عوام پر رحم فرمائیے

اور نگ زیب نے ہاتھ اٹھایا، میڈم مجھے گفتگو میں حصہ لینے کی اجازت دیجیے


Naseem Anjum January 14, 2024
[email protected]

پاکستان کو بنے پون صدی سے زیادہ کا عرصہ بیت چکا ہے، اس دوران پاکستان کی خوشی اور خوشحالی میں اضافہ ہوتا، عزت و وقار بلند ہوتا لیکن ایسا نہیں ہو سکا، پاکستان میں اب تک جتنی بھی حکومتیں قائم ہوئیں، سوائے ایک دو کے علاوہ سب کا مقصد دولت کا حصول اور تعیشات زندگی تھا، اس رویے سے ادارے کمزور ہوتے چلے گئے، بدامنی، ناانصافی نے لوگوں کے حقوق کو پامال کیا۔

آج ہر شخص اپنے حقوق سے محروم کردیا گیا ہے اور طالب علم اپنے ہی ملک سے بیزار نظر آنے لگے ہیں اور اپنے روشن مستقبل کے لیے دیار غیر جارہے ہیں۔ جوانوں کو اُردو سے محبت ہے اور نہ اپنے اکابرین کی قدروقیمت ان کے دلوں میں موجود ہے۔

اس وقت مجھے ایک چھوٹا سا واقعہ یاد آگیا ہے، اس کا نام عرفان تھا،گیارہویں جماعت کا طالب علم تھا، ذہین لڑکا تھا، اسے سوال کرنے کی بہت عادت تھی، ایک دن فری پیریڈ تھا،کورس مکمل ہوچکا تھا، بس اعادہ ہو رہا تھا، کلاس کا ماحول خوشگوار تھا ، طالب علموں کے چہروں پر سکون نظر آرہا تھا شاید اس وجہ سے اور شہر کے حالات بھی بہتر تھے، جلاؤ گھیراؤ ، قتل وغارت میں بہت کمی آئی تھی۔

اس دن موسم بھی اچھا تھا، ٹھنڈا اور خوشگوار، عرفان نے کتابیں بیگ میں ڈالیں اور بولا، مس بہت ہوگئی پڑھائی، بس اب سوال جواب کرتے ہیں یہ بھی تو ذہن کو جلا بخشتے ہیں، معلومات میں اضافہ ہوتا ہے، عرفان گویا دلائل دے رہا تھا کہ مس کو شیشے میں اتار لیا جائے اور وہ اپنے مقصد میں کامیاب ہوگیا۔

اس کا پہلا سوال تھا، مس یہ بتائیے کہ علامہ اقبال نے آخر پاکستان کا ہی خواب کیوں دیکھا،کاش کہ وہ امریکا کا دیکھ لیتے تو آج اوپر سے نیچے سب لوگ ڈالروں میں کھیل رہے ہوتے ، 25طالب علموں کی جماعت کے لڑکوں نے قہقہے لگائے، انھیں جب خاموش کیا گیا تو وہ سب ہاتھ باند ھ کر بیٹھ گئے اور سوری کرنے لگے، مس نے نرمی سے کہا، کیا بیٹا ! آپ کو اپنے مسلمان ہونے پر فخر نہیں ہے، آپ وہ قوم ہیں جو اپنے ایمان کی طاقت سے اپنے سے تین گنا دشمن کے چھکے چھڑا دیتے ہیں۔ دولت اور ایمان کا کوئی مقابلہ نہیں ہے۔

جی مس ! کئی لڑکوں نے تائیدکی اور جنگوں کے نام بھی بتادیے، جی بیٹا بالکل صحیح ، مس نے اسے داد دیتے ہوئے کہا کہ یہ حلال، حرام کی تمیز اسلام نے ہی سکھائی ہے، انھوں نے اپنی ماں بہن کی عزت کے ساتھ ساتھ دوسری خواتین کی عزت کا محافظ بن کر دکھایا ہے۔

میڈم ، عرفان بولا میں افغانستان میں قید ہونے والی اس صحافی خاتون کو نہیں بھولا ہوں، جس نے دوران قید قرآن کریم کا مطالعہ کیا اور جب رہا ہوئی تو اس نے اسلام قبول کر لیا اورآج پوری دنیا میں تبلیغ کررہی ہے، اس کا نام رضوان تھا، لیکن چہرے پر سختی تھی، لگتا تھا اس کے نام کا اثر اس پر ہرگز غالب نہیں ہے، وہ کیسے ؟ مس نے پوچھا۔

میڈم ، میڈم ! میرا مطلب کہنے کا یہ ہے کہ اگر عرفان نے امریکا یعنی سپر طاقت کی بات کی تو ضروری تو نہیں ہے کہ امریکا میں انگریزوں کی ہی حکومت ہوتی، مسلمانوں کی بھی تو ہوسکتی تھی، رضوان نے پھر کہا کہ امریکا بھی پاکستان کی ہی شکل میں سامنے آتا اور کشکول لے کر دوسرے حکمرانوں کی منتیں کر رہا ہوتا محض کرنسی کے حصول کے لیے، ملک کی ترقی حاکموں کے کردار اور قانون کی پاسداری سے ہوتی ہے، عادل جوکہ ہیڈ بوائے تھا۔

