کراچی اور جرائم کی خطرناک شرح
کراچی کے سرحدی علاقوں پر چوکیاں بنانے کا اعلان تو کیا جاتا ہے مگر عملی طور پر کچھ نہیں ہوپاتا
بہادر آباد کی معروف شاہراہ سورج غروب ہوتے ہی سائرن کی آوازوں سے گونج اٹھی۔ پولیس کی سیکڑوں گاڑیاں تیز رفتاری سے یونیورسٹی روڈ سے اس شاہراہ پر داخل ہوئیں۔ ان گاڑیوں میں مسلح پولیس کے جوان چوکس بیٹھے ہوئے تھے۔
پولیس کے موٹر سائیکل سواروں کا دستہ بھی اس کانوائے کے ساتھ تھا۔ پولیس کا یہ کانوائے طارق روڈ کی طرف مڑ گیا۔ کراچی پولیس کا یہ فلیگ مارچ چند گھنٹے بعد نئے سال کی آمد پر فائرنگ کرنے والوں کو متنبہ کرنے کے لیے تھا۔
پولیس فورس نے 31 دسمبرکو شہر کے کئی اہم علاقوں میں مارچ کیا۔ نگراں حکومت کے وزیر اطلاعات سید احمد شاہ نے اس موقع پر خصوصی بیان میں کہا کہ نئے سال پر ہوائی فائرنگ کی اجازت نہیں ہوگی۔ کراچی، ضلع جنوبی کی پولیس نے اپنی حدود میں لائسنس یافتہ لوگوں سے استدعا کی کہ اگلے 24گھنٹوں کے لیے اسلحہ تھانوں میں جمع کرا دیں، یوں کئی قانون کے پابند شہریوں نے پولیس حکام کی تابعداری کی مگر پھرکیا ہوا۔
31 دسمبر نئے سال کے پہلے دن کا آغاز ہوائی فائرنگ سے ہوا۔ شہر کے بیشتر علاقے تقریباً آدھے سے ایک گھنٹے تک مختلف جدید ہتھیاروں کی فائرنگ کی آوازوں سے گونجتے رہے۔
شہر کے مختلف علاقوں صدر، لیاری، گارڈن، پی ای سی ایچ ایس، بہادر آباد، گارڈن، ملیر، لیاقت آباد، کلفٹن، فیڈرل بی ایریا اور دیگر کئی علاقوں میں جوانوں نے دل کھول کر فائرنگ کی۔ پولیس نے اقدام قتل کے کئی مقدمات قائم کیے۔ اس ہوائی فائرنگ میں ابتدائی رپورٹوں کے مطابق ایک بچی جاں بحق اور 22 افراد زخمی ہوئے مگر پھر یہ تعداد 31 تک پہنچ گئی۔
کراچی میں گزشتہ سال جرائم کی تعداد خطرناک حد تک بڑھ گئی ہے۔ ان جرائم کا نشانہ بچے، خواتین اور نوجوان سب بنے۔ ایک بڑے انگریزی کے اخبار میں شایع ہونے والی رپورٹ کے مطابق گزشتہ سال 522 کے قریب خواتین اور کم سن بچیوں کو جنسی حملوں کا نشانہ بنایا گیا۔
کراچی پولیس سرجن کا کہنا ہے کہ خواتین پر حملوں کے 4 ہزار 200 کیس رپورٹ ہوئے۔ ایدھی فاؤنڈیشن جرائم اور حادثات کا شکار ہونے والے افراد کے اعداد و شمار مرتب کرتی ہے۔ ایدھی فاؤنڈیشن کے روح رواں فیصل ایدھی نے بتایا ہے کہ گزشتہ سال 714 افراد کو فائرنگ کر کے ہلاک کیا گیا اور فائرنگ کی لپیٹ میں 3ہزار 22افراد زخمی ہوئے۔
فیصل ایدھی کا کہنا ہے کہ یہ اعداد و شمار تین سرکاری اسپتالوں جناح اسپتال، ڈاکٹر روتھ فال سول اسپتال اور عباسی شہید اسپتال سے حاصل کیے گئے ہیں۔ کئی افراد کو دیگر سرکاری اور غیر سرکاری اسپتالوں میں علاج کے لیے لے جایا گیا ہوگا مگر ان اسپتالوں کے اعداد وشمار دستیاب نہیں ہیں، یوں یہ تعداد یقینی طور پر بڑھ سکتی ہے۔ اسی طرح ٹریفک حادثات میں 750 افراد ہلاک اور 11 ہزار728 زخمی ہوئے۔
یہ بھی بتایا گیا کہ ٹریفک حادثات کا شکار ہونے والے 63 فیصد افراد موٹر سائیکل سوار ہیں۔ اسی طرح گزشتہ سال 224 بچوں کی لاشیں برآمد ہوئیں۔ گزشتہ سال شہر میں آتشزدگی کے 2150 واقعات ہوئے جن میں 41 شہری جاں بحق ہوئے۔ کراچی شہر میں خواتین اور بچیوں کے اغوائ، ان کی عصمت دری اور پھر سیکڑوں افراد کی ہلاکتوں، سڑک پر ٹریفک کے حادثات کی بڑھتی ہوئی شرح شہر کی خراب امن و امان کی صورتحال کی عکاسی کررہی ہے۔
