انتخابات اور معاشی چیلنجز کا ایجنڈا
سیاسی جماعتیں جذباتیت کی بنیاد پر انتخابی مہم میں ووٹروں سے کھیل رہی ہے
عمومی طو رپر پاکستان میں اس نقطہ پر اتفاق ہے کہ ہمیں معاشی میدان میں نہ صرف ترقی کرنی ہے بلکہ نئے معاشی امکانات پیدا کرنے ہیں ۔
یہ بحث بھی موجود ہے کہ ہمیں سیاست اورجمہوریت کے مقابلے میں اصل توجہ معیشت کی بحالی تک محدود کرنی چاہیے ۔بعض لوگ تو یہاں چلے جاتے ہیں کہ سیاست اورجمہوریت کو کچھ عرصہ کے لیے پس پشت ڈال کر معیشت درست کرنے پر توجہ مرکوز کرکے آگے بڑھنا چاہیے۔
بدقسمتی سے ہم سیاست اور جمہوریت یا سیاسی استحکام کو نظرانداز کرکے معاشی مسائل کا حل تلاش کرنے کی کوشش کرتے ہیں جو سیاسی استحکام کی اہمیت کو کم کرتا ہے ۔جب یہ منطق دی جاتی ہے کہ داخلی مسائل کا علاج تلاش کیے بغیر ہم علاقائی یا عالمی حالات سے بھی نہیں نمٹ سکتے تو اسی طرح سیاسی استحکام کی کنجی معاشی استحکا م اور معاشی استحکام کی کنجی سیاسی استحکام سے ہی جڑی ہوتی ہے ۔ اس عمل کو کسی بھی صورت میں سیاسی تنہائی میں دیکھنے سے گریز کیا جانا چاہیے۔
انتخابات کی سیاست میں عمومی طور پر سیاسی جماعتیں بالخصوص بڑی اور طاقت ور جماعتیں اپنا اپنا سیاسی منشور پیش کرکے لوگوں کی توجہ حاصل کرنے کی کوشش کرتی ہیں ۔ اسی منشور میں ایک بڑا نقطہ معاشی سوچ اور فکر سے جڑا ہوتا ہے ۔
کیونکہ جب ہم یہ تسلیم کرتے ہیں کہ ہمیں معاشی میدان میں بہت سنگین نوعیت کے چیلنجز ہیں تو پھر اس کا علاج بھی سیاسی جماعتوں کی مضبوط سیاسی کمٹمنٹ اور سیاسی منشور کی سطح پر اس کا نظر آنا بھی ضروری امر ہوتا ہے ۔
دنیا میں جمہوری سیاست یا انتخابات میں اہل دانش یا معاشی و سیاسی ماہرین سے جڑے افراد یا ادارے سیاسی جماعتوں کے منشور میں موجود معاشی ترجیحات، کمٹمنٹ اور مسائل سے نمٹنے کی حکمت عملیوں کا جائزہ لے کر لوگوں میں سیاسی جماعتوں کی عملی ترجیحات کا تجزیہ پیش کرتے ہیں ۔
اسی بنیاد پر ووٹرز اس کا تعین کرتے ہیں کہ کونسی سیاسی جماعت کا معاشی ایجنڈا قومی ضرورت یا لوگوں کی ترجیحات کو اپنی ترجیحات کا حصہ بناتا ہے ۔اسی کو بنیاد بنا کر ووٹرز اپنے ووٹ کے لیے سیاسی جماعتوں کی ترجیحات میں سے کسی ایک کو ووٹ دے کر منتخب کرتا ہے ۔
اس وقت انتخابات میں چند ہفتے ہی رہ گئے ہیں اور انتخابات کی صورت میں 8فروری کو ووٹرز نے اپنی قیادت کا یا حکومت کا انتخاب بھی کرنا ہے لیکن اس وقت تک نہ تو ہمیں انتخابات کی بڑی گرم جوشی یا انتخابی مہم میں شدت نظر آرہی ہے او رنہ ہی انتخابات میں سیاسی جماعتوں کے منشور یا ان کے معاشی ایجنڈے یا ترجیحات کاتعین کرنے میں مدد مل رہی ہے ۔
وجہ صرف ہے کہ بیشتر بڑی جماعتوں کے انتخابی منشور یا تو تیار نہیں ہوسکے یا اگر تیار ہوئے ہیں تو سیاسی جماعتوں نے اس پر کسی بڑی بحث کا کوئی انتظام نہیں کیا اور نہ ہی ہمیں میڈیا کے محاذ پر ان منشور پر کوئی گفتگو یا سیاسی جماعتوں کے معاشی تقابلی جائزہ دیکھنے کو مل رہا ہے ۔وجہ صاف ہے کہ سیاسی جماعتوں کی ترجیحات میں انتخابی سیاست میں سنجیدہ مکالمہ نہیں ہے ۔
سیاسی جماعتیں جذباتیت کی بنیاد پر انتخابی مہم میں ووٹروں سے کھیل رہی ہے ۔پیپلزپارٹی ہو یا مسلم لیگ ہو یا پی ٹی آئی سمیت دیگر جماعتیں بظاہر لگتا ہے کہ کسی کے پاس بھی سنجیدہ اور ٹھوس بنیادوں پر کوئی بڑ ا معاشی ایجنڈا نہیں ہے ۔
معیشت کی بہتری کو بنیاد بنا نے کے لیے ہمیں کس سطح کی اصلاحات درکار ہیں اور کیا اسٹرکچرل ریفارمز کرنی ہیں اس کا کوئی علاج ہمیں نظر نہیں آتا ۔ ووٹروں کو اپنی طرف متوجہ کرنے کے لیے جذباتیت پر مبنی دعوے ہی دعوے ہیں لیکن یہ معیشت کیسے درست ہوگی او راس کا کیا طریقہ کار ہوگا وہ ہمیں ان سیاسی جماعتوں کی ترجیحات یا ان کے منشور میں دیکھنے کو نہیں ملتا ۔
سیاسی جماعتیں معیشت کو بنیاد بنا کر سب کچھ جادو کی طرح بدلنے کا ایجنڈا پیش کرتی ہیں او رایسے لگتا ہے کہ سیاسی جماعتوں میں معاشی سطح پر مسائل کے بارے میں کوئی زیادہ غوروفکر نہیں ہوتا ۔
یہ ہی وجہ ہے کہ جب سیاسی جماعتیں جذباتیت کے نعروں کی مدد سے اقتدار کی سیاست کا حصہ بنتی ہیں تو لوگ بھی ا ن کی کارکردگی سے مایوس ہوتے ہیں اور خود سیاسی جماعتیں بھی اپنے لیے سیاسی رسوائی کو پیدا کرتی ہیں جو سیاسی جماعتوں کی ساکھ کو نقصان پہنچانے کا سبب بھی بنتی ہیں ۔
حالانکہ یہاں سیاسی جماعتیں ہمیشہ سے میثاق معیشت پر زور دیتی رہی ہیں کہ تمام سیاسی جماعتیں مل کر میثاق معیشت پر اتفاق کریں ۔لیکن سوال یہ ہے کہ میثا ق معیشت پر جانے سے پہلے سیاسی جماعتوں کا اپنی معاشی ہوم ورک کیا ہے اور کیونکر وہ لوگوں کے سامنے پیش نہیں ہوتا ۔
آپ ملک میںموجود چوٹی کے معاشی ماہرین کا پینل بنالیں اور سیاسی جماعتوں کی قیادت کو سامنے بٹھا دیں تو آپ کو اندازہ ہوگا کہ سیاسی جماعتیں میں اپنے معاشی ایجنڈے میں کہاں کھڑی ہیں اور ایسے لگے گا کہ ان کا کوئی ہوم ورک نہیں ہے ۔
جو بھی سیاسی جماعتیں اقتدار کا حصہ بنتی ہیں ان کے سامنے آئی ایم ایف اور دیگر مالیاتی اداروں پر بڑھتا ہوا انحصار ہوتا ہے یا عالمی سطح موجود ان مالیاتی اداروں کی ترجیحات یا ان کی ڈکٹیشن ہوتی ہے۔
ہماری قیادت کی کوشش ہوتی ہے کہ ہمیں آئی ایم ایف، عرب ممالک ،امریکا یا چین سمیت دیگر ممالک سے ہمیں امداد مل جائے اور ہمارا وقتی طور پر گزارا ہوجائے ۔جب یہ ہی مالیاتی ادارے ہمیں اپنے ملک میں معاشی سطح کی اصلاحات یا بڑے کڑوے فیصلے کی طرف لانے کی کوشش کرتے ہیں تو ہم سمجھوتوں کی سیاست کا شکا رہوجاتے ہیں، ان ہی مالیاتی سطح کے اداروں کی پالیسیوں پر تنقید کرکے عوام کو بے وقوف بنانے کی کوشش کرتے ہیں۔
ہمارے ووٹرز کا بھی مسئلہ یہ ہے کہ وہ خود بھی ان معاشی مسائل پر سیاسی جماعتوں کی جذباتیت یا سیاسی نعروں کا شکار ہوجاتی ہیں ۔ یہ ہی وجہ ہے کہ لوگوں کی ان جذباتیت کو سیاسی جماعتیں اپنے ہی مفادات کے لیے بطور ہتھیار استعمال کرتی ہیں ۔
حالانکہ ضرورت اس امر کی ہے کہ سیاسی جماعتوں کے منشور اور ان کی معاشی ترجیحات کو ایک بڑی بحث کا حصہ بنایا جائے اور ووٹرز کو بھی اس بات کی آگاہی دی جائے کہ ہماری سیاسی جماعتیں معاشی ترجیحات اور معاشی منصوبہ بندی میں کہاں کھڑے ہیں ۔
جب تک ووٹرزکو یہ شعور نہیں ہوگا کہ وہ سیاسی جماعتوں کی ترجیحات کا تجزیہ کرکے ان کو جوابدہ بنائیں مسائل حل نہیں ہوسکیں گے ۔
ووٹرز کی جانب سے شخصیت پرستی جیسے معاملات سے باہر نکل کر حقیقی سیاست کا راستہ اختیار کیا جائے ۔اس وقت لوگوں کے سامنے کئی طرح کے معاشی چیلنجز ہیں ان میں معاشی بدحالی , بیروزگاری , روزگار کی غیر یقینی صورتحال , مہنگائی , ٹیکس کے نظام کی عدم شفافیت , ادارہ جاتی اصلاحات، مہنگائی اور زخیر ہ اندوزی کو کنٹرول کرنے میں ریگولیٹ اتھارٹیوں کی ناکامی، ٹیکسوں کا ظالمانہ نظا م، بجلی ،گیس، پٹرول، ڈیزل ، ادویات اور کھانے پینے کی اشیا میں ہوشربا اضافہ، عام آدمی پر ٹیکسوں کی بھرمار ، قرضوں کا بوجھ ، بے تحاشہ عالمی قرضہ جیسے مسائل سرفہرست ہیں ۔
لوگ ان مسائل کا علاج چاہتے ہیں اور یہ جو ہم نے غیر ترقیاتی اخراجات کی بنیاد پرگورننس کا ایک بڑا بوجھ جو ادارتی محاذ پر قائم کیا ہوا ہے۔
اس کو کم کرنا ضروری ہے ۔لیکن ایسے لگتا ہے کہ معاشی حالات کی بہتری کے لیے اس ملک کی طاقت ور اشرافیہ کا طبقہ خود کو بدلنے کے لیے تیار نہیں اور وسائل کی اس غیر منصفانہ تقسیم کی وجہ سے عام آدمی ہویا گورننس کے مسائل بڑھ گئے ہیں ۔اس لیے ہمیں سخت گیر مالیاتی نظام درکار ہے اور اس سے جڑے اقدامات کے ساتھ ہی ہم آگے بڑھ سکتے ہیں ۔
سیاسی جماعتیں اگر معاشی امور میں سنجیدگی کا مظاہرہ نہیں کریں گی اور لوگوں کو جذباتیت کی بنیاد پر استعمال کریں گی تو اس سے صرف سیاسی ہی نہیں بلکہ معاشی بحران بھی بڑھے گا ۔
درست معاشی حکمت عملی ہی ملک میں سیاست اور گورننس کے مسائل کے حل میں کلیدی کردار میں معاون ثابت ہوسکتی ہیں ۔لیکن اس کے لیے تمام سیاسی جماعتوں کو انفرادی اور اجتماعی سطح پر خود بھی بیٹھنا ہوگا اور دیگر سیاسی جماعتوں کے ساتھ ساتھ دیگر فریقین جو معاشی مہارت رکھتے ہیں کے ساتھ مل کر کوئی مشترکہ معاشی بیانیہ بنانا ہوگا جو ریاستی مسائل کا درست طور پر احاطہ کرے اور عام آدمی کی معاشی مشکلات کو کم کرنے میں کلیدی کردار ادا کرے ۔ لیکن اگر ایسا نہیں کیاجاتا تو مختلف سہاروں کی بنیاد پر کھڑی یہ معیشت ہمارے مسائل میں اور زیادہ اضافہ کرنے کا سبب بنے گی ۔اس لیے ان غیر معمولی حالات میں غیر معمولی اقدامات کی بنیاد پر ہمیں معاشی اصلاحات درکار ہیں ۔