پختونوں کا محسن
ملک احمد بابا کے کارنامے عام قبائلی واقعات نہیں تھے بلکہ یہ واقعات پختونوں کی تاریخ اور سماج پر اثر انداز ہوئے
افغانستان کے پختون قبائل اور پاکستان میں صوبہ خیبرپختونخوا کے پختون قبائل کی سماجی اور معاشی طرززندگی میں بہت زیادہ فرق ہے'افغان قبائل ابھی تک پسماندہ، ناخواندہ اور قدیم دور میں زندگی گزار رہے ہیں' جب کہ پاکستان میں ہم پختون ایک جمہوری اور ترقی یافتہ سماج کا حصہ بن کر زندگی گزار رہے ہیں۔
بہرحال ہمارے خیال میں اگر یوسف زئی قبیلے کے سربراہ ملک احمد بابا قندھار ریجن سے وادی پشاور کی طرف نقل مکانی کا فیصلہ نہ کرتے تو آج ہم بھی ترقی یافتہ سماج کا حصہ ہونے کے بجائے موجودہ افغانستان کے کسی علاقے میں غربت اور پسماندگی کی زندگی گزار رہے ہوتے ' یوسف زئی قبیلے کی عظیم نقل مکانی کے نتیجے میں پختون قبائل خانہ بدوشی کے بجائے مستقل رہائشی زندگی گزارنے لگے ' اس سماجی اور معاشی تبدیلی کی وجہ سے پشاور وادی کو وطن بنانے والے پختونوں میں بڑے بڑے شاعر اور ادیب پیدا ہوئے جنھوں نے پشتو اور دیگر زبانوں کے ادب اور ثقافت کی ترقی میں اہم کردار ادا کیا ۔
ملک احمد بابا کے کارنامے عام قبائلی واقعات نہیں تھے بلکہ یہ واقعات پختونوں کی تاریخ اور سماج پر اثر انداز ہوئے۔ضرورت اس امر کی ہے کہ ملک احمد بابا اور ان کے ساتھیوں کو پختونوں کا قومی ہیرو قرار دے کر ان کے دن منائے جائیں کیونکہ اگر وہ افغانستان میں بکھرے پختون قبیلوں کو اس طرف آنے کی ترغیب نہ دیتے تو آج اس جنت نظیر سرزمین پر پختون نہ رہ رہے ہوتے اور نہ پاکستان کا شمال مغربی سرحدی علاقہ خیبرپختونخوا کا نام حاصل کر پاتا۔
یوسف زئی اور مندنڑ قبیلے کے سردار ملک احمد بابا پرمیرے دوست اورسابقہ چیف انجینئر خیبر پختونخواہ محترم اعجاز خان یوسفزئی کا دعوت نامہ پرانے کاغذات میں ملا ہے'جس کے مطابق 10مئی 2015کوملاکنڈ ایجنسی کے گاؤں اللہ ڈھنڈ ڈھیری میں ملک احمدبابا کے نوتعمیر شدہ مقبرے کے رسم افتتاح کے موقع پر ایک عالمی سیمینار اور مشاعرے کا بندوبست کیا گیا تھا ' میں اس سیمینار میں شرکت نہ کرسکا تھا۔پچھلے دنوںایک خبر نظر سے گزری کہ ملک احمد بابا کے تعمیر شدہ مقبرے کی حالت عدم توجہ کی وجہ سے خراب ہے 'حکومت سے درخواست ہے کہ اس تاریخی عمارت کی طرف توجہ دے 'اسی طرح صوابی میں گجو بابا کے مقبرے کی طرف بھی توجہ کی ضروروت ہے۔
ملک احمد بابا(1470-1530) پندرہویں صدی کا عظیم پختون ہیرو ہے'جن کی کہانی اس وقت سے شروع ہوتی ہے 'جب یوسف زئی اور دیگر پختون قبائل کو موجودہ افغانستان میں اپنے آبائی علاقوں میں مختلف وجوہات کی وجہ سے رہنا مشکل ہو گیا 'ویسے تو یوسف زئی قبیلے کی تاریخ بہت قدیم ہے لیکن ہم اپنی کہانی ملک احمد بابا کے دور تک محدود رکھیں گے۔
جن کا سب سے بڑا کارنامہ پختونوں کے سب سے بڑے قبیلے یوسفزئی اور مندنڑ کو افغانستان سے بحرانوں سے نکالنا اور انھیں خیبرپختونخوا کے بہترین علاقوں میں آباد کرنا تھا' یوسف زئی قبیلہ پختونوں کا سب سے بڑا اور تاریخی قبیلہ ہے 'یہ قبیلہ ملاکنڈ' بونیر'سوات'شانگلہ اوردیر کے کچھ علاقوں میں اور اس کا ذیلی قبیلہ مندنڑ مردان اور صوابی کے میدانی علاقوں میں آباد ہیں۔
13 اور 14ویں صدی میںیہ قبیلہ دیگر ذیلی قبیلوں کے ساتھ قندھا ر کے میدانوں میں آباد تھا' یہ لوگ چراگاہوں اور پانی کی تلاش میںمستقل خانہ بدوشی کی حالت میں رہتے ' یہ لوگ دریائے ہیلمند اور دریائے ارغنداب کے گرد آباد تھے ' منگولوں کے حملوں کی وجہ سے ان پختون قبائل کی نقل مکانی شروع ہوئی جو 14ویں صدی سے لے کر اگلی چند صدیوں تک مسلسل جاری رہی'یوسف زئی قبیلہ ان ابتدائی قبیلوں میں تھا جس نے اپنے مسکن'' غوڑہ مرغئی''سے نقل مکانی کی اور غزنی کے اطراف میں آباد ہوئے اور وادی کابل کے اطراف تک پھیل گئے۔
امیر تیمور لنگ کی موت کے بعد اس کی سلطنت کا شیرازہ بکھر گیا ، اس کے پوتوں کے درمیان سلطنت کے ٹکڑوں پر قبضے کی لڑائی شروع ہوگئی، یوسف زئی قبائل کے مشران نے مرزا الغ بیگ کی حمایت کی ، یوں وہ تخت کابل پر قبضہ کرنے میں کامیاب ہوگیا ' بعد میں مرزا الغ بیگ اور یوسف زئی قبیلے کے درمیان تعلقات کشیدہ ہوگئے۔
کہتے ہیں کہ الغ بیگ نے صلح کے بہانے دعوت پر یوسف زئی قبیلے کے چھ 'سات سو سرکردہ لوگوں کو محل میں بلاکر سب کو قتل کردایا' اس کے بعد یوسف زئی قبیلے نے یہاں سے نقل مکانی کا فیصلہ کیا'اس وقت قبیلے کے بڑوں میں ملک شاہ منصور'ملک کا لو خان 'ملک گجو خان'شیخ ملی اور چند دوسرے جوان شامل تھے ' ان سب نے مل کر 14/15سال کے ملک احمد کو اپنا قائد بنایا اور یہ فیصلہ کیا کہ وہ مشرق کی طرف نقل مکانی کریں گے۔
انھوں نے ننگر ہا ر کے بعد وادی پشاور کا رخ کیا اور دریائے کابل اور دریائے سوات کے درمیان ایک زرخیز علاقے ''دو آبہ''میں آباد ہو ئے ' دوسرے چھوٹے قبیلے ترکلانی 'گدون 'اتمان خیل وغیرہ بھی اس ہجرت میں شامل تھے۔محمد زئی قبیلہ ایک سال بعد بری حالت میں ہشت نگر اور دوآبہ کے علاقے میں پہنچا تو یوسف زئی قبیلے نے یہ علاقہ خالی کیا اور مشرق کی طرف مردان اور سوات کے علاقوں میں آگئے۔
یوں دلہ زاک قبیلے کو چارسدہ اور پشاور کے بعد مردان سے بھی نقل مکانی کرنا پڑی 'سواتی قبیلے کو ہزارہ اور سوات کے درمیان کے پہاڑی علاقوں میں آباد ہونا پڑا ' اور وہ وادی پکھلئی (مانسہرہ'بفہ اور بٹگرام) کے علاقوں میں بس گئے 'اس دوران یوسف زئیوں کے ساتھ آئے ہوئے دوسرے قبائل دیر اور باجوڑ کے علاقوں میں آباد ہوگئے۔
یوسف زئی قبائل کی اکثریت وادی پشاور میں مردان 'صوابی اور سوات 'بونیر' شانگلہ 'ملاکنڈ اور دیر وغیرہ میں ہے' کہتے ہیں کہ یوسف زئی اور حلیف قبیلوں کا ایک بڑا جرگہ ملک احمد بابا کی سربراہی میں شہباز گڑھی کے گرد و نواح میں کسی مقام پر منعقد ہوا'اس جرگے میں مختلف قبائل کے لیے مختلف علاقے مختص کیے گئے۔
محمد زئی ہشت نگر (چارسدہ) میں،گدون موجودہ گدون امازئی کے علاقے میں' اتمان خیل اور ترکلانی قبیلے اڑنگ بڑنگ (باجوڑ) میں جب کہ یوسف زئی صوابی' مردان' ملاکنڈ'شانگلہ' سوات' بونیر اور دیر میں آباد ہوئے' دیر میں ترکلانیوںبھی آباد ہوئے۔ ''مندنڑ قبیلہ'' ضلع صوابی اور مردان کے مختلف علاقوں میں آباد ہوگیا۔
یہ سب واقعات ملک احمد بابا کی دانشورانہ اور جرات مندانہ قیادت کے دوران تقریباً نصف صدی (1474-1530/1550) کے دوران پیش آئے' ملک احمد بابا کے انتقال کے بعد ایک اور قابل شخصیت ملک گجو خان قبیلے کے سربراہ بن گئے۔
ملک احمد بابا کی اولاد زیادہ تر تحصیل یارحسین ضلع صوابی میں آباد ہے اور ملک زئی کہلاتے ہیں'وہ ملاکنڈ ایجنسی کے گاؤں اللہ ڈھنڈ ڈیری میں دفن ہیں'یوسف زئی قبیلے کی ایک اور قابل شخصیت اوران کے ساتھی شیخ ملتون ( شیخ ملی)نے قبیلوں کے درمیان اور قبیلوں کے اندر اراضی کی تقسیم کا ایک زبردست طریقہ نکالا 'جس کو'' شیخ ملی کا دفتر'' کہتے تھے' ان کی تقسیم کے فارمولے پر اکبر بادشاہ کے وزیر راجہ ٹوڈر مل نے ہندوستان بھر کی اراضی کی تقسیم کی' تقسیم کا یہی طریقہ انگریزوں نے بندوبست اراضی میں بھی برقرار رکھا ۔
یوسف زئی اور اس کے اتحادی دیگر پختون قبائل نے یہاں پہلے سے آبادی قبائل کے علاقوں پر قبضہ کیا ' دلہ زاک قوم کو وادی پشاور اور چارسدہ سے نقل مکانی پر مجبور ہونا پڑا، وہ مردان اورصوابی کے علاقوں میں چلے گئے لیکن ان علاقوں سے بھی دلہ زاک کو نقل مکانی کرنا پڑی' سواتی قبیلے کو سوات سے نکال کر ہزارہ کی طرف جانے پر مجبور کیا گیا۔
اس طرح ان علاقوں میں پختونوں کی آبادی میں اضافہ ہوا، ان کے زیر اثر علاقوں میں بھی توسیع ہوئی'یوسف زئی قبیلے کی وادی پشاور کی طرف نقل مکانی کی وجہ سے افغانستان کے مختلف علاقوں میں آباد منتشر خانہ بدوش پختون قبائل کو بھی وادی پشاور اور دیگر علاقوں میں آنے کی ترغیب ملی' موجودہ صوبہ خیبر پختونخوایوسف زئی قبیلے کی نقل مکانی کی مرہون منت ہے۔
اس عظیم ہجرت کے نتیجے میں پختون قوم کی ایک اور قبائلی برادری غوریا خیل بھی نقل مکانی کرکے ان علاقوں میں آگئے 'ان میں مہمند'خٹک قبیلہ بھی خوشحال خان کی سرکردگی میں جنوب سے شمال کی طرف آیا اور مردان کے حلقہ بائیزئی تک پہنچ گیا۔اس طرح ہم کہہ سکتے ہیں کہ موجودہ خیبر پختونخوا کی تشکیل ملک احمدبابا اور ان کے بہادر ساتھیوں کی مرہون منت ہے۔ نوٹ۔ اس کالم میں بیان شدہ واقعات تاریخ کے مختلف حوالوں سے ماخوذ ہیں'بہت سے معاملات میں پختونوں کی تاریخ کا معاملہ ابھی تک متنازعہ ہے'اس لیے کسی بھی غلطی کے لیے پیشگی معافی)۔