہ پبلک باتھ گیا۔نہانے کے لیے باتھ ٹب میں بیٹھا ہوا تھا کہ یکایک اسے خیال آیا کہ جتنا زیادہ اس کا جسم پانی سے بھرے باتھ ٹب میں گہرا جاتا ہے اتنا ہی پانی ٹب سے باہر آ جاتا ہے۔

اس سے اس نے نتیجہ نکالا کہ چونکہ سونے اور چاندی کے حجم میں اختلاف ہے اس لیے اسی ذریعے سے معلوم کیا جا سکتا ہے کہ مطلوبہ وزن کے سونے کا تاج کتنے پانی کو ڈسپلیسdisplaceکرے گا اور اگر سونے میں کھوٹ ہوئی تو فرق پتہ چل جائے گا۔

اس خیال کے آتے ہی اس کی الجھن رفع ہو گئی اور ارشمیدس اتنا خوش ہوا کہ پبلک باتھ سے ننگے بدن ہی دوڑتا نکل بھاگا اور کہے جا رہا تھا کہ میں نے پا لیا یعنی میں نے مسئلے کا حل دریافت کر لیا ہے۔انتہائی خوشی کے عالم میں اس کو اپنے ننگے بدن کا بھی خیال نہ رہا۔

خوشی ایک ذہنی کیفیت ہے۔بعض لوگ لذت اور خوشی کو گڈ مڈ کر دیتے ہیں۔لذت ایک حسی چیز ہے جب کہ خوشی ایک کیفیت ہے۔

بعض اوقات آپ کو کوئی بیماری لاحق ہوتی ہے تب بھی کسی خوشگوار چیز کی یاد آنے سے آپ اچھا محسوس کرتے ہیں اور بعض اوقات آپ مکمل صحت مند ہوتے ہیں لیکن خوشی آپ سے کوسوں دور ہوتی ہے۔خوشی وہ ہے جس کی یاد بھی خوش کر دے۔ہر فرد کبھی نہ کبھی خوش ہوا ہوتا ہے لیکن مسئلہ یہ ہوتا ہے کہ خوشی کے ان لمحات کو کیسے طول دیاجائے۔

ایک چار سال کے بچے کو لیں۔وہ سارا دن کھیل کود میں مگن رہتا ہے۔بھاگ دوڑ رہا ہوتا ہے۔وہ اپنی دنیا میں مگن،ایک طرح کی خوشی کے عالم میں رہتا ہے۔اس عمر میں بہت کم ایسا ہوتا ہے کہ بچہ غمگین ہو۔

اگر اس سے کوئی کھلونا چھن جاتا ہے تب بھی وہ صرف ایک مختصر سے وقت کے لیے ناخوش ہوتا ہے اور پھر اس کا دھیان کسی اور چیز میں لگتے ہی دوبارہ مگن ہو جاتا ہے لیکن جوں جوں بچے کی عمر بڑھتی ہے فکریں اور اندیشے اس کو گھیرنا شروع کرتے ہیں۔خوشی کے مواقع کم ہونے شروع ہو جاتے ہیں اور بعد کی زندگی میں اسی فرد کا خوش ہونا اتنا ہی مشکل ہو جاتا ہے جتنا بچپن میں نا خوش ہونا۔

ہر انسان خوشی سے بھرپور ایک خوشگوار زندگی گزارنے کا طالب ہے۔کوئی بھی ایسا نہیں جو خوشی نہ چاہتا ہو۔کسی بھی معاملے میں اچھا محسوس ہونے سے خوشی،انبساط اور مسرت کا احساس ہوتا ہے۔کوئی بھی اچھا تعلق،کوئی بھی Achievementخوشی لا سکتی ہے۔

اگر انسان زندگی میں کوئی اعلیٰ مقصد ڈھونڈ لے تب بھی یہی احساس ہوتا ہے۔مذہب پر صحیح طور پر عمل پیرا ہونے سے بڑا سکون اور اطمینان ملتا ہے۔یہ سکون اور اطمینان مایوسی کو دور بھگاتا اور خوشی کو رگ و پے میں اتارتا ہے۔شکر گزاری،طمانیت اور بشاشت بنتی ہے لیکن شکرگزار بندے بہت تھوڑے ہوتے ہیں۔

اکثریت مزید اور مزید کے چکر میں رہتی ہے۔قناعت شکرگزاری میں ڈھل جاتی ہے۔ خوش اور خوش نصیب ہے وہ جو اپنے نصیب پر خوش ہے۔اگر انسان اﷲ تعالیٰ اور اس کے آخری رسولﷺ کے بتائے ہوئے راستے پر اپنی زندگی گزارے،اگر زندگی کا مقصد دوسروں کی خدمت اور مدد کے ذریعے اس کے صلے میں اﷲ تعالیٰ کی خوشنودی بنا لے تو پھر حقیقی خوشی حاصل ہوتی ہے۔خالقِ کائنات نے انسان کو مکرم کیا ہے۔

ہمارا پروردگار ہمیں کامیاب اور خوش دیکھنا چاہتا ہے۔ نطشے نے اپنی بہن کو کہا کہ اگر زندگی میں خوشی اور اطمینان چاہتی ہو تو مذہب پر عمل پیرا ہو جاؤ۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں