درست تاریخ کیوں پڑھائی جائے آخری حصہ
ہم کسی بھی مرحلے پر انگریز کی ذہانت اور ذکاوت کے مقابل نہ آسکے
ہمارا المیہ ہے کہ ہمیں اپنی قدیم اور جدید تاریخ میں صرف بادشاہوں اور حکمرانوں کی شان و شوکت اور جاہ وجلال کے سوا کچھ نظر نہیں آتا۔
میں نے برصغیر کی تاریخ کا موازنہ اسی دور کے یورپ کی تاریخ سے کرنے کی کوشش کی ہے تاکہ یہ معلوم ہوسکے کہ ہمیں کتنی نادرست اور نامکمل تاریخ پڑھائی اور بتائی گئی ہے۔ اب سے 400 سال پہلے کا ایک واقعہ ملاحظہ فرمائیے۔
1600 میں ایک انگریز انجینئر اور جہاز راں ولیم ایڈمز ٹوکیو (پرانا نام یدو) پہنچتا ہے۔ اس وقت کے شہنشاہ جاپان کے دربار میں صنعت جہاز سازی کا مشیر ونگراں مقرر ہوتا ہے اور جاپانیوں کے لیے ترقی کے راہیں کھولتا ہے۔
ایجادات کی رفتار تیز ہوجاتی ہے اور 1600 میںہی ایک طرف پرتگیزی ٹیلی اسکوپ ایجاد کرتے ہیں اور دوسری طرف جرمن میجک لینٹرن۔ غرض زندگی کے ہر شعبے میں سارا یورپ ایک ہما ہمی، ایک سرشاری اور مہم جوئی میںمبتلا ہے۔
اب اگر ہم اسی زمانے میں اپنی تاریخ کی ورق گردانی کریں تو شہنشاہ اکبر برصغیر سے باہر اپنی نوآبادیات قائم کرنے کی فکر میںمبتلا ہونے کے بجائے اپنے نافرمان ولی عہد شہزادہ سلیم سے لڑائیاں لڑتا ہوا نظر آتا ہے۔ ادھر جرمنی اور مغرب کے دوسرے ملکوں میں روزنامے اشاعت پذیر ہورہے ہیں۔ عوامی شعور کوبے دار کیا جارہا ہے۔
سائنس اور کلیسا کے درمیان ہونے والی لڑائی میں سائنس کا ساتھ دے رہے ہیں۔ یورپ میں دانشوروں اور سائنسدانوں کی سرپرستی ہورہی ہے اور ہمارے یہاں 1601میں شہنشاہ اکبر کا اکلوتا بیٹا اور چہیتا ولی عہد اپنے زمانے کے سب سے بڑے عالم اور دانشور شیخ الوالفضل کو قتل کرتا ہے۔ باپ کی ناراضگی مول لیتا ہے اور پھر اپنی ''توزک'' میں اس قتل پر فخر کا اظہار بھی کرتا ہے۔
اکبر کے بعد جہانگیر کا دور آتا ہے۔ ہم عدل جہانگیری کی مثالیں دے کر خود کو اعلیٰ و برتر ثابت کرتے ہیں۔1610 میں برصغیر کا شہنشاہ جہانگیر نیل گائے اور شیر کے شکار میں مصروف تھا اور عین اسی وقت ہندوستان کی سرزمین پر قدم جمانے کے لیے اور تجارتی کوٹھیاں قائم کرنے کے لیے انگریزوں اور پرتگیزی فوجوں اور بحریہ میںلڑائیاں ہورہی تھیں اور مغل شہنشاہ کو اس کی پرواہ نہ تھی کہ اس کی مملکت میں دوسری قوموں کے فوجی کیا کررہے ہیں اور ایک دوسرے سے دست و گریباں کیوں کر ہیں۔
1611 جب شہنشاہ جہانگیر اپنی توزک میں ایک دن میں 330 مچھلیوں کے شکار کا اندراج کررہا تھا اور ایک سائیس اور دو کہاروں کے سامنے آجانے پر نیل گائے کے بھڑک کر بھاگ جانے کی سزا میں سائیس کو قتل کروا رہا تھا اور دونوں کہاروں کے پیر کٹوا کر انھیں نشان عبرت کے طور پر گاؤں گاؤں پھروا رہا تھا، عین اسی برس انگلستان میں پارلیمنٹ اور شاہ جیمز اول کے درمیان اقتدار کی رسہ کشی ہورہی تھی۔
ہمیں یورپ اور مغرب کی لاتعداد خرابیاں نظر آتی ہیں لیکن ہم یہ نہیں دیکھتے کہ برصغیر کے حکمران اور امراء اپنی دولت شان و شوکت کے مظاہروں اور قصیدہ خواں شعراء پر لٹا رہے تھے جب کہ یورپ کے امراء سائنسدانوں اور عالموں کی سرپرستی کررہے تھے۔
اس سرپرستی کے ثمرات کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ اس زمانے میں انگلستان میں ایجادات اس تیزی سے شروع ہوئیں کہ 1623میں انگلستان میں ''پیٹنٹ'' کے قوانین کا اجراء ہوا اور سرکاری طور پر موجدوں کے حقوق کا تحفظ کیا جانے لگا۔
ہمارے مبلغین آج بھی فروعی معاملات پر بحث میں مصروف رہتے ہیں، لیکن عیسائی مبلغین میں ایک مبلغ انٹونیوڈی آندرادے آگرہ میں اپنے ''مشن'' کی عمارت سے نکل کر ہمالیہ اور تبت کی کوہ پیمائی اور اس علاقے کے بارے میں جغرافیائی اور موسمیاتی معلومات اکٹھا کرنے کے لیے روانہ ہوچکا تھا۔
تاریخ کا سفر طے کرتے ہوئے ہم 1600 سے 1857 تک جا پہنچتے ہیں۔ ہمارے سامنے واقعات و معاملات کا ایک ہجوم ہے اور جب ہم ان معاملات کا موازنہ اس زمانے کے برصغیر سے کرتے ہیں تو ہمیں صاف نظر آتا ہے کہ ہمارے صناع، کاریگر، معمار، نجار اور ہنر کار انگلستان کے ہنر وروں سے کم نہ تھے۔
لیکن مسئلہ ان کی سرپرستی اور درست سمت میں ان کی رہنمائی کا تھا۔ ہمارے معمار ایک شہنشاہ کے اشارہ ابرو پر سترہویں صدی میں تاج محل ایسا شاہکار اس کی ذاتی تسکین کے لیے تعمیر کررہے تھے اور مغرب کی معمار تیرہویں اور چودھویں صدی میں آکسفورڈ اور کیمبرج یونیورسٹیوں سے الحاق شدہ بیشتر ان کالجوں کی تعمیر مکمل کرچکے تھے جن میں داخلے ملنے کے خواب ہمارا ہر ذہین نوجوان آج بھی دیکھتا ہے۔ گویا مسئلہ ترجیحات کا تھا۔
ہمارے شہنشاہ اپنے مقبرے یا محلات تعمیر کراتے تھے ان کے بادشاہ محلات کے ساتھ تعلیمی ادارے، سائنسی تجربہ گاہیں اور کتب خانوں کی تعمیر پر بھی توجہ دیتے تھے۔ ہندوستان میں بڑے اور قابل جرنیلوں کی کمی نہ تھی، لیکن ان قابل اور جری جرنیلوں کی کمان میں لڑنے والی فوج غیر پیشہ ور اور غیر منظم افراد پر مشتمل ہوتی تھی جو تعداد میں زیادہ ہونے کے باوجود برطانوی جرنیلوں کی کمان میں لڑنے والی منظم اور تربیت یافتہ دیسی فوج سے شکست کھا جاتی تھی۔
انگریزوں نے برصغیر کی سرزمین پر قدم رکھنے سے لے کر 1857 میں لال قلعے پر اپنا پرچم لہرانے تک ہر آن ہمیں اس بات کا احساس دلایا کہ ان کی بحری بالادستی نے برصغیر میں انھیں اپنی گرفت مضبوط کرنے میں بے پناہ معاونت کی اور یہ بھی کہ آلات حرب اور دفاعی سائنس میں ان کا اور ہمارا کوئی مقابلہ نہ تھا۔
ان کے فوجی اور سول افسران قواعدو ضوابط کے مکمل طور پر پابند ہوتے اور یہی ڈسپلن وہ اپنی دیسی فوج کو بھی تعلیم کرتے تھے۔ یہی وجہ تھی کہ 1757، 1764 اور 1857میں جب بھی برصغیر کے مفادات کا تحفظ کرنے والی غیر منظم فوج کرائے کے منظم اور تربیت یافتہ دیسی فوجیوں کے سامنے آئی تو ٹھہر نہ سکی۔
کیا ہم نے اپنے اسکولوں اور کالجوں میں پڑھائی جانے والی تاریخ میں طلبہ کو کبھی یہ بتایا ہے کہ 18 ویں اور 19ویں صدی میں انگلستان جس صنعتی انقلاب سے دوچار ہوااور وہاں علم و دانش اور سائنس کا جو ابھار ہوا۔ اس کے سبب اس کے جرنیلوں کی مہمات، اس کے سائنسدانوں کی فتوحات کے سامنے گرد ہوئیں۔
نوبیل جس کا اجراء 1901 میں ہوا اسے حاصل کرنے والے 10سائنس دان اور 9 ادیب 1857 سے کئی برس پہلے پیدا ہوچکے تھے۔ اس سے قطع نظر1857 کے آس پاس کے سائنسدانوں کی ایک فوج ظفر موج تھی جو تاج برطانیہ اور انگریز امراء کی سرپرستی میں انگلستان کے لیے ہرگھنٹہ گھڑی کوئی نیا کارنامہ انجام دے رہی تھی۔
ہمیں درست طور پر اپنے شہیدوں کے لیے گریہ ناک ہونے کے باوجود سمجھ میں آتا ہے کہ 1857 میں جو کچھ بھی ہوا، اسے ہونا ہی چاہیے تھا۔
ہم کسی بھی مرحلے پر انگریز کی ذہانت اور ذکاوت کے مقابل نہ آسکے۔ نہ ہمارے اندر قوم پرستی کا وہ شدید جذبہ تھا جو انگریز کے سینے میں موجزن تھا۔ قوم پرستی کے جذبے کے فقدان کی بنیادی وجہ یہ تھی کہ عوام سیاسی شعور سے بے بہرہ تھے اور جب کسی ملک کے باشندوں میں سیاسی شعور نہ ہو تو ان سے منظم انداز میں کسی انقلاب کے برپا کرنے کی توقع عبث ہے۔
پچھلی دو صدیوں میں جو کچھ ہوا اس کے تناظر میں جب ہم اپنی موجودہ تاریخ پر نظر ڈالتے ہیں تو طبیعت کچھ اور بوجھل ہوجاتی ہے۔ صاف نظر آتا ہے کہ ہم نے نو آبادیاتی تسلط کی تاریخ سے کچھ نہیں سیکھا۔ ہماری آپس کی رنجشیں، چشمکیں، خواص میں سیاسی شعور اور قوم پرستی کا فقدان ہمیں ایک بار پھر اغیار کا دست نگر بنا رہا ہے۔
پہلے وہ ہمارے قلعوں پر اپنے پرچم لہراتے تھے، اب ہماری معیشت اور اقتصادیات کی شہ رگ میں ان کے دانت اترے ہوئے ہیں۔ پہلے ہمارے کسان انھیں لگان ادا کرتے تھے، اب ہمارے نوجوان انھیں اپنی ذہانتوں کا خراج ادا کررہے ہیں۔
آج جب دنیا 21 ویں صدی میں انتہائی تیز رفتار ترقی کی جانب گامزن ہے تو جو ملک بہت پیچھے تھے وہ آج ہم سے بہت آگے نکل چکے ہیں۔ جن ملکوں نے پائیدار ترقی کی ہے، سائنس اور ٹیکنالوجی کے میدان میں آگے بڑھے ہیں انھوں نے درست تاریخ پر مبنی اور جدید دور کے تقاضوں سے ہم آہنگ تعلیمی نظام وضع کیا ہے۔
ہمارا مسئلہ یہ ہے کہ غلط، نا درست اور یک طرفہ تاریخ کے ذریعے ہم نے سیاسی، نظریاتی، معاشرتی اور معاشی نظام عوام پر مسلط کیا ہے۔ درست تاریخ پڑھانے اور تاریخ کے درست اور تلخ حقائق سامنے لانے سے یہ نظام منہدم نہیں ہوجائے گا۔ دیکھنا ہے کہ کیا ہم ایسا کرنے پر تیار ہیں یا نہیں؟