کون دوست کون دشمن
ان کی یہ بات مالدیپ کے عوام کے ساتھ ساتھ وہاں کے وزیروں کو بھی بری لگی
مالدیپ بحرہند میں سیکڑوں جزائر پر مشتمل ایک آزاد خود مختار مسلم ملک ہے۔ یہ ملک اپنے خوبصورت جزائر اور اہم جغرافیائی محل وقوع کی وجہ سے بڑی طاقتوں کے لیے بہت کشش رکھتا ہے۔
اس کے بھارتی مغربی جنوبی ساحل کے قریب واقع ہونے کی وجہ سے بھارتی حکمرانوں نے اسے ہمیشہ للچائی ہوئی نظروں سے دیکھا ہے مگر یہاں کے غیور عوام نے بھارت اور دیگر سامراجی ممالک پرتگالیوں، ولندیزیوں اور آخر میں انگریزوں کو بھی اپنے ملک میں زیادہ دیر نہ ٹکنے دیا۔ بالآخر 1965 میں ایک آزاد اور جمہوری ملک بن گیا۔
وہاں پر کئی سیاسی پارٹیاں ہیں، باقاعدگی سے عام انتخابات ہوتے ہیں۔ نئے انتخابات جو گزشتہ سال ستمبر کے مہینے میں منعقد ہوئے تھے اس میں پروگریسیو پارٹی آف مالدیپ نے فتح حاصل کی تھی۔ اس سے پہلے ابراہیم محمد صالح مالدیپ کے صدر تھے، ان کا مالدیپ ڈیموکریٹک پارٹی سے تعلق تھا۔ وہ بھارت پر مکمل انحصارکرتے تھے اور مالدیپ کو بھارت کے قریب سے قریب تر لانا چاہتے تھے۔
مالدیپ میں ان کے دور میں بھارت نے اپنی فوج بھی تعینات کر دی تھی۔ 2023 کے عام انتخابات میں سابق میئر محمد معیز صدارتی امیدوار تھے کامیاب قرار دیے گئے۔
الیکشن جیتنے کے بعد انھوں نے عوام سے وعدے کے مطابق اپنی پہلی پریس کانفرنس میں ہی بھارت کو اپنے فوجی دستے مالدیپ سے نکالنے کا کہہ دیا۔ محمد معیز سے قبل مالدیپ کے تمام صدور منتخب ہونے کے بعد اپنا پہلا دورہ بھارت کا کرتے تھے مگر نئے صدر محمد معیز نے اپنا پہلا سرکاری دورہ ترکیہ کا کیا ہے اور اب وہ چین کے دورے پر بیجنگ جا چکے ہیں۔
مالدیپ کی معیشت اس کی برآمدات پر انحصار کرتی ہے تاہم اسے اپنی خوبصورت ساحلی سمندری تفریح گاہوں سے بھی کافی زرمبادلہ حاصل ہوتا ہے۔
بھارت سے بڑی تعداد میں سیاح مالدیپ آتے ہیں ۔ مودی بھارتی فوج کے مالدیپ سے ہٹانے کے معاملے پر صدر محمد معیز سے سخت ناراض ہیں۔ گزشتہ دنوں انھوں نے کیرالہ سے لگے بھارتی جزائر کا دورہ کیا اور لکش دیپ جزیرے میں کافی وقت گزارا۔ انھوں نے اپنے ٹویٹ میں بھارتی سیاحوں کو لکش دیپ آنے کے لیے کہا ہے ۔
ان کی یہ بات مالدیپ کے عوام کے ساتھ ساتھ وہاں کے وزیروں کو بھی بری لگی ۔ قابل غور بات یہ ہے کہ مودی نے تو مالدیپ کو نقصان پہنچانے کی بات کی تھی تو مالدیپی وزراء نے مودی اور بھارت کو سخت تنقید کا نشانہ بنایا۔ دراصل مودی کا مسلم کش رویہ پوری دنیا کے سامنے آشکار ہو چکا ہے۔
لگتا ہے مالدیپ کے وزرا نے اس کے فلسطینیوں سے متعلق انتہا پسندانہ رویے سے مشتعل ہو کر اس کے لیے تضحیکانہ الفاظ استعمال کیے ہیں جو مودی کے مسلم کش رویے کا برملا آئینہ دار ہیں ۔ بھارتی مسلمانوں کے ساتھ اس کے ظلم و جبر کا طرز عمل کسی سے چھپا ہوا نہیں ہے۔
اس کی خاص طور پر کشمیری مسلمانوں کے ساتھ بربریت کی پالیسی اس کے اقتدار سنبھالنے کے ساتھ سے ہی جاری ہے مگر افسوس اس پر ہے کہ کسی ملک کی جانب سے اس کے اس رویے پر کوئی تشویش ظاہر نہیں کی گئی۔
بابری مسجد کی مسماری اور اس کی جگہ رام مندر کے بنانے کے مودی کے فیصلے پر کسی مسلم ملک سے مودی کے خلاف کوئی بیان نہیں آیا البتہ وہاں کے عوام میں ضرور تشویش پائی جاتی تھی جس کا وہ برملا اظہار اپنے ٹویٹس کے ذریعے کرتے رہے۔
مشرق وسطیٰ کی دراصل اکثر ریاستیں مودی کا دم بھر رہی ہیں۔ بھارت کو او آئی سی کا ممبر تک بنانے کی بھرپورکوشش کی جارہی ہے تھی۔ او آئی سی کے وزرائے خارجہ کے اجلاس میں بھارت کی اس وقت کی وزیر خارجہ سشما سوراج شریک بھی ہوئی تھیں۔
یہ ایک غلط اقدام تھا کیونکہ او آئی سی کے قوانین کے مطابق کسی غیرمسلم ملک کو او ائی سی کا ممبر نہیں بنایا جاسکتا ، پاکستانی وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے اس اجلاس کا بائیکاٹ کردیا تھا۔ پھر یہ بھی قابل غور بات ہے کہ کسی مسلم ملک نے کوئی سوال بھی نہیں اٹھایا تھا۔ دراصل مودی کے زمانے میں بھارت میں جو ترقی ہوئی ہے اس سے بعض ممالک اتنے متاثر ہیں جب کہ بھارت میں جو بھی چمک دمک نظر آ رہی ہے وہ صرف بڑے شہروں تک محدود ہے۔
بھارت کے چھوٹے شہروں اور دیہی علاقوں کی حالت قابل رحم ہے۔ چاند پر بھارت کا پہنچنا صرف ووٹرز کو لبھانے کی کوشش ہے ورنہ اس عمل سے بھارت کے عوام کو کیا فائدہ پہنچا؟ مالدیپ کی حکومت اور عوام لگتا ہے اب اچھی طرح سمجھ چکے ہیں کہ مودی کی مسلم دشمنی اور اس نظریے کے حامل نیتن یاہو سے اس کی والہانہ محبت کا کیا مطلب ہے؟