اس نے گفتگو میں حصہ لیتے ہوئے کہا ، مسلمان اپنی شان و شوکت بھول چکے ہیں ان کا ماضی بہت شاند ار تھا ، کیسے کیسے جرنیل پیدا ہوئے اور '' سیف اللہ کا خطاب وہ بھی حضرت محمد ﷺ سے پایا ، یار تم نام تو لو وہ کون سے جرنیل تھے۔

عادل برجستہ بولا، میں حضرت خالد بن ولید ؓ کی بات کر رہا ہوں اور اب مغلیہ سلطنت کے آخری تاجدار بہادر شاہ ظفر اور دوسرے بادشاہوں کی، جنھوں نے سلطنت کا نظم ونسق ان لوگوں کے ہاتھوں میں تھما دیا، جو غدار تھے، ننگ وطن اورننگ جہاں تھے، بادشاہ اپنے محلوں میں شطرنج کھیلتے ، موسیقی سنتے اور رقصاؤں کا ناچ دیکھتے ، ساتھ میں ام الخبائث کے مزے لوٹتے، تو بس زوال تو ہونا ہی تھا۔

اور نگ زیب نے ہاتھ اٹھایا، میڈم مجھے گفتگو میں حصہ لینے کی اجازت دیجیے، اجازت سے پہلے ہی وہ جذباتی انداز میں بولا ! میرے ہم وطنو! ہمارے ملک میں بھی جمہوریت ہے اور نہ عدل،کلاس کے نوجوان دھیمی دھیمی مسکراہٹ کے ساتھ بولے۔ جی بادشاہ سلامت آپ نے درست فرمایا، اس جمہوریت کے نام پرآمریت نے خوب پر پرزے نکالے ہیں، اس ہی دوران پیریڈ ختم ہونے کا گھنٹہ بج گیا، دوسری ٹیچرکلاس میں آنا ہی چاہتی تھیں، مس نے بھی اپنا سامان بیگ میں ڈالا، اور جماعت سے نکل گئیں، بچوں کی پیچھے سے آوازیں آرہی تھیں ،Thank you Medam،

You Welcome

کل انشاء اللہ مزید بات ہوگی اگر وقت ملا تو، طالب علموں نے ٹھیک ہی تو کہا تھا کہ پاکستان کا زوال، جھوٹ، بد دیانتی، مفاد پرستی کی ہی وجہ سے ہے ، سیاستدان اقتدارکی کرسی پر قابض ہونے کے خواہشمند ہیں، انھیں بلوچستان کی مجبور و بے کس عورتیں اسلام آباد میں احتجاج کرتی ہوئی نظر نہیں آرہی ہیں ، سخت سردی میں احتجاج کررہی ہیں۔ اسلام آباد پریس کلب کے باہر، بلوچ یکجہتی مارچ اور دھرنا جاری ہے ۔

غربت کی لکیر سے نیچے پاکستان چلا گیا ہے ، جب خوشحال لوگوں کے چھکے چھوٹ گئے ہیں تو پھر مفلس زدہ لوگ کس طرح زندگی بسر کریں ؟ سبزیاں، دالیں ، چاول، آٹا سب اشیاء ضروریہ کی قیمتیں آسمان کو چھو رہی ہیں۔

یوٹیلٹی بلز نے غریب کی بلکہ تمام لوگوں کی جان نکال دی ہے ، اب تابوت میں آخری کیل ٹھونکنے کا ایک انوکھا طریقہ سامنے آیا ہے جو بھتہ خوری سے ہرگز کم نہیں، گیس کے بلوں میں ایک ہزار کی رقم اضافی اور اس کے بعد آپ نے جو گیس خرچ کی ہے ، اس کا بل علیحدہ جن گھروں میں ایک ہزار سے کم بل آتا تھا وہاں اس دفعہ پانچ ہزار سے زیادہ کا بل آیا ہے۔

پہلی بات تو یہ ہے کہ کراچی بلکہ پاکستان کے بہت سے شہروں اور صوبوں میں گیس ناپید ہوچکی ہے ، آخریہ گیس، پانی، بجلی کس جگہ کی سیر کو نکل گئیں ، پیرس یا لندن، پاکستان اور پاکستانیوں پر رحم فرمائیے، یہ وطن سب کا ہے ، صرف آپ کا نہیں۔ اللہ سے دعا ہے کہ اس بار جو بھی لیڈر آئے وہ قانون کے تقاضے پورے کرے ، اس سیاہ دور کے لوگ یہ نعرہ لگانے پر مجبور ہیں ، جینے دو بھئی جینے دو ۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