اسرائیل نے مصنوعی ذہانت کو ہتھیار بنا لیا

انسانیت کی فلاح وبہبود کے لیے بننے والی ٹیکنالوجی اسرائیلی حکمران طبقے کے ہاتھوں میں پہنچ کر قاتل و خونی بن گئی


سید عاصم محمود January 14, 2024
فوٹو : فائل

سات اکتوبر 2023ء کو فلسطینی تنظیموں نے اسرائیل پہ دھاوا بولا اور اسی دن اسرائیلی افواج نے غزہ پہ حملہ کر دیا۔

زمین، ہوا اور سمندر سے نت نئے ہتھیاروں کی بدولت اہل غزہ پہ اسرائیلی میزائیلوں اور بموں کی بارش ہونے لگی۔ فلسطینیوں پہ جدید ترین اسلحے کے حملے تاحال جاری ہیں۔ ان کی زد میں آ کر اکیس ہزار سے زائد فلسطینی شہید ہو چکے۔ان میں کئی ہزار شہدا بچے ، خواتین اور بوڑھے ہیں۔جا بجا عمارتیں بھی ملبے کا ڈھیر بن گئیں۔

قاتل سافٹ وئیر

پلس 972 میگزین(+972 Magazine)اسرائیل کے لیفٹسٹ طبقے کا مشہور ویب میگزین ہے۔اس نے حال ہی میں اپنی تفصیلی تحقیقی رپورٹ میں انکشاف کیا ہے کہ اسرائیلی افواج نے مصنوعی ذہانت (artificial intelligence) پہ مبنی ایک سافٹ وئیر کی مدد سے غزہ میں اپنے انسانی ٹارگٹ چنے اور پھر انھیں نشانہ بنایا گیا۔ گویا اسرائیلوں نے مصنوعی ذہانت کو یہ اختیار دے ڈالا کہ غزہ میں کون سا مرد ، عورت اور بچہ زندہ رہے گا اور کسے موت کی آغوش میں جانا ہو گا۔

میدان جنگ میں مصنوعی ذہانت کا استعمال نیا نہیں، ڈرون عرصہ دراز سے اس کی مدد سے نشانے تباہ کر رہی ہیں۔ مگر یہ ''اعزاز''پہلی بار عالمی دہشت گرد مملکت، اسرائیل کو نصیب ہوا کہ اس نے مصنوعی ذہانت بروئے کار لاتے ہوئے شہریوں کو ٹارگٹ کیا اور اس دوران معصوم بچوں و خواتین کو بھی نہیں بخشا گیا۔یہ ظلم وسفاکیت اسرائیلی حکمران طبقہ ہی دکھا سکتا ہے جو فلسطینی مسلمانوں کی نسل کشی پہ تلا ہوا ہے۔

غزہ کے '' گنی پگ''

اسرائیل عسکری سائنس وٹیکنالوجی میں تحقیق و تجربات سے جو نت نئے ہتھیار بناتا ہے، جو ٹیکنالوجیوں تشکیل دیتا ہے، وہ عملی طور پہ فلسطینیوں پر ہی آزمائی جاتی ہیں۔

گویا اسرائیلی حکمران طبقے نے انھیں'' گنی پگ''بنا لیا ہے۔ صد افسوس کہ مسلمان سوا ارب ہوتے ہوئے بھی اسرائیلیوں کے ہاتھ نہیں روک سکتے اور وہ مسلسل فلسطینی مسلمانوں پہ ظلم وستم کر رہے ہیں۔

اسرائیلی افواج فلسطینی مسلمانوں کی سرگرمیوں پہ مسلسل نظر رکھتی ہیں۔ یہ کام خلائی سیّاروں ، ہوائی جہازوں اور ڈرون کے ذریعے کیا جاتا ہے۔ مغربی کنارے اور غزہ، دونوں جگہ اسرائیلی افواج نے غزہ میں اپنے جاسوس بھی چھوڑ رکھے ہیں۔

بعض جاسوس مسلمانوں کے بھیس میں یہودی یا عیسائی ہیں۔ بقیہ مسلمانوں کے غدّار ہیں جو اسرائیل سے نبردآزما فلسطینی تنظیموں کے لیڈروںاور کارکنوں کی خبریں اسرائیلی افواج تک پہنچاتے ہیں۔نگرانی و جاسوسی کا ایک ذریعہ وہ طاقتور آلات ہیں جو فلسطینی لیڈروں کی بات چیت سننے کی قدرت رکھتے ہیں۔گویا خاص طور پہ جنگجو فلسطینی اسرائیلی حکومت کی نگاہ میں رہتے ہیں۔

اس کے باوجود دوران جنگ اسرائیلی افواج کو ٹارگٹ چُن لینے میں رکاوٹیں اور مشکلات درپیش رہتی تھیں۔ ان افواج کے ایک سابق سربراہ،اویو کوشوی (Aviv Kochavi)نے برطانوی گارڈین اخبار کو بتایا:''تمام تر جاسوسی و نگرانی کے باوجود ہماری افواج سال میں ایک سو فلسطینی ٹارگٹ بھی حاصل نہ کر پاتے۔لہذا جب جنگ ہوتی تو ہمیں یہ مشکل پیش آتی کہ کس عمارت یا فلسطینی کو نشانہ بنایا جائے۔ ''اس مشکل کو مصنوعی ذہانت پہ مبنی ایک سافٹ وئیر ''دی گوسپل''کی ایجاد نے دور کر دیا۔

دی گوسپل

''دی گوسپل'' ٹارگٹ شناخت کر کے دینے والا سافٹ وئیر ہے۔ اسرائیلی خلائی سیاروں، ہوائی جہازوں، ڈرون، سننے والے آلات اور زمینی جاسوسوں سے جو معلومات حاصل کرتے، وہ ''دی گوسپل'' میں فیڈ کرنے لگے۔ یوں رفتہ رفتہ اس سافٹ وئیر میں ٹارگٹوں کا ڈیٹا یا ذخیرہ نمودار ہو گیا۔یہی ڈیٹا اب غزہ پہ حالیہ اسرائیلی حملے میں کام آیا۔

اویو کوشوی نے اس ضمن میں یہ انکشاف کیا:''پچھلے دو تین برس کے دوران ''دی گوسپل'' میں چالیس ہزار فلسطینی اہداف کا ڈیٹا جمع ہو چکا تھا۔ اب اسی ڈیٹا کی مدد سے ''دی گوسپل'' نے غزہ میں ٹارگٹ تلاش کر کے اسرائیلی افواج کو فراہم کیے۔ ہم پہلے سال میں بہ مشکل ایک سو ٹارگٹ حاصل کرتے تھے۔ ''دی گوسپل'' ہمیں روزانہ اتنے ہی ٹارگٹ دینے لگا۔ اور ان ایک سو اہداف میں سے پچاس کو روزانہ اسرائیلی میزائیلوں یا بموں نے نشانہ بنایا۔''

اسرائیلی افواج کے سابق چیف کے انکشاف سے عیاں ہے کہ اس بار غزہ میں غیرمعمولی انداز میں کیوں زبردست بم باری کی گئی اور کیوں مختصر وقت میں ہزارہا فلسطینی شہید ہو گئے۔ وجہ یہ ہے کہ اس سارے فوجی آپریشن کے پس پشت ''دی گوسپل'' نامی مصنوعی ذہانت کا سافٹ وئیر کارفرما تھا۔چونکہ اس آپریشن کا کمانڈر ایک مشین تھی، لہذا وہ جذبات و احساسات سے عاری تھی۔ رحم دلی، ہمدردی اور محبت اُسے چھو کر بھی نہیں گذری تھی۔اسی بے حسی، بے رحمی اور سنگ دلی کے باعث ہزارہا فلسطینی بچے، خواتین اور مرد شہری بھی موت سے دوچار ہو گئے۔