کہا جاتا ہے کہ کراچی میں پولیس کے علاوہ دیگر ادارے اور سول ایجنسیاں علیحدہ علیحدہ اپنے فرائض انجام دیتی ہیں جن میں ہر سال کھربوں روپے خرچ ہوتے ہیں مگر مذکورہ نتائج ظاہر کرتے ہیں کہ یہ تمام اپنے اہداف پورا کرنے میں ناکام ہیں۔
پولیس ماہرین کا کہنا ہے کہ پولیس اور خفیہ ایجنسیاں اب بھی پرانے طریقوں کے ذریعے جرائم کو روکنے کا دعویٰ کرتی ہیں، یوں ان کے دعوے حقیقت کا روپ اختیار نہیں کر پاتے۔ جرائم کے خاتمے کے لیے جدید طریقہ کار یہ ہے کہ جہاں سے جرم کی ابتداء ہونے جارہی ہو، وہیں سے جرم کے خاتمے کے لیے اقدامات ہونے چاہئیں۔
کراچی میں جرائم کی ایک اہم وجہ غیر قانونی اسلحے کی بھر مار ہے۔ اسلحے کے ڈیلر بغیرکسی خوف کے ہر قسم کا اسلحہ فروخت کرتے ہیں۔ فروخت ہونے والے اسلحے میں اینٹی ایئرکرافٹ گن، جدید ترین رائفلز اور پستول شامل ہیں۔
بعض کرائم رپورٹروں کا کہنا ہے کہ غیر ملکی جدید بندوقیں بھی مارکیٹ سے خریدی جاسکتی ہیں۔ جاسوسی کے جدید آلات بھی مارکیٹ سے خریدے جاسکتے ہیں گو جدید اسلحے کے کارخانے کراچی میں قائم نہیں ہوئے ہیں۔ کراچی میں افغانستان سے اسمگل ہو کر آنے والا اسلحہ آتا ہے۔
بعض رپورٹروں نے اپنی رپورٹس میں لکھا ہے کہ اسلحے کی اسمگلنگ میں اعلیٰ پولیس کے افسران، قبائلی سردار، سیاسی رہنما اور مافیاز ملوث ہیں۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ اسلحہ کراچی میں بسوں، کاروں اور موٹر سائیکلوں کے ذریعہ پہنچتا ہے۔ کراچی کی سرحد ٹھٹھہ کے علاوہ بلوچستان کے شہر حب اور اطراف کے کچے کے علاقوں سے آتا ہے۔ اسلحہ خریدنا شہر میں سب سے آسان کام بن گیا ہے۔
ساری دنیا میں سیٹلائٹ ٹیکنالوجی اور انفارمیشن ٹیکنالوجی کے ذریعے نگرانی ہوتی ہے۔ پیپلز پارٹی کی سابقہ حکومت کے وزراء بار بار سیف سٹی پروجیکٹ کے قیمتی منصوبوں کا اعلان کرتے تھے جن میں سے ایک پروجیکٹ کے تحت شہرکے مختلف علاقوں میں کلوز ڈورکیمرے نصب کیے گئے، مگر جب بھی کوئی خطرناک واردات ہوتی ہے تو پتا چلتا ہے کہ یہ کیمرے ناکارہ ہیں، اگر شہر کی سیٹلائٹ ٹیکنالوجی اور ڈرون کے ذریعے نگرانی کی جائے تو غیر قانونی اسلحے کی فراہمی میں خاصی کمی آسکتی ہے۔
اس طرح کلوز ڈورکیمرے اور مانیٹرنگ اسٹیشن بحال ہوں تو اسٹریٹ کرائم کم ہوسکتے ہیں۔ کراچی کے سرحدی علاقوں پر چوکیاں بنانے کا اعلان تو کیا جاتا ہے مگر عملی طور پر کچھ نہیں ہوپاتا، یوں اسلحہ خریدنا شہر میں سب سے زیادہ آسان کام بن گیا ہے اور دوسری طرف معاملہ تفتیش کے مراحل سے آگے نہیں بڑھتا۔ ابھی تک تفتیش کے لیے آئی ٹی ٹیکنالوجی کا استعمال شروع نہیں ہوا ہے۔
ملزمان سے تشدد کر کے ہر الزام قبول کروا لیا جاتا ہے مگر ملزمان عقل سے کام کرتے ہوئے تفتیش کے دوران جرم کا اقرار کرتے ہیں مگر جیسے ہی انھیں مجسٹریٹ کے سامنے پیش کیا جاتا ہے وہ اپنا بیان تبدیل کر کے اقرار جرم سے انکار کردیتے ہیں، اگرچہ پیپلز پارٹی کی حکومت نے گواہ کے تحفظ کا قانون منظورکیا تھا مگر اب تک اس قانون پر عملدرآمد نہیں ہوا ہے۔
بیشتر فوجداری مقدمات میں گواہ اپنے پچھلے بیان سے منحرف ہوجاتے ہیں، پولیس گواہ کو تحفظ فراہم نہیں کر پاتی، یوں گواہوں کے منحرف ہوجانے سے سنگین جرائم کے ملزمان باعزت بری ہو جاتے ہیں۔
کچھ گواہ ملزمان کے غیظ وغضب کا شکار ہوجاتے ہیں۔ ملزمان سے تفتیش کے لیے تشدد کے بجائے اگر انفارمیشن ٹیکنالوجی کو استعمال کیا جائے تو مجرم سزا پاسکتے ہیں۔ یہ ضروری ہے کہ ہر مقدمے کے لیے مختص کیے جانے والے پولیس والے بھتے کے ذریعے پٹرول کا خرچ پورا کرتے ہیں۔ یہ طریقہ کار ختم ہوجانا چاہیے۔