چلیے صاحب مان لیا
اپنے اپنے انداز فکر، معلومات اور سوجھ بوجھ کے مطابق اس پر رائے زنی بھی کر رہا ہے۔
''پہلا پتھر وہ مارے جس نے کوئی گناہ نہ کیا ہو'' (حضرت عیسیٰ علیہ السلام) مگر ہمارے یہاں تو صورت حال ہی مختلف بلکہ اس کے برعکس ہے کہ ہاتھوں میں پتھر اٹھائے ہر سمت پتھراؤ کرنے والوں کے اپنے ہاتھ سیاہ ہیں۔ گزشتہ کئی ہفتوں سے ملک کی جو صورت حال ہے اس سے ملک کا ہر فرد کیا شہری کیا دیہاتی بخوبی واقف ہے۔
اپنے اپنے انداز فکر، معلومات اور سوجھ بوجھ کے مطابق اس پر رائے زنی بھی کر رہا ہے۔ یعنی صورت حال کچھ یوں ہے کہ ملک کا کوئی طبقہ، کوئی برادری، کوئی سیاسی حلقہ بلکہ کسی بھی مذہب کا پیروکار (ہندو، سکھ، پارسی، عیسائی) مطمئن اور خوش نہیں ہے (یوں بھی ہمارے ملک کے لوگ خوش رہنے والوں میں 117 ویں نمبر پر ہیں) سیاست دانوں کو تو کہہ لیجیے کہ کبھی مطمئن ہوتے ہی نہیں کبھی کسی کو برسر اقتدار لانے کے لیے بے چین تو کبھی کسی کو اقتدار سے محروم کرنے کے لیے بے قرار، ہمارے ملک میں ''شاید اسی کا نام سیاست ہے۔''
گزشتہ دنوں سکھ برادری کا پارلیمنٹ پر اچانک دھاوا ہمارے موقف کا منہ بولتا ثبوت ہے، ہمارے ملک کی وہ اقلیت جس کے پاکستان میں وجود سے بھی اکثر لوگ بے خبر ہیں ان کا اس قدر مشتعل ہوجانا ایک پس منظر رکھتاہے اور صاحبان اقتدار کے لیے لمحہ فکریہ کے علاوہ حکومتی کارکردگی پر سوالیہ نشان بھی۔ پھر اسلام آباد، ریڈ زون بلکہ پارلیمنٹ ہاؤس کی حفاظت کے دعوؤں کی بھی قلعی کھولتاہے۔
خیر ہمارے کالم کا یہ موضوع نہیں ہے وہ محض الزام عائد کرنے کی حدود سے نکل کر احتجاج اور ہلڑ میں تبدیل ہوچکا ہے۔ سمجھ میں نہیں آتا کہ اس ملک میں کوئی ایک ادارہ، کوئی ایک سیاست دان بلکہ کوئی ایک شخص بھی محب وطن باقی بچا ہے کہ نہیں؟ کیوں کہ ملک کو اندرونی اور بیرونی طور پر جن حالات کا سامنا ہے، ہمارے چاروں طرف جو کچھ ہورہاہے اس کی تو کسی کو فکر نہیں اگر فکر ہے تو صرف اپنی۔ ہر کوئی گرم توے پر اپنی روٹی ڈالنے میں لگا ہوا ہے۔
مہنگائی ہو، بیروزگاری ہو، علاج و انصاف کی عدم دستیابی یا تعلیمی سہولیات کی کمی ، معاملہ میڈیا کی بے لگام آزادی کا ہو، انتخابات میں متوقع نتائج حاصل نہ ہونے کا ہو کوئی بھی سنجیدگی سے ان مسائل کے حل پر توجہ مرکوز کرنے کو تیار نہیں بلکہ ان تمام مسائل کو بنیاد بناکر اپنے اپنے سیاسی یا انتہا پسندانہ مقاصد کو حاصل کرنے کی بھرپور کوشش میں مصروف ہیں جو ایک دوسرے کے سخت مخالف تھے۔ اب شانہ بہ شانہ کھڑے ہیں، جو دوست تھے وہ دشمن ہوگئے ہیں اور عوام حیران و پریشان کہ کس کی بات سنیں کس کا ساتھ دیں؟ کون درست کون غلط ہے؟ اور کون ہے جو اپنے مسائل کے بجائے ہمارے مسائل حل کرانے کے لیے کوشاں ہے؟
شور یہ مچایا جارہاہے کہ فلاں بتائے کہ اس کے پاس کروڑوں بلکہ اربوں روپے (ڈالر) کہاں سے آئے۔ حکمران بتائیں کہ انھوں نے فلاں ملک سے ملنے والی امداد، خیرات یا تحفے میں ملنے والے اربوں کا کیا کیا؟ غرض یہ کہ ہر کوئی دوسروں کے احتساب میں مشغول ہے مگر حقیقت یہ ہے کہ ''چور مچائے شور'' کے مصداق کوئی ان شور مچانے والوںبلکہ چنگھاڑنے والوں سے بھی تو پوچھے کہ آپ نے جو انتخابات میں بڑے بڑے عالی شان جلسے کیے تھے، تمام ٹی وی چینلز پر کئی کئی منٹ دورانیے کے اشتہارات ہر ایک دو اشتہار کے بعد چلوائے تھے۔
تمام اردو انگریزی اخبارات کے صفحہ اول (فرنٹ پیج) یا صفحہ آخر (بیک پیج) پر پورے پورے یا کم از کم آدھے صفحے پر مشتمل اشتہارات چھپوائے تھے تو کیا یہ سب چینلز اور اخبارات اپ کے چاچے، مامے کے تھے کہ انھوں نے آپ سے کوئی معاوضہ ہی طلب نہیں کیا بلکہ مفت میں اتنے بڑے بڑے اشتہارات محض دوستی یا ہمدردی میں چلائے یا چھاپے تھے؟ چلیے انتخابات کے لیے تو آپ نے ''بہت کچھ'' پیش بندی یا انتظام کررکھا ہوگا جس میں ایک ذریعہ آمدنی پارٹی ٹکٹ دینے کا بھی ہوگا۔
مگر اب جو آپ کوئی عام سا بھی پروگرام صحت یا تعلیم کے حوالے سے شروع کرتے ہیں (وہ پائے تکمیل تک پہنچے نہ پہنچے) تو ان کے بھی پورے صفحے کے اشتہارات آپ کی اپنی ''دلآویز'' تصویر کے ہمراہ ضرور کئی کئی ہفتے شائع ہوتے ہیں تو کیا کوئی مائی کا لال آپ سے یہ پوچھنے کی جرأت کرسکتاہے کہ آخر آپ کے پاس اتنا کثیر سرمایہ کہاں سے آیا؟ آپ جو دوسروں سے ان کی آمدنی کے ذرائع اور ثبوت طلب فرمارہے ہیں تو کیا آپ اپنے ذرائع آمدنی کے بارے میں قوم کو کچھ بتانا پسند فرمائیں گے۔ کیوں کہ بے چاری قوم ہی تو آپ کے احتجاجی جلسوں میں سخت گرمی کے باوجود بے حال ہورہی ہے ''یعنی بیگانی شادی میں عبداﷲ دیوانہ''
چلیے صاحب! مان لیا کہ انتخابات میں دھاندلی ہوئی، بے ایمانی ہوئی (جوکہ زندگی کے ہر شعبے میں ہوئی) مگر یہ کیسی دھاندلی ہے کہ جہاں آپ جیتے وہاں شفاف انتخابات ہوئے اور جہاں نہ جیت سکے وہاں گڑ بڑ ہوئی۔ جو نشستیں آپ کو ملی آپ وہ بھی قبول نہ کرتے اور پورے انتخابات دوبارہ مناسب انتظامات کے ساتھ کرانے کا مطالبہ کرتے (جو تجاویز آپ آج پیش کررہے ہیں وہ پہلے ہی دن کرتے) تو بات سمجھ میں آنے والی تھی مگر چند حلقوں کے لیے پورے ملک کو الٹ کر رکھ دینا اور ساتھ ہی جمہوریت کے لیے خطرہ نہ بننے کا جان افزا دعویٰ بھی کرنا ہم جیسے کم عقلوں کو تو عجب مضحکہ خیز لگتاہے۔ اگرچہ آپ کے خدشات غیر حقیقی اور بے بنیاد نہیں مگر جب ایک بار نتائج کو تسلیم کرلیا اور پھر ایک صوبے میں حکومت سازی کی ذمے داری بھی قبول کرلی تو اب یہ ہائے واویلا کیسا؟
حقیقت یہ ہے کہ جب ایک نشست کے لیے کروڑوں خرچ کیے جانے کی رسم قائم ہے تب تک انتخابات کی شفافیت مشکوک ہی رہے گی، آخر کوئی انتخاب پر اس قدر خرچ کررہا ہے تو کیوں؟ اس خرچ شدہ رقم کو دگنا تگنا کرنے کے لیے ہی نا۔ ووٹرز کے لیے سواری کا بندوبست، کھانے پینے کا انتظام (بریانی کی پلیٹ پانچ باکس کی صورت میں) پھر فی ووٹ ووٹر کو ادائیگی۔ غرض یہ کہ اس صورت میں یہ کہنا کہ انتخابات بالکل شفاف ہوئے، محض دیوانے کی بڑکے سوا کچھ نہیں۔
ایک صورت تو یہ ہے کہ اس غیر حقیقی جمہوریت کو استحکام جمہوریت کی خاطر تسلیم کرلیا جائے تاکہ رفتہ رفتہ خامیاں دور ہوکر جمہوریت کا پودا پنپ سکے ورنہ پھر یہ کہ پورے نظام کو بہتر بنانے کی مخلصانہ کوشش کی جائے۔ انتخابات کے وہ جدید طریقے جو جدید اور ترقی یافتہ ممالک میں رائج ہیں اپنائے جائیں تاکہ کسی کو من مانی کا موقع نہ ملے۔ بجائے عظیم الشان جلسے کرنے کے اگر میڈیا پر تمام سیاسی جماعتوں کے سربراہوں کو مساوی وقت دے کر کہا جائے کہ وہ قوم کو اپنے منشور اور منصوبوں سے آگاہ کریں اور عوام بلا کسی دباؤ کے از خود فیصلہ کریں کہ آئندہ کون ان کے ووٹ کا حق دار ہوگا۔ تو جلسے جلوسوں اور ووٹرز کی خدمت و خوشامد کے علاوہ دیگر اخراجات سے نجات حاصل کی جاسکتی ہے۔
سب سے اہم بات ہے کہ عوام کو علم و آگہی فراہم کرنے کے علاوہ ان میں شعور پیدا کرنا جب تک قوم جاہل رہے گی شرح خواندگی میں اضافہ نہ ہوگا۔ تو کوئی نظام بھی کامیابی سے ہمکنار نہیں ہوسکتا۔ مشکل یہ ہے کہ تعلیم یعنی علم و آگہی کو عام کرنے لوگوں کو با شعور بنانے کے لیے کوئی مخلص شخصیت کہاں سے لائیں؟ کیوں کہ جن کے ہاتھ میں یہ سب ہے اور جو چاہیں تو صرف ایک حکمنامے کے ذریعے تعلیم سب کے لیے یکساں بنیادوں پر مہیا کرسکتے ہیں، وہ تو خود نہیں چاہتے کہ ان کے کھیتوں، فیکٹریوں، کارخانوں میں کام کرنے والے، تعلیم یافتہ اور با شعور ہوکر ان کے ساتھ اسمبلی کی نشستوں پر براجمان ہوں۔ جب ایسا ہوگا کہ سب پڑھ لکھ سکیںگے تو تب دیکھا جائے گا فی الحال تو ایک دوسرے کو مورد الزام قرار دے کر ہی گاڑی چلانی پڑے گی۔