غزہ حکام کے مطابق یہ سطور قلمبند ہونے تک اکیس ہزار سے زائد افراد ہلاک ہو چکے جن میں کم از کم سا ت ہزار بچے بھی شامل ہیں۔جبکہ ایک لاکھ سے زائد زخمی ہیں۔ متعدد رپورٹس کا حوالہ دیتے ہوئے ایک امریکی صحافی نکولس کرسٹوف نے کہا "غزہ میں جنگ شروع ہونے کے بعد سے اوسطاً ہر سات منٹ میں ایک عورت یا بچہ ہلاک ہوا ہے۔"

تحقیق انسانی قابو سے باہر

غزہ میں ''دی گوسپل''کی کامیابی سے اسرائیل کے حامی خوش ہیں۔ وہ سائنس وٹیکنالوجی میں اسرائیلی ماہرین کی کامیابیوں سے اظہار مسّرت کرتے ہیں۔ مگر غیر جانب دار ماہرین میدان جنگ میں مصنوعی ذہانت کی بڑھتی شمولیت سے بہت پریشان ہیں۔

انھیں خدشہ ہے کہ مستقبل میں ایسا نہ ہو ، مصنوعی ذہانت خودمختار ہو جائے۔ تب وہ اپنے ہتھیار اپنے ہی آقاؤں یعنی انسانوں کے خلاف استعمال کرسکتی ہے۔ لہذا اسرائیلی ماہرین کی تحقیق انسانی قابو سے باہر ہوئی تو وہ کرہ ارض پہ بنی نوع انسان کے اقتدار کا سورج ہمیشہ کے لیے غروب کر دے گی۔ اور بعید نہیں کہ زمین سے زندگی کا وجود ہی مٹ جائے۔

دنیا بھر میں ماہرین اور قانون ساز مصنوعی ذہانت کی جدت طرازی کی رفتار قابو میں رکھنے کے لیے جدوجہد کر رہے ہیں۔

تاہم وہ سر توڑ کوشش کر کے بھی قواعد و ضوابط اور نگرانی کے بنیادی متفقہ فریم ورک تیار نہیں کر سکے۔ غزہ میں اسرائیل اور حماس کے درمیان تنازع نے تناؤ کو مزید بڑھا دیا ہے۔ غزہ میں کون زندہ اور مرتا ہے، اس کا تعین کرنے کے لیے اب تو مصنوعی ذہانت استعمال ہو رہی ہے۔ نتائج، جیسا کہ کوئی بھی دیکھ سکتا ہے، نہایت خوفناک ہیں۔

مصنوعی ذہانت کی صلاحیتوں کی حامل دنیا بھر کی افواج غزہ پر اسرائیل کے حملے کو قریب سے دیکھ رہی ہیں۔

غزہ میں سیکھے گئے اسباق کو مستقبل کے تنازعات میں استعمال کرنے کے لیے مصنوعی ذہانت کے دیگر پلیٹ فارمز بہتر بنانے کے لیے استعمال کیا جائے گا۔ جن بوتل سے باہر آ چکا ۔ مستقبل کی خودکار جنگ یہ فیصلہ کرنے کے لیے کمپیوٹر پروگرام استعمال کرے گی کہ کون جیتا اور کون مرتا ہے۔

اسرائیل غزہ پر مصنوعی ذہانت سے چلنے والے میزائلوں سے گولہ باری جاری رکھے ہوئے ہے۔اس دوران دنیا بھر کی حکومتوں اور ریگولیٹرز کو نجی کمپنیوں میں ہونے والی مصنوعی ذہانت کی اختراعات کی رفتار برقرار رکھنے کے لیے مدد کی ضرورت ہے۔

