آئین کی دفعہ 251…
ہمارے آئین کی دفعہ251 آج بھی اپنی جگہ پر موجود ہے، بلکہ اب تو اس پر عدالت عظمیٰ کا فیصلہ بھی آچکا ہے
ہمارے آئین کی دفعہ251 آج بھی اپنی جگہ پر موجود ہے، بلکہ اب تو اس پر عدالت عظمیٰ کا فیصلہ بھی آچکا ہے۔ اس کے باوجود آخر کیا وجہ ہے کہ آئین کی عمل داری اور اصولوں کی پاس داری کے نعرے بلند کرنے والے کسی بھی گروہ یا شخصیت کی جانب سے آئین کی اس دفعہ 251 کی خلاف ورزی پر ذرا سی بھی بات نہیں کی جاتی؟ شاید اس لیے کہ آئین کی یہ دفعہ قومی زبان اردو کے نفاذ سے متعلق ہے۔
1973 میں جب آئین نافذ ہوا، تو آئین کی اس دفعہ کے تحت اردو پاکستان کی واحد قومی زبان قرار پائی۔ بلکہ یوں کہیے کہ قرار کیا پائی، آئین نے یہ دراصل تحریک پاکستان کے ایک وعدے کی تکمیل کی، لیکن ساتھ میں اِسے فوری نافذکرنے کے بجائے 15 سال کی مدت طے کر دی اور کہا گیا کہ آیندہ 15 سال کے اندر ریاست نفاذِ قومی زبان کے تمام ضروری انتظام مکمل کرے، تاکہ پھر ملک بھر میں قومی زبان اردو نافذ کی جا سکے۔
1973میں دی گئی 'نفاذِ قومی زبان' کی یہ آئینی مہلت 1988میں ختم ہو چکی ہے، لیکن آج 35 سال بعد بھی آئین کی یہ دفعہ ایک دن کے لیے بھی نافذ نہیں ہو سکی ہے، اس اعتبار سے ہم دفعہ 251 کو اپنے آئین کی سب سے زیادہ پائمال ہونے والی دفعہ بھی قرار دے سکتے ہیں۔
یہی وہ آئین ہے کہ جس کی پاس داری کے حلف اٹھائے جاتے ہیں، اس کی خلاف ورزی پر ہمارے ہاں حکومتیں تحلیل ہو جاتی ہیں، طاقتور شخصیات اپنے مناصب سے بے دخل ہو جاتی ہیں، حتیٰ کہ ملکی آئین توڑنا غداری قرار پاتا ہے، لیکن کتنی عجیب بات ہے کہ 35 برسوں میں آئین کی دفعہ251 کی پائمالی پر ابھی تک کوئی فرد بھی ذمے دار قرار نہیں پا سکا ہے۔
حکومت پاکستان نے 'نفاذِ اردو' کے لیے ضروری کام کرنے کے لیے 'مقتدرہ قومی زبان' کا ادارہ قائم کیا۔ ابتداً اس کا دفتر کراچی میں تھا، لیکن پھر اِسے بھی دارالحکومت کی طرح یہاں سے اٹھا کر اسلام آباد لے گئے۔ قومی زبان کے بَہی خواہ اِس منتقلی کو ادارے کے آزادانہ کام کرنے کے لیے ایک رکاوٹ قرار دیتے ہیں، نہ صرف یہ ادارہ اسلام آباد گیا، بلکہ کچھ عرصے کے بعد اس کا نام بھی 'ادارہ فروِغ قومی زبان' کر دیا گیا۔
اب اس کے 'مقتدرہ' سے 'ادارہ' بن جانے کی قانونی موشگافیوں میں پڑے بغیر ہم اصل بات کریں گے کہ اس ادارے کے مطابق اس نے طویل عرصے پہلے سے ملک بھر میں 'نفاذِ اردو' کے لیے اپنا تمام کام مکمل کیا ہوا ہے، لیکن ہمارے ملک کی مقتدر اشرافیہ اور بیوروکریسی کے ہاتھوں یرغمال ہماری حکومتیں 'نفاذِ اردو' سے گریزاں ہیں۔ اور اس میں صرف منتخب سیاسی حکومتیں ہی نہیں، بلکہ جنرل پرویز مشرف جیسے مضبوط فوجی حکمران کا آٹھ سالہ اقتدار بھی شامل ہے۔
ستم تو یہ ہے کہ 8 ستمبر 2015 کو اس وقت کے چیف جسٹس جواد ایس خواجہ نے اس حوالے سے حکومت کو آئین کی دفعہ 251 پر عمل درآمد کا حکم بھی دیا ہوا ہے، لیکن آپ اس ملک پر 'انگریزی پرست' طبقے کی طاقت کا اندازہ لگائیے کہ عدالت عظمیٰ کے فیصلے کے آٹھ برس بعد بھی اس پر عمل نہیں ہو سکا۔
دوسری طرف ایک المیہ یہ بھی ہے کہ 'نفاذِ اردو' کے لیے متحرک رئیس امروہوی، جمیل الدین عالی اور ایس ایچ ہاشمی جیسی علمی وادبی شخصیات بھی اب ہم میں موجود نہیں رہیں اور نہ ہی کسی 'انجمن' یا جماعت نے اب اس معاملے کو زیادہ اہمیت دینے کی ضرورت محسوس کی۔
