عام انتخابات کیسے ملتوی ہو سکتے ہیں
سینیٹ کی بے وقعت قرارداد نے انتخابات کے ملتوی ہونے کا ماحول بنا دیا
کیا عام انتخابات ملتوی ہو رہے ہیں۔ ہر کوئی ایک دوسرے یہ سوال پوچھ رہا ہے۔ پہلے سینیٹ کی بے وقعت قرارداد نے انتخابات کے ملتوی ہونے کا ماحول بنا دیا۔
حالانکہ میں نے دوستوں کو بہت سمجھایا کہ چند سینٹرز کی پاس کردہ اس قرارداد کی حیثیت ایک ایسے مشورے سے زیادہ نہیں جس کا مقدر ردی کی ٹوکری ہے۔ لیکن دوست بضد تھے کہ قرارداد کے پیچھے بہت بڑی کہانی ہے، کچھ ابھی تک بضد ہیں کہ یہ قرارداد ایسے ہی نہیں آئی۔
بہرحال اس قرارداد کے اثرات ابھی ختم نہیں ہوئے تھے کہ الیکشن کمیشن کے سیکریٹری کے مستعفی ہونے کی خبریں پھیل گئیں اور ایک چہ مگوئیوں اور افواہوں کا طوفان اٹھ کھڑا ہوا۔ ماحول بن گیا کہ الیکشن کمیشن کے سیکریٹری مستعفی ہو گئے ہیں، اس لیے اب انتخابات ملتوی ہو جائیں گے۔
ا س سے پہلے ملک میں معاشی ایمر جنسی کے ذریعے انتخابات ملتوی کرانے کی خبریں زیر گردش تھیں۔ کہا جا رہا تھا کہ صدر مملکت پر بہت دباؤ ہے کہ وہ ملک میں معاشی ایمرجنسی لگا دیں۔
جس کے بعد عام انتخابات ملتوی کرنے کی راہ ہموار ہو جائے گی۔ میں نے تب بھی عرض کی تھی کہ یہ درست ہے کہ صدر مملکت قومی اسمبلی اور صوبائی اسمبلیوں کی عدم موجودگی میں ملک میں معاشی ایمرجنسی لگا سکتے ہیں۔ لیکن معاشی ایمرجنسی ملک میں انتخابات نہیں روک سکتی۔
بلکہ اگر آئین کے سیکشن 234کے سب سیکشن 4کو دیکھیں تو صاف نظر آتا ہے کہ آئین معاشی ایمرجنسی کے دوران انتخابات کے انعقاد کی راہ ہموار کرتا ہے، اس لیے معاشی ایمرجنسی سے انتخابات کا راستہ نہیں رک سکتا۔ اس لیے مقصد اگر انتخابات روکنا یا ملتوی کرانا ہے تو پھرمعاشی ایمرجنسی کا کوئی فائدہ نہیں کیونکہ آئینی طور پر معاشی ایمرجنسی کے بعد بھی انتخابات ملتوی نہیں ہو سکتے۔
سیکریٹری الیکشن کمیشن کی طبعیت خراب ہے۔ وہ خرابی صحت کی وجہ سے مستعفیٰ ہو رہے ہیں۔ لیکن ان کی خراب طبعیت نے پورے ملک کی طبیعت خراب کر دی ہے۔ ہر کسی کی طبیعت خراب نظر آرہی ہے۔ جو الیکشن ملتوی کرانا چاہتے ہیں، انھیں سیکریٹری الیکشن کمیشن کا استعفیٰ ڈوبتے کو تنکے کے سہارے کی مانند امید کی ایک کرن نظر آرہا ہے۔ جو الیکشن بروقت کرانا چاہتے ہیں انھیں سیکریٹری الیکشن کمیشن کا استعفیٰ ایک بے وقت کی راگنی سے زیادہ کچھ نہیں لگ رہا ہے۔ ایک بے وقت کی درد سر ۔
سیکریٹری الیکشن کمیشن کے استعفیٰ سے پہلے تو پورے الیکشن کمیشن کے استعفیٰ کی افواہیں بھی گردش کر رہی تھیں۔ ایک د وست نے پریشانی میں فون کیا کہ اگر پورا الیکشن کمیشن مستعفی ہو جائے، پھر تو الیکشن ملتوی ہو جائیں گے۔ میں نے کہا،کیوں؟ کیا سب نے استعفیٰ دے دیا؟ اس نے کہا، بہت افواہ ہے کہ پورا ا لیکشن کمیشن مستعفی ہو جائے گا۔ پھر کیسے الیکشن ہوںگے۔
میں نے کہا، اس کا آئین میں حل موجود ہوگا۔جس طرح کے پی کے نگران وزیر اعلیٰ کے انتقال کے بعد نیا نگران وزیر اعلیٰ آگیا، اسی طرح نیا ا لیکشن کمیشن بھی بن جائے۔اگر سابق وزیر اعلیٰ اور سابق اپوزیشن لیڈر مل کر نیا نگران وزیر اعلیٰ لگا سکتے ہیں تو پھر سابق وزیر اعظم اور سابق اپوزیشن لیڈر مل کر نیا الیکشن کمیشن کیوں نہیں لگا سکتے۔ اس لیے اگر سارا الیکشن کمیشن بھی مستعفی ہوجائے تب بھی مجھے الیکشن ملتوی ہوتے نظر نہیں آتے۔
