امریکا کے یمن پر حملے
اٹلی، اسپین اور فرانس یمن میں حوثیوں کے خلاف امریکی اور برطانوی حملوں سے لاتعلق رہے ہیں
اسرائیل اور غزہ میں حماس کے درمیان لڑائی کا دائرہ پھیلتا نظر آ رہا ہے، اسرائیل کی فوج غزہ میں فلسطینیوں کے خلاف مسلسل کارروائیاں کر رہی ہے، اب اس جنگ کا دائرہ وسیع ہوتا ہوا نظر آ رہا ہے کیونکہ گزشتہ روز یمنی حوثیوں کے خلاف امریکی اور برطانوی جنگی طیاروں نے بمباری شروع کردی ہے۔
میڈیا کی اطلاعات کے مطابق حوثیوں کے زیرکنٹرول یمن کے دارالحکومت صنعا میں بھی دھماکوں کی آوازیں گونجنے لگیں۔ عرب میڈیا کی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ امریکا اور برطانیہ کے لڑاکا طیاروں، بحری جہازوں اور آبدوزوں نے یمن کے دارالحکومت صنعا، ساحلی شہر حدیدہ اور شمالی شہر سعدہ میں درجن بھر مقامات پر بمباری کی ہے۔
ان حملوں میں جدید ترین امریکی میزائل ٹام ہاک کا بھی استعمال کیا گیا ہے، گزشتہ روز کی اطلاعات کے مطابق امریکی حملوں میں 5 افراد جاں بحق اور 6 زخمی ہوئے ہیں۔ اس کی تصدیق حوثی ترجمان نے کی ہے۔ ادھر امریکا نے بھی یمن پر حملے کے لیے جانے والے جنگی طیاروں کی وڈیو جاری کردی ہے۔
وڈیو امریکی سینٹرل کمانڈ کی جانب سے جاری کی گئی ہے۔ امریکی حکام نے بتایا کہ ہالینڈ، آسٹریلیا، کینیڈا اور بحرین نے اس آپریشن کے لیے لاجسٹک اور انٹیلی جنس مدد فراہم کی ہے۔ اس کے علاوہ جرمنی، ڈنمارک، نیوزی لینڈ اور جنوبی کوریا نے ان چھ ممالک کے ساتھ ایک مشترکہ بیان پر دستخط کیے جس میں ان حملوں کا دفاع کیا گیا اور حوثیوں کے پیچھے نہ ہٹنے کی صورت میں بحیرہ احمر کی تجارت کے آزادانہ بہاؤ کے تحفظ کے لیے مزید کارروائی کی تنبیہ کی گئی۔
اٹلی، اسپین اور فرانس یمن میں حوثیوں کے خلاف امریکی اور برطانوی حملوں سے لاتعلق رہے ہیں ۔ مغربی یورپ کے ان تین ملکوں نے دس ممالک کی جانب سے ان حملوں کی حمایت میں جاری کیے گئے مشترکہ بیان پر دستخط بھی نہیں کیے، امریکی و برطانوی فضائی حملوں کے بعد یمن کے رہنما عبدالمالک بدرالدین الحوثی نے جارحیت کا مقابلہ کرنے کے عزم کا اظہار کرتے ہوئے اپنی قوم کو پیغام دیا کہ دشمن کو میزائلوں اور ڈرونز کا نشانہ بنایا جائے۔
امریکا اور اس کے اتحادی ممالک کی اس کارروائی نے مشرق وسطی کے حالات کو خاصا سنگین بنا دیا ہے۔ یمن کی حوثی حکومت غزہ میں حماس کی حمایت کرتی ہے، لبنان کی حزب اﷲ بھی اسرائیل کی زبردست مخالف ہے اور وہ بھی غزہ میں حماس کی حمایت کرتی ہے۔ شام، ایران اور عراق بھی اسرائیل مخالف پالیسی پر عمل پیرا ہیں۔
پچھلے دنوں امریکا نے ایک ڈرون حملے میں ایک ایرانی اہم شخصیت کو نشانہ بنایا تھا ، جس پر ایرانی حکومت نے سخت ردعمل دیا تھا۔ ان عوامل کو سامنے رکھ کر دیکھا جائے تو امریکا اور برطانیہ نے جنگ کو پھیلانے کا منصوبہ بنا لیا ہے۔
ادھر غزہ میں اسرائیل کی افواج مسلسل حملے جاری رکھے ہوئے ہے، میڈیا کی اطلاعات کے مطابق ان حملوں میں مزید151 فلسطینی شہید ہوگئے ہیں، انٹرنیٹ اور ٹیلی کام سروسز بھی معطل ہوگئی ہے۔ 7 اکتوبر سے جاری اسرائیلی حملوں میں شہید ہونے والے فلسطینیوں کی تعداد 24 ہزار تک پہنچ گئی ہے جب کہ 60 ہزار زخمی ہیں۔
عرب میڈیا کے مطابق غزہ پٹی میں مکمل کمیونی کیشن بلیک آؤٹ کر دیا گیا، لڑائی میں 15 اسرائیلی فوجی بھی زخمی ہوئے، 7اکتوبر سے اب تک اسرائیل کے 6 سو کے قریب فوجی مارے جا چکے ہیں جب کہ اڑھائی ہزار کے قریب زخمی ہوئے ہیں، امریکا اور برطانیہ کی حوثیوں کے زیرکنٹرول یمن کے شہروں پربمباری کے بعد صورت حال مزید سنگین ہو گئی ہے۔
دنیا کی طاقت ور اقوام میں سے روس نے ان حملوں کی مذمت کی ہے اور اقوام متحدہ کا ہنگامی اجلاس طلب کر لیا ہے، چین بھی ایسے حملے کے حق میں نہیں ہے، عالمی منظرنامے کو دیکھا جائے تو طاقت ور اقوام کی اکثریت یا تواسرائیل کے حق میں ہے یا قدرے نرم ردعمل دے رہے ہیں۔
اقوام متحدہ میں ویٹو پاور رکھنے والے ممالک میں سے امریکا، برطانیہ اور فرانس کھل کر اسرائیل کی حمایت کرتے ہیں، اس لیے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں ایسی کوئی قرارداد پاس نہیں ہو سکتی جو اسرائیل کے خلاف ہو یا ان تین ویٹو پاورز کے خلاف ہو۔ او آئی سی میں شامل ممالک کی اکثریت حماس،حزب اللہ اور حوثیوں کے حق میں نہیں ہے۔ ایسی صورت حال میں امریکا، نیٹو اور اس کے دیگر اتحادی ممالک کا پلڑا بھاری ہے۔
یہی وجہ ہے کہ امریکا نے یمن پر حملے کے لیے جانے والے جنگی طیاروں کی باقاعدہ وڈیو جاری کی ہے اور اعلان کیا ہے کہ یہ حملے اس نے ہی کیے ہیں۔ یہ صورت حال خاصی تشویش ناک ہے۔ ادھر اسرائیل کے خلاف فلسطینیوں کی نسل کشی کے الزام میں دی ہیگ عالمی عدالت میں مقدمے کی سماعت ہو رہی ہے۔
یہ قرارداد جنوبی افریقہ نے پیش کی ہے۔ میڈیا کی اطلاعات کے مطابق گزشتہ روز اسرائیل نے اپنے دفاع میں دلائل دیے ہیں۔ اسرائیلی وزارت خارجہ کے قانونی مشیر نے کہا کہ جنوبی افریقہ کی جانب سے غزہ میں واقعات کی تشریح کو مسخ کر کے بیان کیا گیا ہے۔
فلسطینیوں کی شہادتوں کی ذمے دار حماس ہے، ایک برطانوی اخبار کی رپورٹ کے مطابق اسرائیلی وزیراعظم نتن یاہوکابینہ اجلاس کی خفیہ معلومات لیک ہونے سے پریشان ہوگئے ہیں۔ انھوں نے اپنے ہی ملک کے آرمی چیف سمیت سیکیورٹی ارکان کے پولی گرافک ٹیسٹ یا جھوٹ پکڑنے کا ٹیسٹ کرنے کی ہدایات جاری کردی ہیں۔
یمن پر حالیہ حملے پر امریکی فوجی ترجمان کا کہنا ہے کہ یہ حملے ہفتے کی صبح کیے گئے۔ ان حملوں میں حوثیوں کے ریڈار سسٹم اور فوجی ٹھکانوں کو نشانہ بنایا گیا ہے۔ حملوں میں ٹام ہاک میزائل کے استعمال کو بھی تسلیم کیا گیا ہے۔ یوں دیکھا جائے تو مشرق وسطیٰ اور بحیرۂ احمر نئے بحران کا شکار ہو گئے ہیں۔ بحیرۂ احمر جو عالمی تجارت کا اہم روٹ ہے، یہ خطرے میں آ گیا ہے۔
یمنی حوثی پہلے بھی بحیرۂ احمر سے گزرنے والے تجارتی اور امریکی فوجی جہازوں کو نشانہ بنا رہے ہیں، حالیہ حملوں کے بعد یمن کے حوثی رہنما نے اپنے وڈیو بیان میں خبردار کیا ہے کہ یمن پر حملوں کے ذمے داروں کو بھرپور سزا دی جائے گی اور بحیرۂ احمر میں جہازوں کو نشانہ بناتے رہیں گے۔
ادھر امریکا اور برطانیہ کے حملوں کے خلاف ہزاروں یمنی صنعا کی سڑکوں پر نکل آئے اور احتجاجی مظاہرہ کیا۔ مظاہرین نے فوری طورپر حملے روکنے کا مطالبہ کیا۔
غیرملکی میڈیا کے مطابق امریکا، برطانیہ اور ان کے 8 اتحادی ممالک نے یمن میں مختلف شہروں میں فوجی تنصیبات پر 73 فضائی حملے کیے ہیں۔ یہ حملے بیک وقت جنگی طیاروں، بحری جہازوں اور آبدوزوں کی مدد سے کیے گئے۔ ان حملوں میں یمن کا خاصا نقصان ہوا ہے۔
مشرق وسطیٰ میں جنگ پھیلی تو اس کے اثرات پوری دنیا پر پڑیں گے۔ امریکا اور برطانیہ تو شاید اس جنگ سے زیادہ متاثر نہ ہوں لیکن بحیرۂ عرب، بحیرۂ روم اور بحیرۂ احمر کے تجارتی روٹ بری طرح متاثر ہوں گے اور ان سمندروں سے متصل ممالک بھی بحران کی لپیٹ میں آجائیں گے لہٰذا ضرورت اس امر کی ہے کہ اس جنگ کو پھیلنے سے روکا جائے۔
جنگ کو روکنا اور جنگ کے نقصانات سے بچنا، مشرق وسطیٰ کے ممالک کی اولین ترجیح ہونی چاہیے۔ سب سے اہم بات اسرائیل کے غزہ پر حملے رکوانا ہے۔ سامنے کی بات یہی نظر آتی ہے کہ طاقت ور اقوام غزہ کی جنگ رکوانے کی سنجیدہ کوششیں نہیں کر رہے بلکہ غزہ کی جنگ کی آڑ میں یہ طاقتیں اپنے اپنے مفادات کو اولیت دے رہی ہیں۔
روس کی کوشش ہے کہ وہ غزہ کی جنگ اور مشرق وسطیٰ کے حالات کو یوکرائن کی جنگ میں استعمال کرے کیونکہ روس کی فوج اس جنگ میں الجھی ہوئی ہے، جنگ کی طوالت کی وجہ سے روسی معیشت بھی بری طرح متاثر ہو رہی ہے۔
اس لیے اس کی کوشش ہے کہ امریکا اور اس کے اتحادی ممالک کسی دوسری جنگ میں الجھ جائیں تاکہ وہ یوکرائن پر توجہ کم کر دیں۔ ادھر چین اور امریکا کی چپقلش عالمی تجارت کی حصے داری پر بھی ہے اور تائیوان کے ایشو پر بھی ہے۔ امریکا تائیوان کو جدید اسلحہ پہنچا رہا ہے۔ چین کی قیادت بھی چاہتی ہے کہ امریکا کو انگیج رکھا جائے تاکہ چین اپنے مفادات پر کوئی سودے بازی کر سکے۔
یوں دیکھا جائے تو نقصان صرف فلسطینیوں کا ہو رہا ہے یا مشرق وسطیٰ کے مسلم ممالک کو ہو رہا ہے۔ اس لیے جنگ کو بند کرانے کی سب سے زیادہ ذمے داری مشرق وسطیٰ کے مسلم ممالک پر عائد ہوتی ہے۔ انھیں اپنے مفادات کا ارینجمنٹ افہام وتفہیم سے کرنے کی ضرورت ہے کیونکہ لڑائی میں صرف ان ہی کا نقصان ہے۔