کوئی تو مظلوم فلسطینیوں کا چارہ گر بنے
سردی اور پینے کے پانی کی کمی سے بیماریوں اور اموات میں اضافے کا خدشہ پیدا ہوگیا ہے
غزہ میں اسرائیلی دہشت گردی کے نتیجے میں مزید 126 فلسطینی شہید اور241 زخمی ہوگئے، اسرائیل کے زیر محاصرہ غزہ میں سات اکتوبر سے جاری حملوں میں شہادتوں کی مجموعی تعداد 23210 سے زیادہ ہوگئی، 59167 زخمی ہوچکے ہیں۔
دوسری جانب ''دی ہیگ'' میں قائم عالمی عدالت انصاف فلسطینیوں کی نسل کشی پر مقدمے کی سماعت بھی ہورہی ہے، سیو دی چلڈرن نامی تنظیم نے انکشاف کیا ہے کہ غزہ کی پٹی میں تین ماہ سے جاری اسرائیلی دہشت گردی کے نتیجے میں روزانہ دس بچے اپنی ٹانگوں سے محروم ہو رہے ہیں۔
غزہ کی پٹی میں اسرائیلی فوج کی کارروائی کا سلسلہ جاری ہے ، فلسطینیوں کو خون میں نہلا یا جار ہے۔ 90 فی صد فلسطینی بے گھر اور کھلے آسمان تلے زندگی بسر کرنے پر مجبور ہیں۔ غزہ میں انسانی المیہ رونما ہوچکا ہے۔
اسرائیلی حکومت جنگ بند کرنے میں سنجیدہ نہیں ہے، وہ فلسطین کے مظلوم اور نہتے عوام سے ان کا اپنا علاقہ ہی چھین لینا چاہتی ہے ۔ امریکا اور یورپی حکومتیں مشرق وسطیٰ میں گریٹر اسرائیل بنانا چاہتی ہیں، وہ اپنی اس حکمت عملی پر برسوں سے مرحلہ وار عمل کررہے ہیں۔
ان مقاصد کے حصول کے لیے امریکا اور مغربی ممالک اسرائیل کی عملی مدد اور اعانت کرتے ہیں۔ اسے جدید اسلحہ با آسانی دستیاب ہے جس کا وہ فلسطینیوں پر آزادانہ استعمال بھی کرتا رہتا ہے۔ اسرائیلی کی تین ماہ سے جاری وحشیانہ بربریت کا شکار فلسطین میں جہاں قحط نے ڈیرے ڈال لیے وہیں بیماریاں بھی پھوٹ پڑی ہیں۔
غیر ملکی میڈیا کے مطابق جنگ زدہ غزہ میں بین الاقوامی امداد کی مکمل رسائی نہ ہونے کی وجہ سے وہاں غذا کی شدید قلت پیدا اور قحط کی خوفناک صورتحال پیدا ہوگئی ہے۔ کئی ماہ سے بھوک کا شکار فلسطینیوں کو بیماریوں نے جکڑنا شروع کر دیا ہے۔
اسہال ،چکن پاکس، یرقان اور گردن توڑ بخار سمیت مختلف بیماریوں نے فلسطینیوں کی زندگی اجیرن کر دی ہے۔50 ہزار سے زائد حاملہ خواتین خوراک کی کمی کا شکار ہیں، 8 لاکھ بچے کھانا نہ ملنے سے کمزوری اور بیماریوں کا شکار ہونے لگے، پناہ گزین کیمپوں میں ڈائریا، ملیریا اور خسرہ پھیلنے لگا ہے۔
سردی اور پینے کے پانی کی کمی سے بیماریوں اور اموات میں اضافے کا خدشہ پیدا ہوگیا ہے۔ ڈیفنس فار چلڈرن انٹرنیشنل نے کہا کہ غزہ میں ہزاروں افراد لاپتہ ہیں۔ خوراک، پانی، بجلی، طبی سامان کی فراہمی منقطع ہے۔ غزہ کی پٹی کے رہائشیوں کے لیے ایندھن تک نہیں۔
فلسطینی بچوں کا بے دریغ قتل عام کیا جارہا ہے۔ فلسطینی بچے ایسے حالات میں شہید ہوئے جنھیں ماورائے عدالت قتل قرار دیا جائے گا۔ گزشتہ سال مغربی کنارے میں سو سے زائد فلسطینی بچوں کی شہادت ہوئی تھی۔ تنظیم نے کہا کہ اسرائیلی سیکیورٹی حکام نے 102 فلسطینی بچوں کو گولی مار کر شہید کیا، شمالی مغربی کنارے میں فضائی حملوں میں 19 فلسطینی بچے شہید ہوئے۔
اسرائیلی فوج نے پیرامیڈیکس اور ایمبولینسوں کو زخمی فلسطینیوں بشمول بچوں کو امداد فراہم کرنے سے روکا جو ان کے سوچے سمجھے قتل کی واضح مثال ہے۔
انسانی حقوق کی تنظیم نے وضاحت کی کہ 2023 کے دوران اسرائیلی فوج نے فلسطینی بچوں کو فوجی حراستی مراکز میں رکھا ، ان پر تشدد اور ان پر مقدمہ چلانے کا سلسلہ جاری رکھا۔ اس نے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ پچھلے سال کے دوران ماہانہ گرفتار ہونے والے بچوں کی اوسط تعداد 165 تک پہنچ گئی ہے۔
اس میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ اسرائیل سالانہ 500 سے 700 کے درمیان کم عمر فلسطینی بچوں کو گرفتار کر کے فوجی عدالتوں میں مقدمہ چلاتا ہے۔