جب میں یہ کہتا ہوں کہ ایسا آئینی طور پر ممکن نہیں، تو دوست کہتے ہیں کہ پنجاب اور کے پی کے انتخابات کونسے آئین کے تحت ملتوی ہوئے تھے، جو اب آئین کی بات کی جا رہی ہے۔ دوست سمجھ نہیں رہے کہ پنجاب میں الیکشن کے وقت بھی آئین ہی آئین سے متصادم تھا۔ اس لیے انتخابات رک گئے۔ پیسے دینے کا اختیار قومی اسمبلی کے پاس ہے۔ جب قومی اسمبلی نے پیسے دینے سے انکار کر دیا تو سب بے بس ہو گئے۔
اگر حکومت پیسے دینے سے انکار کرتی تو اس کے خلاف توہین عدالت کی کارروائی ہو سکتی تھی۔ آئین توڑنے کی کارروائی بھی ہو سکتی تھی۔ لیکن جب قومی اسمبلی نے انتخابات کے لیے پیسے دینے کا فنانس بل مسترد کر دیا تو پھر قومی اسمبلی کے خلاف توہین عدالت کی کارروائی ہو سکتی تھی اور نہ ہی قومی اسمبلی کے خلاف آئین توڑنے کی کارروائی ہو سکتی تھی۔
اس لیے آئین ہی آئین سے لڑ گیا، ایک ڈیڈ لاک ہوگیا اور سپریم کورٹ بے بس نظر آیا۔ لوگ کہتے ہیں کہ پھرقومی اسمبلی کے ڈپٹی اسپیکر قاسم سوری کی رولنگ کو عدالت نے کیسے مسترد کر دیا، عدالت اگر قاسم سوری کی رولنگ کو مسترد کر سکتی ہے تو پھر پیسے نہ دینے کی قومی اسمبلی کی رولنگ کو بھی مسترد کر سکتی تھی۔
لیکن دوست یہ نہیں سمجھتے کہ کہ قاسم سوری کی رولنگ کے پیچھے قومی اسمبلی کی اکثریتی طاقت نہیں تھی۔ وہ رولنگ قومی اسمبلی میں اکثریتی ووٹنگ کے ساتھ نہیں تھی۔
جب کہ پنجاب کے صوبائی الیکشن روکنے کے لیے قومی اسمبلی کی اکثریت نے ووٹ دیا، یہ کسی اسپیکر کی اپنی رولنگ نہیں تھی۔ آپ کہہ سکتے ہیں کہ قومی اسمبلی نے غیر آئینی کام کیا۔ لیکن آئین میں یہ حیثیت بھی صرف قومی اسمبلی کو ہی حاصل ہے کہ وہ غیر آئینی کام کرے تو روکنے کا طریقہ نہیں۔ سپریم کورٹ اپنے حکم سے پیسے نہیں دے سکتی تھی۔ قومی اسمبلی کی منظوری ضروری تھی۔آئین اور عدالت دونوں بے بس تھے۔
اس لیے سب بے بس ہو گئے۔ چیف جسٹس عمر عطا بندیا ل بھی بے بس ہو گئے۔ شہباز شریف نے دوبارہ اعتماد کا ووٹ لے کر تمام قانونی اور آئینی تقاضے پورے کر دیے۔ کیونکہ اگر حکومت کا فنانس بل مسترد ہو جائے تو یہ مانا جاتا ہے کہ وزیر اعظم کی اکثریت ختم ہو گئی ہے۔ اس لیے شہباز شریف نے دوبارہ اعتماد کا ووٹ بھی لیا۔ ہم نے آئین کی آئین سے لڑائی دیکھی ہے۔
اس لیے اس وقت ایسی کوئی آئینی صورتحال نہیں کہ آئین کے تحت ہی الیکشن روکے جا سکیں۔ آئین کے آئین سے دوبارہ تصادم کا کوئی منظر نامہ سامنے نہیں ہے۔ سینیٹ کی قراداد کی آئین میں کوئی حیثیت نہیں۔ کسی سرکاری ملازم یا عہدیدار کے استعفیٰ دینے سے آئینی عمل نہیں روک سکتا، ایک ملازم جاتا ہے تو دوسرے کو ذمے داری دے دی جاتی ہے۔
مولانا فضل الرحمنٰ کے مطالبے کی آئین میں کوئی حیثیت نہیں، ان کا مطالبہ محض ایک بیان ہے، اس کے پیچھے آئین یا قانون کی طاقت نہیں ہے، سینیٹ بھی الیکشن روکنے کا اختیار رکھتا نہ پیسے روکنے کا، عام انتخابات روکنے یا ملتوی کرنے کے حوالے کوئی بھی اختیار نہیں رکھتا، با ت سمجھیں۔ الیکشن کا بگل بج گیا۔
اب کوئی غیر آئینی قدم ہی الیکشن روک سکتا ہے۔ جو غیر آئینی قدم اٹھانے کی طاقت وصلاحیت رکھتے ہیں، وہ نگرانوں کے لیے تو یہ انتہائی قدم نہیں اٹھائیں گے، پھر وہ خود ہی آجائیں گے، ان کے خود آئے بغیر انتخاب رکنا ممکن نظر نہیں آرہا۔ باقی مجھے یہ بھی لگتا ہے کہ پولنگ سے ایک دن پہلے بھی انتخاب ملتوی ہونے کی خبریں چل رہی ہوںگے اور ہم سب ایک دوسرے سے پوچھ رہے ہوںگے کہ کیا کل الیکشن کے پولنگ ہوگی ۔