معاشرہ انفرادی اور اجتماعی رویوں سے تشکیل پاتا ہے، مثبت رویے اور سوچ ہی اچھی، بہترین اور مثالی زندگی کے ضامن ہوتے ہیں۔ منفی سوچ اندھیرے کی مانند معاشرے کی ترقی کی راہیں محدود و مسدود کردیتی ہے۔ جبکہ مثبت سوچ روشنی کے دیئے جلا کر کامیابی کے سفر کو آسان بنا دیتی ہے۔
مثبت سوچ مثبت زندگی کی ترجمان ہوتی ہے، یہ ہم میں آگے بڑھنے کا حوصلہ اور ہمت پیدا کرتی ہے۔ دکھ، تکلیفیں، رنج و الم کس کی زندگی میں نہیں ہوتے لیکن ان سب کیفیات میں کیسے اور کس طرح کے ردعمل کا اظہار کرنا ہے یہ ہمارا مثبت رویہ ہی ہمیں سکھاتا ہے۔
کامیابی اور مثبت سوچ کا گہرا تعلق ہے، جب بھی ہم اچھا سوچتے ہیں، ہمارا ذہن اسے قبول کرنے لگتا ہے۔ موڈ اچھا اور خوشگوار ہو تو ہم کسی بھی کام یا ذمے داری کو خوشدلی سے نبھانے کےلیے ہر ممکن کوشش یا جتن کرتے ہیں اور جب کوئی کام ہمت اور حوصلے کے ساتھ مثبت انداز میں کیا جائے تو کامیابی کا امکان بڑھ جاتا ہے، کیونکہ ہمارا ذہن ہماری جیت کو پہلے ہی قبول کرچکا ہوتا ہے اور اس جیت کے حصول کےلیے ہر ممکن اقدامات کرتا ہے۔ اس کی مثال ایک گھریلو خاتون کی لے لیجئے کہ وہ پوری ذمے داری سے گھر کا کام سرانجام دیتی ہے، حتیٰ کہ کھانا پکاتے وقت بھی مثبت سوچ اور خیالات کھانا بنانے کے عمل پر بھی اثر انداز ہوتے ہیں۔ بددلی سے پکائی گئی ہنڈیا کا بدذائقہ ہونا بھی کسی سے پوشیدہ نہیں۔ اسی طرح سے بچے جب امتحانات کےلیے دل لگا کر پڑھائی کرتے ہیں تو رزلٹ میں بھی وہ چیز دکھائی دیتی ہے۔
مثبت سوچ کی تابانی فرد واحد کو ہی ترقی کی راہ پر گامزن نہیں کرتی بلکہ پورے معاشرے کو ترقی یافتہ بنا دیتی ہے۔ جب کسی بھی قوم میں مثبت رویے پرورش پاتے ہیں تو پھر اس قوم کو دنیا کی کوئی طاقت کامیابی حاصل کرنے سے روک نہیں سکتی۔
کسی قوم کی حالت تب تک نہیں بدلتی جب تک کہ وہ خود کوشش اور محنت نہ کرے۔ محنت، کوشش اور مستقل مزاجی کا چولی دامن کا ساتھ ہے، گویا یہ لازم و ملزوم ہیں۔ محنت، کوشش اور مستقل مزاجی ہمیشہ مثبت سوچ رکھنے والے افراد کا خاصہ ہوتی ہے، جن میں آگے بڑھنے کی لگن ہوتی ہے تو انھیں راستے میں آنے والے تمام تر مصائب معمولی دکھائی دیتے ہیں۔ وہ یہ یقین رکھتے ہیں کہ روشنی کی ایک ہلکی سی لکیر بھی گھٹا ٹوپ اندھیرے کو مٹانے کےلیے کافی ہے۔
جبکہ ایک ناامید شخص، جو یقیناً منفی سوچ کا حامل ہوتا ہے، اس کےلیے ذرا سی مصیبت ایک پہاڑ کی مانند ہوتی ہے۔ کیونکہ اس کی سوچ ہمیشہ سے ہی محدود ہوتی ہے۔ وہ کنویں کے مینڈک کی طرح ڈرپوک، سست اور کاہل بن جاتا ہے۔ گویا وہ بند گلی کا مسافر ہوتا ہے جو اپنی ناکامیوں اور غلطیوں کو سدھارنے کے بجائے اپنی ہٹ دھرمی اور ضد پر ہی ڈٹا رہتا ہے۔ نہ صرف وہ خود منفی رویوں کو جنم دیتا ہے بلکہ دیگر لوگوں کی سوچ بھی منفی بنا دیتا ہے۔
منفی سوچ رکھنے والے افراد ہمیشہ حالات کی ستم ظریفی، بری قسمت اور ناکامی کا ہی رونا روتے رہتے ہیں۔ مجال ہے جو کبھی شکر گزاری اور رحم دلی کے جذبات ان کے چہرے اور رویوں سے عیاں ہوں، ہر وقت مردم بیزار اور منہ بسورے ہی رہتے ہیں۔
ایسے افراد بہت بڑے نقاد ہوتے ہیں، وہ ہمیشہ نکتہ چینی کرتے اور لوگوں کو آگے بڑھنے سے روکتے ہیں۔ کوئی بھی شخص اچھا کام کرلیتا ہے تو بجائے یہ کہ وہ اس کی حوصلہ افزائی کریں، یہ لوگ تنقید برائے تنقید کا سہارا لیتے ہیں۔ یہ لوگوں کی زندگیوں کو مایوسی سے بھر دیتے ہیں۔
اگرچہ مثبت سوچ کا مطلب ہر مرتبہ جیتنا نہیں ہوتا، بلکہ تمام تر بشری کمزوریوں کو مدنظر رکھنا بھی ہوتا ہے کہ اگر کبھی کہیں اونچ نیچ ہوگئی، شکست ہوگئی یا توقع کے برخلاف نتائج سامنے آگئے تو اسپورٹس مین اسپرٹ پیدا کی جائے اور ناکامی کو کھلے دل سے قبول کیا جائے۔ مثبت سوچ اپنے آپ سے محبت کرنا سکھاتی ہے اور اپنے آپ سے محبت کرنے والا انسان مخلوق خدا سے بھی محبت کرتا اور دلی طور پر مطمئن بھی ہوتا ہے۔
مثبت سوچ رکھنے والے افراد خوش رہتے ہیں۔ وہ ہمیشہ اللہ تعالیٰ کی عطا کردہ نعمتوں کےلیے شکر گزار ہوتے ہیں۔ خدا پر کامل ایمان، خودشناسی اور اپنی صلاحیتوں پر پورا بھروسہ نہ صرف انھیں خوداعتماد بناتا ہے بلکہ دوسروں کےلیے بھی ایک قابل تقلید مثال بنا دیتا ہے۔ دنیا کو آج ایسے ہی پُرامید لوگوں کی ضرورت ہے۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 800 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