گستاخی معاف
اگر آج قائد اعظم زندہ ہوتے تو ملک میں آئین و قانون کی حکمرانی ہوتی
برصغیر پاک و ہند کی سیاسی تاریخ میں قائد اعظم جیسے عظیم رہنما نے اپنے کردار و عمل سے قیادت، دیانت، صداقت، ایثار و قربانی، تنظیم، اتحاد اور یقین محکم کی ایسی تاریخ رقم کی کہ اگر آج کے پاکستان کا ایک بھی حکمران قائد اعظم کے ارشادات، نظریات، افکار، سیاسی فلسفے اور اصولوں پر عمل کرتا، آج وطن عزیز ہر حوالے سے دنیا میں ایک منفرد، باوقار اور مستحکم ملک کی حیثیت سے پہچانا جاتا۔
افسوس کہ آج کے سیاسی رہنماؤں میں ایک بھی قائد اعظم جیسی صفات اور خوبیوں کا حامل رہنما موجود نہیں۔ اس پہ مستزاد جب یہ رہنما دھونس، دھمکی، دھاندلی اور غیر مرئی دستانوں کی کرشمہ سازی سے اقتدار میں آجائیں تو پھر قومی وسائل کو ''ذاتی جاگیر'' اور ملکی خزانے کو ''مال غنیمت'' سمجھ کر ان پر اپنا ایسا تسلط قائم کرتے ہیں کہ الحفیظ الامان!
قائد اعظم نے 11 اگست 1947 کو قانون ساز اسمبلی سے تاریخی خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ ''انصاف اور مساوات میرے رہنما اصول ہیں اور مجھے یقین ہے کہ آپ کے تعاون اور حمایت سے ان اصولوں پر عمل کرکے ہم پاکستان کو دنیا کی سب سے عظیم قوم بنا سکتے ہیں۔''
ایک اور موقع پر بحریہ پاکستان سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا: ''مجھے کامل یقین ہے کہ آپ اپنے رویے اور طرز عمل سے پاکستان کو کبھی نیچا نہیں ہونے دیں گے، بلکہ خدمت کی بہترین روایات قائم رکھیں گے اور دنیا کی عظیم اقوام میں سے ایک کی حیثیت سے پاکستان کی عزت اور وقار کو سربلند و سرفراز کریں گے۔''
30 اکتوبر 1947 کو لاہور میں ایک جلسہ عام سے خطاب کرتے ہوئے قائد اعظم نے فرمایا کہ ''یاد رکھیے کہ انتقام اور قانون کی خلاف ورزیاں ہمیں کہیں کا نہیں رکھیں گی اور بالآخر اس عمارت کی بنیادیں کمزور کردیں گی جسے تعمیر کرنے کی حسرت آپ کے دل میں پل رہی تھی۔''
سوال یہ ہے کہ کیا آج کے پاکستان میں کوئی ایک بھی سیاستدان یہ دعویٰ کر سکتا ہے کہ اسے قائد اعظم کے فرمودات ازبر ہیں؟ اور کیا اقتدار میں آ کر وہ ان پر عمل بھی کرتے ہیں؟ افسوس کہ اس کا جواب ایک واضح نفی میں ہے۔
انصاف اور مساوات قائد اعظم کے رہنما اصول تھے جن پر عمل کیا جاتا تو ملک ایک عظیم قوم کے طور پر اپنی شناخت بنا لیتا جیسا کہ ہمارے قائد کی خواہش تھی لیکن انصاف اور مساوات کا یہ عالم ہے کہ ایوان عدل کو ''نظریہ ضرورت'' کی نظر لگ گئی۔ منصفوں نے بھی وقت کی نزاکت کو دیکھتے ہوئے دم سادھ لیا۔ ایسے فیصلے صادر ہونے لگے کہ انصاف اور مساوات خود اپنی آوازوں سے لرزاں براندام ہوتا رہا۔
کہیں جوڈیشل قتل کے طعنے دیے گئے کہیں کینگرو کورٹس کی آوازیں سنائی دینے لگیں اور کہیں فیصلہ پسند نہ کرنے والوں کی جانب حملہ آوری کے زخم برداشت کرنے پڑے۔
2008 میں عدلیہ کی آزادی کا نعرہ تو لگا لیکن اس کی گونج اب ہوا میں تحلیل ہو چکی ہے اور معاملہ ''پھر آگئے وہیں پہ جہاں سے چلے تھے ہم'' والا ہو گیا، دوسری جنگ عظیم کے موقع پر برطانوی وزیر اعظم سرونسٹن چرچل نے جنگ جیتنے کے حوالے سے ایک صحافی کے سوال کے جواب میں کہا تھا کہ اگر عدالتیں لوگوں کو انصاف فراہم کر رہی ہیں تو ہم جنگ ضرور جیتیں گے، حضرت علیؓ کا قول صادق ہے کہ معاشرہ کفر پر تو قائم رہ سکتا ہے لیکن انصاف کے بغیر نہیں۔