2007میں کراچی کے ادبی افق پر آرٹس کونسل میں 'عالمی اردو کانفرنس' کا نہایت خوش گوار سلسلہ شروع ہوا، اُردو زبان کے اس سالانہ ادبی میلے کا سلسلہ 16 برس سے مسلسل جاری وساری ہے، چند برسوں سے اس سالانہ کانفرنس میں دیگر سماجی وسیاسی موضوعات کی بیٹھکیں بھی سجائی جانے لگی ہیں اور گزشتہ دنوں منعقد ہونے والی 'سولھویں عالمی اردو کانفرنس' میں ہمیں یہ دیکھ کر دلی رنج ہوا کہ 'عالمی اردو کانفرنس' کے اختتام پر منظور کی جانے والی روایتی قرار داد سے 'نفاذِ اردو کے آئینی تقاضے' کو پورا کرنے کا مطالبہ بالکل ہی نکال دیا گیا۔
آرٹس کونسل کی 'عالمی اردو کانفرنس' کی 16 سالہ تاریخ میں پہلی بار ایسا ہوا، ستم بالائے ستم یہ کہ اس عمل پر کسی ایک ایک شاعر، ادیب یا دردِ دل رکھنے والے فرد نے کوئی صدا تک بلند نہیں کی کہ 'قبلہ! یہ محفل قومی زبان کے نام کی ہے، اس کے مَنچ سے اہل اقتدار کو ہر سال ایک یاددہانی تو کرائی جاتی تھی کہ قومی زبان نافذ کر کے اس ملک کے ایک آئینی تقاضے کو پورا کر دیجیے، اب ہم اس سے بھی گئے!
پانی کا ایک قطرہ بھی مسلسل گرتا ہے تو چٹان میں گڑھا کر دیتا ہے، یہ تو پھر آرٹس کونسل کی قرارداد ہے، جو کم از کم سال میں ایک بار لوگوں کے کان میں یہ آواز ڈالتی تھی کہ ہمارے آئین میں قومی زبان کے نفاذ سے متعلق کیا لکھا ہوا ہے اور آج کتنے سال گزر گئے، لیکن کسی حکومت نے اس آئینی حکم پر عمل کرنے کی ہمت نہیں کی۔
جمیل الدین عالی کے بعد 'نفاذ اردو' کی خاطرخواہ بات سننے میں نہیں آتی۔ پھر جب زور آوروں اور طاقت وَروں کے سامنے کوئی مطالبہ ہی نہ ہو تو پھر ان سے یہ توقع کیسے کی جا سکتی ہے کہ وہ اسے پورا کریں گے۔ لے دے کر کراچی میں ڈاکٹر مبین اختر کی 'تحریک نفاذ اردو' کچھ متحرک رہی، لاہور سے بھی ایک 'قومی زبان تحریک' ایسے ہی مطالبے کی عَلم بردار ہے، لیکن مجموعی طور پر قومی زبان کے لیے بات کرنے والے اب پس منظر میں چلے گئے، یا مصلحتوں کا شکار ہیں۔
ذرایع اِبلاغ میں بھی شاذ ونادر ہی کوئی بھولا بھٹکا اس نظرانداز موضوع کی بات کر لیتا ہے۔ ملک میں عام انتخابات کی آمد آمد ہے، لیکن ابھی تک سامنے آنے والی اطلاعات کے مطابق وہ مذہبی سیاسی جماعتیں بھی اپنے منشور میں اب 'نفاذِ اردو' کی بات پر پس وپیش کا شکار ہیں، شاید وہ جماعتیں بھی کہ جن کی 2002 میں سرحد اور بلوچستان میں بننے والی صوبائی حکومتوں نے اردو کے نفاذ کے لیے عملی اقدام کر کے سندھ اور پنجاب کی صوبائی حکومتوں کے لیے مثالیں قائم کی تھیں۔
یہ ایک ایسا شان دار قدم تھا کہ شدید نظریاتی اختلاف کے باوجود معروف ادیب اور دانش ور جناب شوکت صدیقی نے 'ایکسپریس' کے انھی صفحات پر کھل کر مذہبی جماعتوں کے اتحاد 'متحدہ مجلس عمل' کی تحسین کی تھی، لیکن اب شوکت صدیقی جیسی ہستیاں بھی تو ہمارے درمیان موجود نہیں۔
جو اتنی اعلیٰ ظرف تھیں کہ حق کہنے میں کوئی مصلحت سامنے نہیں آنے دیتی تھیں، نہ ہی ان کی اپنے نظریات سے وابستگی اتنی 'کمزور' تھی کہ قومی زبان کی بات کرنے سے 'بھرشٹ' ہو جاتی، اور نہ ہی وہ اتنے کم ظرف تھے کہ اردو سے نام کمانے کے باوجود اردو کو حق دلانے کے لیے دو لفظ بھی نہ لکھ سکیں۔