قومی ثقافت کا فروغ ضروری کیوں
خود غرضی، عدم مساوات، ہمدردی کا فقدان، ظلم و ناانصافی، ہوس زر منفی قدریں ہیں ان قدروں کو بدلنے کی ضرورت ہے
قومی ثقافت کا فروغ ضروری کیوں؟ اس سوال کے جواب کے لیے ہمیں سب سے پہلے قومی ثقافت کے مفہوم کو سمجھنا ہوگا۔ تہذیب و ثقافت کے لیے ہمارے یہاں عموماً کلچر کا لفظ استعمال ہوتا ہے۔
کلچر اپنے اندر وسیع معنی رکھتا ہے جس میں مذہب و عقائد، معاملات زندگی، معاشرت و اخلاقیات، رسم و رواج، علوم و فنون سب کچھ شامل ہیں۔ دوسرے الفاظ میں کلچر اجتماعی زندگی کے اظہار کی مختلف صورتیں ہوتی ہیں۔ اس کی اولین شرط یہ ہے کہ طرز عمل کے اظہار میں باضابطگی کے ساتھ معاشرے کے تمام افراد میں یکساں پایا جاتا ہو۔
سوال یہ ہے کہ اس کی بنیادیں کیا ہیں؟ کلچر کے حوالے سے اس ضمن میں ناقدین کی دو آرا ہیں۔ ایک نقطہ نظر یہ ہے کہ کلچر دین کے تابع ہے، دوسرا نقطہ نظر یہ ہے کہ کلچر زمین کی کوکھ سے جنم لیتا ہے یعنی اگر ایک نقطہ نظر کو آسمانی اور دوسرے کو زمینی نظریے کا نام دیا جائے تو غلط نہ ہوگا۔
پاکستانی تہذیب و ثقافت کے بارے میں پیش کیا جانے والا پہلا نظریہ جسے ہم آسمانی نظریہ کہہ سکتے ہیں وہ تہذیب میں زمینی عنصر کے قائل نہیں، وہ ایک پوری ملت اسلامیہ کے قائل ہیں، زمین کے ساتھ رشتے کو ملی مفاد کے خلاف سمجھتے ہیں وہ پاکستانی تہذیب کو اسلامی تہذیب کا نام دیتے ہیں۔ اس طرح تمام اسلامی ممالک سے اپنا تہذیبی رشتہ استوار کرتے ہیں۔ ان کے نزدیک پاکستان چند اعلیٰ اسلامی اقدار کے فروغ کے لیے وجود میں آیا تھا اس لیے اس کا کلچر بھی ان اقدار کا مظہر ہونا چاہیے۔
زمینی نظریے کے ماننے والوں کے مطابق کسی ملک کے جغرافیائی حالات کلچر پر گہرے اثرات مرتب کرتے ہیں۔ اس لیے کلچر میں زمین کے عنصر کو نظرانداز نہیں کیا جاسکتا۔ ان کے نزدیک آپ کی زبان، لباس، خوراک اور رہن و سہن کا تعلق جغرافیائی حالات سے ہے۔ یہی وجہ ہے کہ مختلف علاقوں کا کلچر علیحدہ نظر آتا ہے۔
دین یا مذہب آپ کے عقائد، اخلاق اور ایک حد تک آپ کے آداب کی تشکیل کرتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اسلام نے اپنے ماننے والوں کو تہذیب اور ثقافت کے معاملات میں زیادہ سے زیادہ آزادی دی اور مسلمانوں پر کوئی پابندی عائد نہیں کی کہ وہ دوسرے کلچر سے استفادہ نہ کرسکیں۔ تہذیب و ثقافت کے حوالے سے دونوں نقطہ نظر میں کس کا نقطہ نظر درست ہے اس کا فیصلہ پڑھنے والے خود کر سکتے ہیں۔
میرے نزدیک کلچر نہ تو بنایا جاسکتا ہے اور نہ ہی اس کو درآمد کیا جاسکتا ہے بلکہ کلچر تو ایک طویل عرصے پر پھیلے ہوئے ایک خاص جغرافیائی وحدت کے اندر رونما ہوتا ہے۔ یہ زمینی اور مذہبی اثرات کے باہم ملنے کے نتیجے میں وجود میں آتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ دین اپنی آمد سے کلچر کی نفی نہیں کرتا بلکہ اس کی اصلاح کرتا ہے وہ مفید اجزا کو اپنے اندر جذب کر لیتا ہے اور جن اجزا سے فساد ہوتا ہے ان کو مسترد کر دیتا ہے اور جو اجزا اصلاح طلب ہوں ان کی اصلاح کر دیتا ہے۔
اب سوال یہ ہے کہ تہذیب و ثقافت کا فروغ ضروری کیوں ہے؟ اس ضمن میں یاد رکھیں کہ انسانی زندگی تہذیبی سانچوں میں ڈھل کر ہی اپنے مفہوم کا تعین کرتی ہے۔ اس میں معاشرے میں زندگی خانوں میں بٹی نہیں ہوتی بلکہ ہر چیز کے رشتے مربوط ہوتے ہیں اگر کسی سبب ایسا نہ ہو تو تضاد اور نفرت کے عناصر سارے معاشرے کو بحران کا شکار بنا دیتے ہیں۔
کوئی قوم اس وقت مضبوط ہوتی ہے جب اسے بھرپور طور پر معلوم ہو کہ اس کا کلچر کیا ہے۔ اس کا اظہار وہ اپنی زبان میں کرتی ہے جس طرح ادب جذبات کو خوبصورتی عطا کرتے ہیں اسی طرح تہذیب و ثقافت انسان کی فطرت میں خوبصورتی پیدا کرتے ہیں اس کو بناتے اور سنوارتے ہیں اور اسے ایسا نصب العین فراہم کرتے ہیں جو زمانے کا ساتھ دے سکے۔
ہر قوم کا کوئی نہ کوئی تہذیبی سرمایہ ہوتا ہے چاہے وہ ترقی یافتہ ہو یا پسماندہ پھر بھی وہ اپنے وجود کو برقرار رکھنے کے لیے کچھ بنیادیں ضرور رکھتی ہیں اور اسی حوالے سے پہچانی جاتی ہیں اس کے گیت، رقص، موسیقی، ادب اور فنون سب اس کے وجود کا جز بھی ہوتے ہیں اور اس کا مظہر بھی۔ قومیں انھیں عزت اور توقیر کے ساتھ اپنے سینوں سے لگاتی ہیں اور پھر اسے اپنے نسلی ورثے تک منتقل کر دیتی ہیں ہمارے ملک کی قومی زندگی میں جو تنوع پایا جاتا ہے وہ قدرت کا حسن ہے۔
اس کے اظہار کو مرکزیت کو کمزور کرنے کے مترادف سمجھنا درست عمل نہیں، میری ذاتی رائے میں ہر علاقے کے کلچر کو اظہار کی آزادی ملنی چاہیے۔ پاکستان کے مختلف حصوں میں جو ثقافتی اکائیاں ہیں وہ اپنی قومی ثقافت کا دن مناتی ہیں اسے نفرت کی نگاہ سے دیکھنا اور اسے مرکزیت کو کمزور کرنے کی سازش قرار دینا درست عمل نہیں، تاہم جو عناصر اس فطری عمل کو اپنے سیاسی مقاصد میں استعمال کرتے ہیں ان کی حوصلہ شکنی ضرور کرنی چاہیے۔
اب سوال یہ ہے کہ 75 سال سے زائد عرصہ گزر جانے کے باوجود ہم صحت مند اور توانا قوم بن کر زندگی کو آگے بڑھانے والی ثقافت پیدا کرنے میں کیوں قاصر رہے ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ہم آج بھی دور غلامی میں جی رہے ہیں ہم نے آج تک آزادی کی نئی روح کو اپنے معاشرتی، معاشی، سیاسی اور فکری نظام میں شامل ہی نہیں کیا جس کی وجہ سے معاشرہ تہذیبی اور ثقافتی حوالے سے جمود کا شکار ہے۔
یاد رکھیں ہر معاشرے میں عوام ہی حقیقی قوت کا سرچشمہ ہوتے ہیں۔ عوام جتنے آزاد اور بیدار ہوں گے اور جس حد تک وسائل اور اختیارات سے مساوات کے ساتھ بہرہ مند ہوں گے معاشرہ تہذیبی اور ثقافتی لحاظ سے اتنا ہی محرک ہوگا۔ جب صورت حال اس کے برعکس ہوگی تو معاشرے میں علاقائی اور نسلی تعصبات کو فروغ حاصل ہوگا۔ ہمارے یہاں یہ صورت حال آمریت کے باعث پیدا ہوئی ہے اس لیے ضروری ہے کہ جمہوری نظام کو فروغ دیا جائے۔
فنون لطیفہ مثلاً شاعری، مصوری، موسیقی، رقص وغیرہ ہمارے جمالیاتی ذوق کی تشکیل کرکے ہمارے خیالات کو خوبصورت بناتے ہیں یہ خوبصورت خیالات ہماری پرمسرت زندگی کے ضامن ہوتے ہیں۔ یہ سب کلچر کے نقطہ نظر سے اہم قدریں ہیں اس کے فروغ دیے بغیر کلچر کا فروغ ممکن نہیں ہے ہمارا نظام تعلیم ہمارے ذہنی فکری اور تخلیقی نظام کے زوال کا سبب ہے جب تک یکساں نظام تعلیم قائم اور رائج نہیں ہوگا ہمارے نوجوانوں میں تخلیقی صلاحیت بیدار نہیں ہو سکے گی۔
مادیت کے فروغ نے ہمارے یہاں منفی قدر کو فروغ دیا ہے خود غرضی، عدم مساوات، ہمدردی کا فقدان، ظلم و ناانصافی، ہوس زر منفی قدریں ہیں ان قدروں کو بدلنے کی ضرورت ہے۔ اس کی جگہ مثبت قدروں کو فروغ دیا جانا چاہیے۔ یہ اسی طرح ممکن ہے کہ ہم مادہ پرستی سے نجات حاصل کرلیں۔تہذیب و ثقافت آزاد فضا میں فروغ پاتی ہے استحصالی معاشرے میں اس کا فروغ ممکن نہیں اس لیے ہمیں استحصال سے پاک معاشرے کے قیام کی کوشش کرنی چاہیے۔