بھارت میں چند دن…
پہلی آبادی ’’پنجابی باغ‘‘ کہلاتی ہے جہاں پنجاب سے آنے والے ہندو مہاجرین کی اکثریت آباد ہے
بھارت میں قیام کے دوران مجھے اپنے بزرگوں کے آبائی گاؤں ''کلا نور'' اور''ننگانہ'' جانے کا موقع ملا ۔ کلا نور اور ننگانہ ہندوستان کے ضلع روہتک کے دو مشہور گاؤں ہیں، یہ علاقہ راجپوت (رانگھڑوں) کا گڑھ شمار کیا جاتا ہے۔ متحدہ ہندوستان میں ضلع روہتک کے مضافات میں راجپوتوں کے بارہ گاؤں فوج کی اہم نرسری شمار کیے جاتے تھے ۔
ضلع روہتک کے ان بارہ گاؤں سے تعلق رکھنے والے افراد نے ہجرت کے بعد بھی پاکستان کی فوج اور سیاست میں اہم مقام حاصل کیا۔ کلا نور سے تعلق رکھنے والے نمایاں افراد میں لیفٹینٹ جنرل راؤ امراؤ علی خان، 1950کی دہائی میں مشرقی پاکستان میں چیف مارشل لاء ایڈ منسٹریٹر رہے، میجر جنرل راؤ فرمان علی خان مشرقی پاکستان میں کمانڈر رہے اور بعد میں وفاقی وزیر بنے، لیفٹینٹ جنرل ذوالفقار علی خان انجینئر کور کے کمانڈر، چیئر مین واپڈا رہے۔
پاکستان آرمی کے پہلے سرجن جنرل اور معروف مزاح نگار میجر جنرل شفیق الرحمن، حماقتیں اور مزید حماقتیں کے مصنف اور اکیڈمی ادبیاب کے بانی چیئرمین اور مرحوم راؤ خورشید علی خان پاکستان کی پہلی مجلس قانون ساز کے ممبر، کا تعلق بھی کلا نور سے تھا۔ ان کے علاوہ راؤ فضل الرحمن،سابق وزیر ریاست بہاولپور ، مرحوم راؤ سکندر اقبال، سینئر وفاقی وزیر دفاع، مرحوم راؤ محمد افضل جنھوں نے 1988کے عام انتخابات میں اوکاڑہ سے نوازشریف کو شکست دی۔
راؤ محمد ہاشم ممبر پارلیمنٹ رہے، مرحوم راؤ قیصر علی خان ، ممبر قومی اسمبلی اور پارلیمانی سیکریٹری، ان کے بھائی راؤ صفدر علی خان جو حالیہ انتخابات میں مظہر آباد، دیپال پور کے حلقے سے قومی اسمبلی امیدوار ہیں۔ راؤ محمد اجمل ممبر قومی اسمبلی ( نواز لیگ) اور رانا محمود الحسن ممبر قومی اسمبلی نواز لیگ (ملتان) کا تعلق بھی انھی علاقوں سے ہے۔
تقسیم ہند اور قیام پاکستان کا اعلان ہوتے ہی ضلع روہتک کے ان بارہ گاؤں کے بڑوں نے فیصلہ کیا کہ ہم ہجرت کر کے پاکستان جائیں گے۔ ہجرت کے بعد لوگوں کی اکثریت نا گزیر وجوہات کے بنیاد پر پاکستان میں ایک جگہ آباد نہ ہو سکی۔ ان میں اکثریت اوکاڑہ، ساھیوال، ملتا ن اور اندرون سندھ آباد ہوئے۔ میری پیدائش پاکستان بننے کے بعدہوئی جب میرے شعور نے آنکھ کھولی تو اکثر و بیشتر گھروں میں ان علاقوں کے نام سننے میں آتے تھے۔
نصف صدی سے زائد عرصہ گزرنے کے بعد میں جب پہلی بار دہلی سے ضلع روہتک کے ان گاؤں کی طرف جا رہا تھا تو مجھے تقسیم ہند کے واقعات ، مہاجرین کے قافلے، بزرگوں کی شہادت، ہندوؤں اور سکھوں کے مظالم کی داستان، ہجرت کے دوران عزیز واقارب کے بچھڑنے کے حوالے سے کئی خیالات ذہن میں آر ہے تھے۔
روہتک ، دہلی سے سڑک کے راستے ستر کلو میٹر کے فاصلے پر ہے۔ آبادی کے بڑھتے ہوئے دباؤ کی وجہ سے یہ فاصلہ تقریباً سوا گھنٹے میں طے ہوتا ہے۔ نئی دہلی سے نکلتے ہی روہتک روڈ شروع ہو جاتی ہے ، اس سڑک کے دونوں اطراف ان لوگوں کو آباد کیا گیا ہے جو تقسیم ہند کے بعد پاکستان سے ہجرت کر کے بھارت آئے۔
پہلی آبادی ''پنجابی باغ'' کہلاتی ہے جہاں پنجاب سے آنے والے ہندو مہاجرین کی اکثریت آباد ہے۔ اس کے بعد ''پچھم بہار'' اور ''ماری لور گاؤں'' اور ''پیلا گڑھی'' کی آبادی ہے۔ یہ سب آبادیاں تقسیم ہند کے بعد بسائی گئیں۔ ہمارا ڈرائیور بتا رہا تھا کہ 1947میں دہلی سے روہتک جاتے ہوئے یہ راستہ کھلے میدان، جنگل اورکھیتوں سے گزر تا تھا۔اب تمام را ستہ نئی نئی کالونیوں اور آبادی کے دباؤ کا شکار ہے۔
ہندوستان اور پاکستان بننے کے بعد اکیس سال تک ضلع روہتک پنجاب کا حصہ رہا۔1968کی انتظامی اصلاحات کی بدولت اس ضلع کو صوبہ پنجاب سے الگ کر کے ہریانہ میں شامل کر دیا گیا۔ میں نے اس بار بھارت میں قیام کے دوران دہلی سے آگرہ اور دہلی سے اجمیر شریف کا سفر سڑک کے راستے بھی کیا۔ میں نے جو ترقی اور شہری سہولتیں آگرہ اور اجمیر شریف کے راستے میں دیکھی اس کی نسبت روہتک کی جانب ترقی کی رفتار خاصی کم نظر آئی۔
وقت کی کمی کے باعث ہم نے روہتک شہر کے اندر سے گزرنے کے بجائے بائی پاس کا راستہ اختیار کیا، روہتک سے اٹھارہ کلو میٹر پر کلا نور کا قصبہ مین روڈ پر واقع ہے۔روہتک سے ایک راستہ حصار کی طرف جاتا ہے۔ دوسرا راستہ سونی پت کو اور تیسرا بھوانی کو جاتا ہے۔ کلا نور اور ننگانہ سڑک پر واقع ہیں۔بھوانی کا مشہور ریلوے جنکشن کلا نور سے پندرہ کلو میٹر کی مسافت پر ہے۔ باقی باتیںآیندہ کالم میں کروں گا۔