اور قائد اعظم کو بھی یقین تھا کہ انصاف و مساوات کے رہنما اصول اپنانے سے پاکستان کو دنیا کی عظیم قوم بنایا جاسکتا ہے۔ افسوس کہ عالمی گراف میں انصاف کے حوالے سے ہمارا نمبر بہت نیچے چلا گیا ہے۔
آرمی چیف جنرل عاصم منیر نے بھی گزشتہ دنوں اسلام آباد میں کسانوں کے ایک کنونشن سے خطاب کرتے ہوئے بجا طور پر قرآنی آیات کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ اللہ نے ہمیں کھربوں ڈالر کے قدرتی ذخائر سے نوازا ہے۔ لیکن ہم نے فائدہ نہیں اٹھایا تو یہ ہمارا قصور ہے۔ آج ہماری یہ ابتر حالت اس لیے ہوئی کہ ہم نے قائد اعظم کے زریں اصول ایمان، اتحاد اور تنظیم کو پس پشت ڈال دیا ہے۔
ہم نے ایمان کے ٹکڑے کرکے مذہب کو تقسیم کردیا۔ اتحاد سے ناطہ توڑ لیا اور تنظیم کا تو جنازہ ہی نکال دیا ہے۔ آرمی چیف نے تسلیم کیا کہ ہمارا وطن پاکستان اگرچہ نعمتوں سے مالا مال ہے لیکن اس ملک کی یہ بدقسمتی ہے کہ مافیا کا گڑھ مافیانستان بن چکا ہے اور ان مافیاؤں کی سرکوبی کے لیے ہمیں مل کر کام کرنا ہوگا۔
اس حقیقت کو کون جھٹلا سکتا ہے کہ قائد اعظم نے جس پاکستان کا خواب دیکھا تھا وہ آج کہیں نظر نہیں آتا۔ نہ آئین کی پاسداری ہے، نہ قانون کی حکمرانی ہے، نہ انصاف کی فراہمی اور نہ ترقی و خوشحالی کی روانی ہے، نہ حلف کی پاسداری ہے اور نہ کسی کی کوئی ذمے داری ہے۔ سب بھیڑ چال ہے، قوم تقسیم در تقسیم ہے۔ نہ منزل اور نہ ہی نشان منزل جس کی لاٹھی اس کی بھینس کا اصول سب پہ بھاری ہے۔ ہر مافیا کا اپنا راج اور اپنی راجدھانی ہے ہر گروہ دوسرے گروہ پر سبقت لے جانے کا آرزو مند ہے۔
سات دہائیاں گزر گئیں قائد اعظم کا پاکستان اپنی سمت کا تعین نہ کر سکا۔ معاشی، سماجی اور حکومتی ہر سطح پر ہم تجربے کرتے رہے ہیں لیکن کامیابی ہمارا مقدر نہ بن سکی۔ ہماری معیشت قرضوں میں جکڑی ہوئی ہے۔ آئی ایم ایف کی غلامی قوم کے گلے کا طوق بن گئی ہے۔ اس کی کڑی شرائط پر قرضوں کی فراہمی نے مہنگائی کا گراف آسمان پر پہنچا دیا ہے۔
قائد کے پاکستان میں لوگوں کے لیے جینا مشکل ہو گیا ہے۔ ہماری سماجی اخلاقیات تباہ ہو چکی ہیں۔ معاشرہ بری طرح اخلاقی بگاڑ کا شکار ہے، چوری، ڈکیتی، لوٹ کھسوٹ، بدعنوانی، کرپشن، رشوت، حقوق کی پامالی، انصاف کی عدم فراہمی اور قانون کی دھجیاں اڑائی جا رہی ہیں، کوئی پوچھنے والا نہیں اور کوئی اپنے کیے پر شرم سار نہیں۔
ہم نے جمہوری، صدارتی اور غیر سیاسی سب ہی نظام ہائے حکومت آزما لیے، کوئی کامیابی نہیں ملی، کوئی نظام مستحکم بنیادوں پر استوار نہ ہو سکا ہمارے ارباب سیاست اور غیر جمہوری حاکموں نے انتقام کی پالیسی اختیار کی۔ ایک دوسرے کے خلاف مقدمات قائم کیے اور جمہوریت عدالتوں اور جیلوں میں رسوا ہوتی رہی۔ آئین کو بازیچہ اطفال بنا دیا گیا، اس میں ایسی ایسی شاہکار ترامیم کیں کہ آج منصف اعلیٰ پاکستان کو یہ کہنا پڑا کہ 2002 میں قائد اعظم بھی ہوتے تو نااہل ہو جاتے۔
گستاخی معاف! اگر آج قائد اعظم زندہ ہوتے تو ملک میں آئین و قانون کی حکمرانی ہوتی، ''نظریہ ضرورت'' جنم نہ لیتا، کسی آمر کی آئین توڑنے کی جرأت نہ ہوتی، یہ ملک دولخت نہ ہوتا، جمہوریت مستحکم ہوتی، عدلیہ اور الیکشن کمیشن آزاد ہوتا، انتقام کی سیاست نہ ہوتی، ریاستی ادارے آئین کے تحت اپنے دائرے میں کام کرتے اور عوام چین کی بانسری بجا رہے ہوتے۔ اے کاش! کہ قائد اعظم زندہ ہوتے۔