یہ خطرہ موجود ہے کہ قانون ساز نئے پروگراموں کو درست طریقے سے ریگولیٹ نہ کر سکیں۔امریکی اخبار ، نیویارک ٹائمز نوٹ کرتا ہے: "اس فرق کو حکومتوں اور بھول بھالی بیوروکریسیوں میںمصنوعی ذہانت کے علم کی کمی نے بڑھا دیا ہے، اور خدشہ ہے کہ بہت سارے قوانین نادانستہ طور پر ٹیکنالوجی کے فوائد محدود کر دیں گے۔''

نتیجہ یہ ہے کہ مصنوعی ذہانت کی کمپنیاں بہت کم یا بغیر کسی نگرانی کے ترقی کر سکتی ہیں۔ یہ صورت حال اتنی ڈرامائی ہے کہ ہمیں یہ بھی نہیں معلوم ، یہ کمپنیاں کیا کام کر رہی ہیں۔مصنوعی ذہانت کے مقبول پلیٹ فارم، چیٹ جی پی ٹی (ChatGPT) کے پیچھے موجود کمپنی، اوپن اے آئی( OpenAI )کے انتظام پہ ہونے والی ناکامی پر غور کریں۔

جب سی ای او ،سیم آلٹمین کو غیر متوقع طور پر برطرف کر دیا گیا، تو انٹرنیٹ پر افواہوں کی چکی نے غیر مصدقہ رپورٹوں کو درست قرار دینا شروع کر دیا ۔مثال کے طور پہ یہ افواہ کہ کمپنی نے مصنوعی ذہانت کا ایک خفیہ اور طاقتور سافٹ وئیر تیار کیا ہے جو دنیا کو غیر متوقع طریقوں سے بدل سکتا ہے۔ اس کے استعمال پر اندرونی اختلاف ہی نے کمپنی میں قیادت کے بحران کو جنم دیا۔

ہم شاید کبھی نہیں جان سکتے کہ آیا یہ افواہ سچ ہے یا جھوٹ، لیکن مصنوعی ذہانت کی ترقی کی رفتار اور یہ حقیقت دیکھتے ہوئے کہ ہم نہیں سمجھ سکتے کہ اوپن اے آئی کیا کر رہا ہے، یہ امر قابل فہم لگتا ہے۔ عام لوگوں اور قانون سازوں کو بھی مصنوعی ذہانت کے ایک انتہائی طاقتور پلیٹ فارم کی صلاحیت کے بارے میں سیدھا جواب نہیں مل سکتا اور یہی ایک بڑا مسئلہ ہے۔

اسرائیل کا ''دی گوسپل ''سافٹ وئیر اور اوپن جے آئی میں افراتفری مصنوعی ذہانت کے شعبے میں ایک اہم موڑ کی نشاندہی کرتی ہے۔ یہ وقت اس دعوی سے آگے بڑھنے کا ہے کہ مصنوعی ذہانت ایک نئی اور عمدہ دنیا کو جنم دے گی۔

مصنوعی ذہانت انسانیت کو نئے اہداف حاصل کرنے میں مدد دے سکتی ہے، لیکن اگر اسے خفیہ اور پوشیدہ انداز میں تیار کیا گیا اور میدان جنگ میں لوگوں کو مارنے کے لیے استعمال کیا جانے لگا تو یہ مثبت طاقت نہیں رہے گی۔ دنیا میں حکومتوں کے ریگولیٹر اور قانون ساز ٹیکنالوجی کی رفتار قابو میں نہیں رکھ سکتے اور ان کے پاس نگرانی پر عمل کرنے کے موزوں اوزار بھی موجود نہیں۔

جب دنیا بھر کی طاقتور حکومتیں دم سادھے اسرائیل کو فلسطینیوں پر مصنوعی ذہانت کے الگورتھم کے تجربے کرتے دیکھ رہی ہوں تو ہم اس ابھرتی نئی ٹیکنالوجی سے غلط امیدیں وابستہ نہیں کر سکتے۔اب اس بات کی کیا ضمانت ہے کہ یہ ٹیکنالوجی صرف انسانیت کی فلاح وبہبود کے لیے استعمال ہوگی؟

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں