غزل
کہاں بدن کی ضرورت سمجھ کے پیتا ہوں
میں چائے باپ کی سنت سمجھ کے پیتا ہوں
کھلے کھلے نہ کھلے مجھ پہ یہ سراب مگر
سمندروں کو امانت سمجھ کے پیتا ہوں
طلب کا ذائقہ کھلتا ہے بعد میں مجھ پر
میں پہلا گھونٹ تو عادت سمجھ کے پیتا ہوں
پھر ایک دن اسے شک پڑنے لگ گیا تھا کہ میں
ندی کے پانی کو ذلت سمجھ کے پیتا ہوں
یہ کس طرح کی مصیبت نے آ لیا ہے مجھے
کہ ہر شراب اذیت سمجھ کے پیتا ہوں
میں سبز شاخ کا رس تیری پیروی میں زمان
برائے فیض طریقت سمجھ کے پیتا ہوں
(دانیال زمان۔ خوشاب )
۔۔۔
غزل
پیڑ کی شاخوں سے پھر پات بھی جھڑ جاتے ہیں
زرد رُت آئے تو اپنے بھی بچھڑ جاتے ہیں
تُو جو مسکائے تو پھولوں سے مہکتے گلشن
کنجِ حیرت میں کسی سوچ میں پڑ جاتے ہیں
زر کی افراط میں تفریط میں جکڑے انسان
اِتنے بے زار کہ جنّت سے بھی لڑ جاتے ہیں
ہم نے پائے ہیں دلِ زار پہ وہ گھاؤ کہ جو
وقت سیتا ہے تو کچھ اوراُدھڑ جاتے ہیں
خون کے اشک رلاتے ہیں ہمیں صدیوں تلک
ہائے وہ لوگ جو پَل بھر میں بچھڑجاتے ہیں
دل کے رستے بھی عجب رستے ہیں کم بخت جہاں
جتنا بھی تھم کے چلیںپاؤں اکھڑ جاتے ہیں
ہم خزاؤں میں تو بس جاتے ہیں لیکن افسوس
تیری گل رنگ بہاروں میں اجڑ جاتے ہیں
الٹے پڑتے ہیں سبھی کام یہاں سیدھے بھی دوست
جب مقدر کے خد و خال بگڑ جاتے ہیں
ناتوانی کا گلہ کیا کہ ہے فطرت طاہرؔ
پھیلتے سائے بھی اِک وقت سکڑ جاتے ہیں
(طاہر ہاشمی۔ لاہور)
۔۔۔
غزل
دل و دماغ سے اک ڈر، کبھی نہیں نکلا
کہ دریا سے تو سمندر کبھی نہیں نکلا
تمہارے ہجر کا غم کروٹیں بدلتا ہے
مرے حواس سے باہر، کبھی نہیں نکلا
ہزاروں بار نکالا ہے پیار چوڑی سے
ہمارا حصہ برابر، کبھی نہیں نکلا
کما کے کھانے کی عادت پڑی ہو جس کو یہاں
پھر اُس نسب سے گداگر کبھی نہیں نکلا
مرا جنون، مرا یہ تمام پاگل پن
حدودِ عشق سے باہر، کبھی نہیں نکلا
(رمضان نجمی۔ بھکر)
۔۔۔
غزل
میں پھول بن کے مہک اُٹھوں گا جہاں بھی تیرا وقار ہوگا
کھلانا گل مسکراہٹوں کے جہاں ہمارا مزار ہوگا
زمانے والے سخنوروں کاجہاں کہیں تذکرہ کریں گے
تمھاراشیدا، وفاکارسیا، بشربشرکی پکار ہوگا
وجودِآدم کی داستاں سے یہ بات باور ہوئی ہے سب پر
ہمیشہ شیطاں خداکے بندوں کے دشمنوں میں شمارہوگا
یہی ہے چاہت کہ تیری زلفوں کودے دیا نام زندگی کا
گماں گزرتاہے تیرا عاشق محبتوں کاعیار ہوگا
یہ چاندچہرہ، ستارہ آنکھیں، ہلالی پلکیں، غزالی رمزیں
یہ سب ہیں شاہدگلاب لب پرشفق کا آنچل نثار ہوگا
جو شب کی زلفوں پہ چاند چمکاجو دن کے سرپہ تھا تاجِ شمسی
اشارہ کرتے ہیں دیکھ لوپاس ہی وہ زُہرہ فگار ہوگا
حسین صبحیں، ملیح شامیں، صبیح چہرے، شفیق آنکھیں
تمھاری بستی کاکوچہ کوچہ محبتوں کی پکار ہوگا
سلام لکھ کر وہ خط میں اپنے سدایہ کہتے ہیں مجھ سے جعفرؔ
وفاکادامن جوچھوڑ دے گا وفا کادشمن شمار ہوگا
(اقبال جعفر۔وادیِ دُرگ، ضلع موسی خیل)
۔۔۔
غزل
راہ تاریک ہوگئی میری
موت نزدیک ہوگئی میری
کوئی بے کار شے بنانی تھی
اور تخلیق ہوگئی میری
ساری دنیا کی ساری تنہائی
حسبِ توفیق ہو گئی میری
جسم عادی رہا عبادت کا
روح زندیق ہو گئی میری
ایک عالَم خلاف تھا میرے
ایسے تصدیق ہو گئی میری
(سید محمد تعجیل مہدی۔جھنگ)
۔۔۔
غزل
لو ڈوب گیا فرشِ عزا دیدۂ نم سے
اب کوئی نہ گریے کا تقاضا کرے ہم سے
کھٹکا ہے کہ سیلابِ جنوں خیز کے ہاتھوں
گر جائے کہیں جسم کی دیوار نہ دھم سے
شہ کو مرے انکار سے معلوم ہوا ہے
ہر اک کو خریدا نہیں جاسکتا رقم سے
ہم لوگ بھی کیا سادہ ہیں تسکین کی خاطر
امید لگا لیتے ہیں پتھر کے صنم سے
افسوس کہ مقتل میں تہِ تیغ و تبر ہے
ماں باپ نے پالا تھا جسے ناز و نعم سے
مت پوچھ کہ اندر سے ہیں کس درجہ شکستہ
جو لوگ بظاہر نظر آتے ہیں بہم سے
اب آ کے مجھے رنج کی راحت ہوئی حاصل
پہلے میں سمجھتا تھا کہ مر جاوں گا غم سے
مجھ دل کو فقط قریۂ برباد نہ سمجھو
اک وقت یہ سر سبز علاقہ تھا قسم سے
(ازور شیرازی۔ سرگودھا)
۔۔۔
غزل
اچھے انساں کو خطا کار بنا دیتی ہے
جب ہوس اپنا گرفتار بنا دیتی ہے
پھول کھل اُٹھتے ہیں بے رنگ بیابانوں میں
عاشقی دشت کو گل زار بنا دیتی ہے
گھر کے اندر بھی وہ سر ڈھانپ لیا کرتی ہیں
جن کو تہذیب حیا دار بنا دیتی ہے
میں بھی ہوں گریہ کناں شام سے اک کونے میں
مجھ کو تنہائی عزا دار بنا دیتی ہے
ڈوبنے لگتی ہے جب ناؤ تو پڑھتا ہوں درود
اور ہوا موج کو پتوار بنا دیتی ہے
ضد نہیں کرتے ہیں بچے کبھی ناداروں کے
مفلسی ان کو سمجھ دار بنا دیتی ہے
اپنے بابا کا سہارا ہے اکیلی لڑکی
اپنے آنچل کو وہ دستار بنا دیتی ہے
چڑھتے سورج کی پجاری ہے یہ دنیا صادقؔ
جس سے مطلب ہو اسے یار بنا دیتی ہے
(محمد ولی صادق۔ؔ کوہستان، خیبر پختونخوا )
۔۔۔
غزل
تم چھوڑ کے آئے تھے جسے جھیل کنارے
اُٹھتا ہے وہ لے لے کے دیواروں کے سہارے
دروازے پہ سائل ہے بھلا کیا دوں کے گھر میں
غربت ہے اُداسی ہے یا کچھ بجھتے ستارے
جو حال یہاں بیٹی کا ہے میری دعا ہے
اب تو نہ کسی گھر میں وہ رحمت کو اتارے
عاشق کو سمجھ آتی ہے عاشق کی زباں ہی