کس قدر دل کو دہلا دینے والے اور کربناک وہ مناظر ہوتے ہیں جب معصوم فلسطینی بچے ہاتھوں میں پتھر لیے اسرائیلی ٹینکوں اور بکتر بند گاڑیوں پر پھینکتے ہیں، یہ جانتے ہوئے بھی کہ یہ پتھر ان ٹینکوں اور بکتر بند گاڑیوں کا کچھ نہیں بگاڑ سکیں گے اور وہ ہمہ وقت اِن گنوں، توپوں اور ٹینکوں کی زد میں ہیں، مگر پھر بھی ان کے جذبہ استقلال اور جذبہ حریت میں فرق نہیں پڑتا۔ وہ اپنے گھروں میں باعزت زندگی گزارنا چاہتے ہیں۔
غزہ اور دیگر فلسطینی علاقوں کی اسرائیل نے اس طرح ناکہ بندی کر رکھی ہے کہ عملی طور یہ لوگ ایک بڑی جیل میں زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔ اس غزہ کی پٹی میں رہنے والے فلسطینیوں کا رابطہ بیرونی دنیا سے منقطع ہے۔ وہ سرنگیں نکال کر ہمسایہ ملک مصر تک رسائی حاصل کرتے ہیں اور بڑی مشکل سے خوراک اور میڈیسن حاصل کر پاتے ہیں۔
پوری دنیا یہ المناک تماشہ دیکھ رہی ہے مگر خاموش ہے۔ امریکا اور اس کے اتحادی براہ راست اس بھیانک کھیل کا حصہ ہیں۔
انسانی حقوق کی پاسداری کا راگ الاپنے والے ملک اور بین الاقوامی تنظیمیں بے بس اور مجبور نظر آتی ہیں۔ اسلامی ملک زیادہ تر دبے ہوئے، سہمے ہوئے اور خاموش بیٹھے ہیں۔ مسلم امہ میں کوئی دم خم نہیں کہ وہ اسرائیلی بربریت اور سفاکیت کو قوت سے روکے، وہ تو زیادہ تر صرف زبانی جمع خرچ پر اکتفا کر رہے ہیں۔
غزہ کے رہنے والے فلسطینی شہریوں کا زندگی کی بنیادی سہولتوں کے لیے بھی انحصار اسرائیل پر ہے کیونکہ غزہ کی بیشتر سرحد بھی اسرائیل کے ساتھ ہی ملتی ہے۔
غزہ کو کافی حد تک حماس کنٹرول کرتی ہے جس کی وجہ سے اسرائیل کی جانب سے تواتر کے ساتھ غزہ پر فضائی اور راکٹ حملے دیکھنے کو ملتے رہتے ہیں۔
گزشتہ کئی سالوں سے اسرائیل مختلف بہانوں سے غزہ کے شہریوں کو نشانہ بناتا چلا آ رہا ہے جس کے نتیجے میں ہزاروں بے گناہ شہری جان سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں جب کہ پہلے سے خستہ حال انفرا اسٹرکچر کو بھی شدید نقصان پہنچا ہے۔ غربت کے مارے نہتے فلسطینی عوام اسرائیل کے روزمرہ کے مظالم سے تنگ آ چکے ہیں اور ان کے لیے زندگی ایک ڈراؤنا خواب بن چکی ہے۔
اسرائیل جو ظلم اور بربریت نہتے اور مظلوم فلسطینیوں پر جن میں زیادہ تعداد بچوں اور عورتوں کی ہے پر ڈھا رہا ہے وہ دلوں کو چھلنی کر رہا ہے۔ اسرائیل اس وقت ننگی جارحیت پر ہے۔ غزہ اور قریبی علاقوں کے مسلمان بے یار و مددگار ہیں۔
اوپر سے کارپٹ بمباری ہو رہی ہے۔ فاسفورس کا استعمال کر کے انسانوں اور عمارتوں کو زندہ جلایا جا رہا ہے۔ ارضِ فلسطین لہو لہو ہے۔ مسلمان ممالک میں کوئی دم خم نہیں کہ اسرائیلی جارحیت کا ہاتھ روکے۔ لیکن اگر یہ آگ نہ روکی گئی تو یہ جنگ پھیلے گی اور یہ بہت سے مسلمان ممالک کو اپنی لپیٹ میں لے لے گی۔
یہ جارحیت کا ہاتھ روکے، لیکن اگر یہ آگ نہ روکی گئی تو یہ جنگ پھیلے گی اور یہ بہت سے مسلمان ممالک کو اپنی لپیٹ میں لے لے گی۔ اس میں فلسطینیوں کا بھاری جانی و مالی نقصان تو نوشتہ دیوار ہے ہی، مگر اسرائیل کو بھی اس کی قیمت چکانی ہوگی۔
مسلمان خصوصاً عرب ممالک کے اندر سے آوازیں اُٹھیں گی، ایک لہر اٹھے گی جو بہت کچھ بہا کر لے جائے گی۔ وہی بچے گا جو اس وقت تاریخ کی صحیح اور درست سمت میں کھڑا ہوگا۔ یہ مظلومیت اور سسکتی ہوئی انسانیت کو بچانے کا وقت ہے۔
یہ عمل اور تحرک کا وقت ہے۔ یہ اپنے ان مظلوم بھائیوں کے ساتھ کھڑا ہونے کا وقت ہے جن کے پاس نہ کھانے کو نہ پینے کو کچھ ہے۔ وہ سرنگوں میں گھسے بیٹھے ہیں اور اوپر سے بم برس رہے ہیں۔ ستاون اسلامی ملکوں میں سے کوئی تو ہو جو ان مظلوموں کا چارہ گر بنے، جو ان کی امیدوں کا محور ہو، جو ان کے ساتھ کھڑا ہو، کوئی تو ہو۔