سردار

ہمارا مسئلہ ہمارے شرفاء و روساء ہیں، یہ شرفاء آپ کو پارلیمان میں ملیں گے


جاوید قاضی January 07, 2024
[email protected]

برطانیہ کی پارلیمنٹ دو ایوانوں پر مشتمل ہے، ایک ہے ہاؤس آف لارڈز اور دوسرا ہاؤس آف کامن۔ اردو میں ان کو ایوان عام اور ایوان بالا کہا جاتا ہے لیکن ہماری پارلیمان یا امریکا کے پارلیمان سے ہٹ کر تھی اور ہے، برطانیہ کی پارلیمان کا ہاؤس آف لارڈز واقعی میں سرداروں کا ایوان تھا۔ ان کے تاریخی تسلسل میں لارڈز یہی تھے جو ہمارے تاریخی تسلسل میں وڈیرے، چوہدری، سردار اور پیر ہیں۔

برطانیہ کی تاریخ میں ہاؤس آف کامن سے ہاؤس آف لارڈز زیادہ بااختیار اور طاقتور تھا۔ یہاں تک کہ ان کی سپریم کورٹ بھی ہاؤس آف لارڈزکا حصہ تھی، یہ تو جب برطانیہ یورپی یونین میں گیا تو انھوں نے کہا کہ سپریم کورٹ کو سپریم کورٹ کہو، اس کا جو بھی تسلسل ہے ہاؤس آف لارڈز سے اسے الگ کرو۔ روایتوں میں گھرا برطانیہ اب بھی ایسے آئین کے سہارے چل رہا ہے جو تحریری ہی نہیں ہے۔

یہ تو بھلا ہو اس کا تاریخی اعتبار سے جب کالونیاں دریافت ہوئیں جہاں سے لوٹی ہوئی دولت بھی آئی اور اس طرح انفرا اسٹرکچر کے لیے بے جا دولت آئی، برطانیہ میں مشین کا استعمال تیزی سے بڑھا، کارخانے لگنے لگے، ریل کی پٹریوں کا جال بچھنے لگا، لندن میں اسٹاک ایکسچینج قائم ہوئی، ری ڈسٹری بیوش آف ویلیتھ ہوئی اور مڈل کا حجم تیزی سے پھیلا، جس نے برطانیہ کے لارڈز طبقے کو ہلا دیا اوراختیارات کا رخ ہاؤس آف کامن کی طرف ہونا شروع ہواجب کہ ہاؤس آف لارڈز کمزور ہوا۔

غالباً یہ بھی ہمارے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی روایت ہے جنھوں نے کہا، اعلیٰ عدالتوں کے ججز کو "My Lord"یا "Your Lordship" وغیرہ کہہ کر مخاطب نہ کیا جائے ، صرف سر یا جناب وغیرہ کافی ہے۔

ہمارے قاضی صاحب کے یہ ریمارکس بھی بڑے معنیٰ خیز تھے، جب انھوں نے کسی وکیل صاحب کے نام کے ساتھ وہ بھی سپریم کورٹ میں سردارکے اعزاز سے جڑا تھا پر بات کی تھی ، انھوں نے بھٹو صاحب کے 1976 والے سرداری نظام کے خاتمے کے حوالے سے تاریخ کی یاد دہانی کرائی۔

میں نے ایک انٹرویو کے دوران خیر بخش مری سے بھٹو کے سرداری نظام کے خاتمے کے فیصلے پر سوال کیا تھا، ان کا کہنا تھا وہ خود اس اس نظام کو منفی سمجھتے ہیں لیکن بھٹو کا مقصدکچھ اور تھا، وہ ہماری تذلیل کرنا چاہتا تھا۔ انھوںنے یہ کہا کہ جب بلوچ قوم آزاد ہوگی یا پاکستان یا دنیا فطری اعتبار سے آگے بڑھے گی، ہم بھی سردار کہلوانا چھوڑ دیں گے۔

برصغیر میں یہ روایت انگریز سامراج نے ڈالی۔ لوگوں کو رائے بہادر، سر، خان بہادرکے خطابات سے نوازا، انگریز سرکار کے ان وفاداروں کو زرعی اور شہری زمینیں دیں، انھیں تاج برطانوی ہند کے تابع اختیارات بھی دیے، مقصد یہ تھا کہ وفاداروں کا یہ طبقہ عوام کو غلام بنا کر رکھے، باغیوں کی مخبری کرے، انھیں قتل کرنے یا گرفتار کرانے میں انگریز سرکاری کی مدد کرے تاکہ تاج برطانیہ کے خلاف کوئی بغاوت نہ ہو پائے۔

1857 میں انگریز کو جس پہلی بغاوت کا سامنا کرنا پڑا، اس کی قیادت مسلماناں ہند نے کی تھی، اسی برس کے بعد 1940میں یہ بغاوت ایک بنگالی فریڈیم فائٹرسبھاش چندربوس کر رہے تھے ۔ ہمارے سندھ میں بھی ایک فریڈم فائٹر تھے جن کو سندھی عوام سورھیہ بادشاہ کے نام سے جانتی ہے، جو ہمارے پیر پگاڑا، شاہ مردان شاہ مرحوم کے والد تھے۔

سندھ کے باقی پیر، سردار، وڈیرے، پنجاب کے چوہدری، سردار، تمن دار، مخدوم، گدی نیشن، بلوچستان کے سردارو نواب، خیبر پختونخوا کے مشران،ملکان، میاں گان، پیران، یہ سب انگریز سامراج کے ساتھ جڑے ہوئے تھے۔ پھر یہ ہماری ریاست پاکستان کو جہیز میں ملے ہیں۔

ایک قصہ ہمارے دوست حاصل بزنجو سناتے تھے کہ سرداروں میں صرف جعفر خان جمالی تھے جو فاطمہ جناح کے ساتھ کھڑے تھے اور ایوب کی پرواہ نہ کی،کھڑے میرے والد بھی تھے فاطمہ جناح کے ساتھ، جب انھوں نے آمر ایوب سے ٹکر لی تھی اور شیخ مجیب بھی مگر یہ سب سردار، وڈیرے، پیر، چوہدری وغیرہ نہ تھے۔

ہوا یوں کے ایوب لینڈ ریفارم لائے، بقول حاصل بزنجو کے ان کے لینڈ ریفارم میں کسی اور کی زمینیں نہیں گئیں صرف جعفر خان جمالی کی ہزاروں ایکڑگئیں۔ جعفر خان جمالی کی تو پیروں تلے زمین نکل گئی۔ انھوں نے ذیلی سرداروں کا، اپنے خاندان والوں کا جرگہ بلایا اپنے خطاب میں انھوں نے یہ کہا کہ آمر کے خلاف جمہوری قوتوں کے ساتھ کھڑا ہونا ہمارے بس کا روگ نہیں، ہمیں اس معاملے نہیں الجھنا چاہیے۔

ہمارا مسئلہ ہمارے شرفاء و روساء ہیں، یہ شرفاء آپ کو پارلیمان میں ملیں گے۔ انتخابات اتنے مہنگے ہوگئے ہیں کہ متوسط طبقے کے شخص کے لیے کھڑے ہونا اب تاریخ ہوا۔ ہم صحیح معانی میں انفرا اسٹرکچر پھیلا نہ سکے جس سے جمود ٹوٹتا۔ ہم اب بند گلی تک پہنچ چکے ہیں۔ کل ہی ایوان بالا میں ایک نام نہاد قرارداد پاس ہوئی کہ الیکشن ملتوی ہوں۔

صرف چودہ ارکان، کورم بھی پورا نہیں، چیئرمین سینیٹ بھی خاموش، پیپلز پارٹی اور ن لیگ کا ایک ایک سینٹر بھی کورم کے اصول سے نابلد، ذرا ان چودہ ممبروں کی تاریخ نکلوا کے دیکھ لیں یقینا ان کی نسبت بھی کہیں انگریز راج سے مل جائے گی ۔ ان کو یہ سمجھ بھی نہیں آئی کہ جو قرارداد یہ پاس کررہے تھے، وہ آئین کے خلاف ہے اور پاکستان کو ایک بھنور میں پھینکنے کی سازش ہوگی۔

ضرورت ہے اس ملک کے اندر اب یہ سرداروں کا ہاؤس آف لارڈ بند ہونا چاہیے، یہ عام لوگوں کا پاکستان ہے۔ اب منفی خطاب عزت لینے کے لیے نہیں بلکہ ہنر ہونا چاہیے۔ ذات، پات، پیری مریدی، صوبائیت و لسانیت کے چکر سے اس ملک کو نکلنا ہوگا، شعوری اعتبار سے۔

ہمارے اکبر بگٹی، بگٹیوں کے سوا کسی اورکو بلوچ مانتے ہی نہیں تھے۔ میں نے جب ان کا انٹرویوکیا تو وہ نہ زرداریوں کو بلوچ مانتے تھے نہ ٹالپروں کو۔ پھر جا کے اپنی تھیوری بتائی کہ جو پہاڑوں پر رہے ، وہ '' بلوچ'' اور جو شہروں کا رخ کرے وہ '' بروچ'' ہم جو اکثر سندھی میں کہتے ہیں۔

یہ ماجرا جب حاکم علی زرداری کو انٹرویو کرتے وقت سنایا تو بڑے نالاں ہوئے، جب انٹرویو ختم ہوا توکہا کہ جو میں نے اکبر بگٹی کے بارے میں کہا ہے، وہ انٹرویو میں کاٹ دینا، اس لیے کہ نواب اکبر بگٹی پر عتاب آیا ہوا ہے، اس کے خلاف اس وقت بولنا معقول عمل نہیں ہوگا بلکہ مشرف کے ہاتھوں میں کھیلنا ہوگا۔

میں نے جب نواب خیر بخش مری کا انٹرویوکیا تھا اس وقت اکبر بگٹی شہید ہوگئے تھے، ان سرداروں کی آپس میں نہیں بنتی تھی۔ اکبر بگٹی تو بھٹو کے بلوچستان میں فوجی آپریشن کا حصہ تھے۔ میں نے خیر بخش مری سے کہا کہ اکبر بگٹی نے اپنا کفارہ ادا کردیا تو انھوں نے کہا جو اکبر بگٹی نے کیا وہ ان کی شہادت سے نہیں جاتا اور پھر بعد میں جب ملنے گیا تو کہنے لگے مجھے اکبر بگٹی کے لیے اس طرح نہیں کہنا چاہیے تھا، ان کی نواسی کا پیغام آیا ہے دکھ بھرا۔

دکھ اس بات کا ہے کہ ہمارے والد کے ساتھ سیاست میں رہنے والے حاکم علی زرداری جوکہ اربن تھے جنھوں نے اپنی بیٹیوں کو بیٹا سمجھ کر میرے والد کی طرح پڑھایا فلمیں بنائی۔ یہ لوگ نواب شاہ میں میرے پڑوسی ہیں اب بھی جوگلی ان کے گھرکو جاتی ہے وہ میرے والد کے نام سے منسوب ہے چاہتے تو مٹا سکتے ہیں لیکن نہیں مٹائی مگر ایک دن ہمارے آصف زرداری کو سیاست اور ریاست کچھ اتنی زیادہ سمجھ آئی کہ آپ بھی سردار بن گئے جوکہ زرداریوں میں اس سے پہلے روایت نہ تھی۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