گونگے کو سمجھ آتے ہیں گونگے کے اشارے
اس ڈر سے کہیں مانگ نہ لے، باپ نے کہہ کر
چھڑوا دیا بیٹے کا سبق ''غ'' غبارے
کچھ اتنا بھروسہ تھا مجھے تجھ پہ، کئی بار
اُس ربّ کی جگہ میں نے ترے نام پکارے
(تہمینہ شوکت تاثیر ۔ سرگودھا)
۔۔۔
غزل
سانس جتنا بھی آ رہا ہے مجھے
رفتہ رفتہ گھٹا رہا ہے مجھے
دل فقیری کا ہم نوا ہو کر
رنج سہنا سکھا رہا ہے مجھے
میں تو سولی پہ چڑھ گیا ہوتا
کوئی اب تک بچا رہا ہے مجھے
اہلِ دل میں تجھے سمجھتا ہوں
کیوں تو آنکھیں دکھا رہا ہے مجھے
تو نے سینے میں غم بھرے ہوئے ہیں
تیرا لہجہ بتا رہا ہے مجھے
خواب آ کر بنے گا جاں پہ مری
کوئی یکسر دکھا رہا ہے مجھے
کس کی خاطر سنور رہا ہوں معاذؔ
کون ہے جو بلا رہا ہے مجھے
(احمد معاذ۔کہوٹہ، راولپنڈی)
۔۔۔
غزل
منظر سے گھبرائے لوگ
منظر پر ہیں چھائے لوگ
پہلے بخشی مجھے زباں
پھر تلوار بنائے لوگ
چند ہی میرے اپنے تھے
وہ بھی چِھن گئے،ہائے لوگ
ایک جگہ کب ٹکتے ہیں
پنچھی،سورج،سائے،لوگ
کوئی ساتھ نہیں دیتا
دے جاتے ہیں رائے لوگ
ایسا شعر کہا ہی نئیں
جس نے ہوں دہلائے لوگ
کیسے تھے ارباب سنے
کیسے ہم نے پائے لوگ
(ارباب اقبال بریار۔ واہنڈو، گوجرانوالہ)
۔۔۔
غزل
آندھیوں میں شجر نہیں رہتا
بدگمانی میں گھر نہیں رہتا
لفظ پھر لفظ ہی تو رہتے ہیں
بات میں جب اثر نہیں رہتا
جب بھروسے کی ڈور ٹوٹتی ہے
ساتھ پھر عمر بھر نہیں رہتا
فائدہ ہے یہی بچھڑنے کا
پھر بچھڑنے کا ڈر نہیں رہتا
کون یہ مجھ میں میرے جیسا ہے
ساتھ رہتا ہے پر نہیں رہتا
راستے اس طرح بدلتے ہیں
ہم سفر، ہم سفر نہیں رہتا
کون رہتا ہمارے پاس سحر
درد بھی پاس گر نہیں رہتا
(نادیہ سحر۔ملتان)
۔۔۔
غزل
سبھی ظالم سنبھل جاؤ کہ اب حق آنے والا ہے
سنو ظالم سروں کے بل تمہیں لٹکانے والا ہے
کیے تم نے مظالم جو اسی کا بدلہ لے گا وہ
یہ رتبہ شان شوکت سب، سبھی کچھ جانے والا ہے
حکومت ظالمانہ جو بنا لی تم نے مغروری
یہ تخت و تاج آ کر حق اسے الٹانے والا ہے
کبھی مت ہارنا ہمت مظالم پر صبر کرنا
کہ مظلوموں کا حامی اب حکومت لانے والا ہے
ہے رب کا فیصلہ عابد کہ باطل کو تو مٹنا ہے
ہے دنیا منتظر جس کی وہ قائم آنے والا ہے
(محمد عابد جعفری ۔ملتان)
سنڈے میگزین کے شاعری کے صفحے پر اشاعت کے لیے آپ اپنا کلام، اپنے شہر کے نام اورتصویر کے ساتھ ہمیں درج ذیل پتے پر ارسال کرسکتے ہیں۔ موزوں اور معیاری تخلیقات اس صفحے کی زینت بنیں گی۔
انچارج صفحہ ''کوچہ سخن ''
روزنامہ ایکسپریس، 5 ایکسپریس وے، کورنگی روڈ ، کراچی