بلوچستان کے مسئلے کا حل

ایوب خان کی حکومت نے اقتدار میں آتے ہی مشرقی پاکستان کی حقیقی قیادت کو جیلوں میں بند کر دیا تھا


Dr Tauseef Ahmed Khan January 11, 2024
[email protected]

ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ کی قیادت میں بلوچ یکجہتی کمیٹی کی جدوجہد تیسرے مہینے میں داخل ہوگئی ، اسلام آباد کی سرد ہوائیں، وفاقی پولیس کی کارروائی، دھمکیوں اور سوشل میڈیا پر گمراہ کن پروپیگنڈہ کے باوجود اس دھرنے میں شریک عورتوں، بچوں، جوانوں اور بوڑھوں کے حوصلے بلند ہیں۔ اس تحریک نے بلوچستان کے علاوہ پورے ملک میں لاپتہ افراد کے لواحقین کے ساتھ ہمدردی کی لہر کو مزید مستحکم کردیا۔

اسلام آباد کی خواتین، انسانی حقوق کے کارکن، وکلاء اور صحافی وغیرہ کبھی سردی سے بچاؤ کے سامان کے ساتھ کبھی گرم گرم سوپ، چائے اور ابلے ہوئے انڈے لے کر ان مظاہرین کے ساتھ یکجہتی کے لیے نیشنل پریس کلب اسلام آباد کے سامنے دھرنے میں آتے ہیں۔ نگران وزیراعظم انوار الحق کاکڑ کے لاپتہ افراد کے مسئلے سے ہمدردی رکھنے والے افراد کے بارے میں منفی ریمارکس کے باوجود اسلام آباد کی سول سوسائٹی کے اراکین کے عزائم میں فرق نہیں آیا۔

یہ خبریں بھی آئیں کہ بلوچ یکجہتی کمیٹی کے کارکنوں کا جتنا پرجوش استقبال بلوچستان کے مختلف شہروں میں ہوا تھا اس سے زیادہ پرجوش استقبال ڈیرہ غازی خان اور تونسہ شریف میں ہوا۔ ان علاقوں میں ہزاروں افراد نے سڑکوں پر نکل کر ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ اور ان کے ساتھیوں کا استقبال کیا تھا۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ پنجاب کے عام آدمی کو اپنے پیاروں کی تلاش کے لیے جدوجہد کرنے والے کارکنوں سے ہمدردی پیدا ہوگئی ہے، اس کا اظہار دھرنا کے شرکاء سے مختلف حوالوں سے ہمدردی کے اظہار سے ہوتا ہے۔

بلوچ یکجہتی کمیٹی کی جدوجہد سے تو خاص طور پر بلوچستان اور عمومی طور پر ملک کے باقی علاقوں میں ہمدردی میں شدت آتی جارہی ہے۔

بلوچ یکجہتی کمیٹی نے گزشتہ بدھ کو 10 نکاتی مطالبات سے یکجہتی کے لیے پورے ملک میں شٹر ڈاؤن ہڑتال کی اپیل کی تھی۔

اس اپیل پر سب سے زیادہ مثبت ردعمل بلوچستان میں نظر آیا۔ بلوچستان کے مختلف شہروں میں جن میں کوئٹہ شہر کے مضافاتی علاقے مکران ڈویژن، حب ، لسبیلہ، آوران، خضدار اور کراچی کے بعض علاقوں میں شٹر ڈاؤن ہڑتال رہی۔ پہلی دفعہ عدلیہ نے لاپتہ افراد کے مسئلے پر ایک واضح مؤقف اختیار کیا گیا۔ اسلام آباد ہائی کورٹ، لاہور ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ کے حالیہ فیصلوں سے حوصلے بلند ہوئے۔

ایک طرف تو لاپتہ افراد کا معاملہ قومی ایشو بن گیا تو دوسری طرف نام نہاد قومی جماعتوں نے لاپتہ افراد کی صورتحال کو جس طرح نظرانداز کیا اس سے وفاق کے استحکام کی جدوجہد کو ٹھیس پہنچی۔ سابق سینیٹر فرحت اﷲ بابر اور جماعت اسلامی کے سینیٹر پروفیسر مشتاق نے ان طالب علموں کے ساتھ انتہائی عمدگی کے ساتھ یکجہتی کا اظہار کیا۔

اسلام آباد کی سول سوسائٹی اور وکلاء کے دباؤ پر پولیس کو پہلے خواتین کو پھر تمام مردوں کو رہا کرنا پڑا اور اب تو اسلام آباد ہائی کورٹ نے اسلام آباد پولیس کو پابند کردیا ہے کہ اس دھرنا دینے والے افراد کو بنیادی سہولتیں فراہم کریں۔

بڑی قومی جماعتوں پیپلز پارٹی، مسلم لیگ اور تحریک انصاف نے اس اہم معاملے کو جس طرح نظرانداز کیا، اس سے ثابت ہوا کہ ان جماعتوں کی قیادت بلوچستان کو اہمیت نہیں دیتی، یوں ان جماعتوں کے ترقی اور سیاسی استحکام کے دعوے غلط ثابت ہوئے۔ ان سیاسی جماعتوں کی قیادت کو لاپتہ افراد کے مسئلے کی گہرائی کا اندازہ لگانا چاہیے ، اگر قومی جماعتوں کے رہنما صرف مسئلہ مشرقی پاکستان کی تاریخ کا مطالعہ کرتے تو وہ یقیناً اپنے مؤقف پر نظرثانی پر مجبور ہوں گے۔

ایوب خان کی حکومت نے اقتدار میں آتے ہی مشرقی پاکستان کی حقیقی قیادت کو جیلوں میں بند کردیا تھا۔ سینئر سیاسی کارکنوں کا کہنا ہے کہ عوامی لیگ اور نیشنل عوامی پارٹی کے رہنماؤں کے لیے جیلوں کی بیرکوں کے علاوہ بچنے کی کوئی صورت نہ تھی۔

یہی صورتحال عام سیاسی کارکنوں کے ساتھ روا رکھی گئی تھی۔ دوسری طرف ایوب خان کی حکومت نے اخبارات پر مسلسل دباؤ ڈالا تھا کہ مشرقی پاکستان میں سیاسی رہنماؤں اور کارکنوں کے ساتھ ہونے والے سلوک کو شایع نہ کیا جائے، یہی وجہ تھی کہ پہلے ایوب خان کے دور میں پھر یحییٰ خان کے دور میں مغربی پاکستان کے عوام مشرقی پاکستان کے حالات سے واقفیت نا حاصل کرسکے جن کی بناء پر مغربی پاکستان کے عوام میں جو ہمدردی پیدا ہونی چاہیے تھی، وہ پیدا نا ہوسکی جس کے نتیجہ میں دونوں صوبوں کے عوام میں فاصلے بڑھ گئے تھے۔

پانچ سال قبل جب ایک بلوچ سرمچار کے والد ماما قدیر بلوچ کی قیادت میں عورتوں اور مردوں نے کوئٹہ سے کراچی اور پھر کراچی سے اسلام آباد تک پیدل مارچ کیا تھا تو اس وقت پنجاب کے شہروں میں اس مارچ کی مخالفت میں بھی مظاہرے کیے گئے تھے۔

اسلام آباد میں صرف بائیں بازو کی تنظیموں کے کارکنوں نے انھیں خوش آمدید کہا تھا اور دیگر سیاسی جماعتیں اس وقت بھی اس مارچ سے دور رہی تھیں، نام نہاد قومی جماعتوں کے رہنماؤں کی جانب سے اس مسئلے کو نظرانداز کرنے اور اپنے انتخابی منشور میں بلوچستان کے ان مسائل کا ذکر اور ان کا حل تجویز نہ کر کے یہ سیاسی جماعتیں بلوچستان میں اپنی ساکھ ختم کر رہی ہیں۔ دوسری طرف بلوچستان کی وہ سیاسی جماعتیں جو 1973کے آئین کے دائرے میں بلوچستان کے مسئلے کے حل کے لیے برسوں سے جدوجہد میں مصروف ہیں، وہ بھی بلوچستان کے سیاسی دھارے سے دور ہورہی ہیں۔

قیامِ پاکستان کے بعد بلوچستان کے ساتھ زیادتیوں کا سلسلہ شروع ہوچکا تھا۔ بلوچستان کے لوگوں کا یہ شکوہ درست ہے کہ نہ صرف بلوچستان کا معاشی استحصال ہوا بلکہ ان کا سیاسی استحصال بھی ہوا۔ ملک کے پہلے صدر اسکندر مرزا اور جنرل ایوب خان نے وعدہ خلافی کی اور ریاستِ قلات میں فوجی آپریشن کیا۔ سردار نوروز خان کو حلف اٹھا کر پہاڑوں سے اترنے اور ہتھیار ڈالنے پر راضی کیا گیا، بوڑھے سردار، اس کے بیٹوں اور بھتیجوں کو سزائے موت دے دی گئی۔

طویل عمری کی وجہ سے سردار نوروز خان کی سزائے موت پر عمل نا ہوا مگر یہ بوڑھا سردار ایک دن حیدرآباد جیل میں انتقال کرگیا۔

1972 میں وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو نے بلوچستان کی پہلی منتخب نیشنل عوامی پارٹی کی حکومت کو برطرف کر کے بلوچ رہنماؤں کو برسوں جیلوں میں مقید کیا اور بلوچستان کو ایک اور آپریشن کا سامنا کرنا پڑا۔ جنرل مشرف کے دورِ اقتدار میں پاکستان کے حامی سردار اکبر بگٹی کو فوجی آپریشن کے ذریعے ہلاک کر دیا گیا، یوں بیس سال گزرگئے بلوچستان بد امنی کا شکار ہے۔

سپریم کورٹ نے لاپتہ افراد کے مسئلے کو انتہائی اہم قرار دیا ہے۔ اس مسئلہ کا دائمی حل ضروری ہے، اگر انتخابات ملتوی کیے گئے تو صورتحال مزید گھمبیر ہو جائے گی۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ بلوچستان کے حقیقی نمایندوں سے مذاکرات شروع کیے جائیں اور بلوچستان میں عام معافی کا اعلان کیا جائے۔

اگرچہ پورے ملک کی سول سوسائٹی، بائیں بازو کی سیاسی جماعتیں، وکلاء اور خواتین، اسلام آباد میں دھرنے کے شرکاء کو یقین دلا رہے ہیں کہ وہ ان خواتین کے ساتھ ہیں اور یہ لوگ اس ملک کے مستقبل کے لیے اہم فریضہ انجام دے رہے ہیں ، صرف اس صدی میں رونما ہونیوالے واقعات سے ثابت ہوتا ہے کہ وفاق کی ناقص پالیسیوں کے نتیجے میں بلوچستان کے عوام کے ساتھ مسلسل زیادتی ہوتی ہے اور ان زیادتیوں کے ازالے کے لیے بلوچستان کو آئین میں خصوصی حیثیت دینے اور بلوچستان کو نو آبادی سمجھنے کی پالیسی کا خاتمہ ضروری ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں