بھارتی سیکولر ازم کا اصل چہرہ
بس پھر کیا تھا تاریخی بابری مسجد کی شہادت کا منصوبہ بروئے کار لایا گیا
بی جے پی کے زیرِ قبضہ بھارت میں آج کل رام مندر کے افتتاح کا چرچا ہے جس کی ابتدائی تقریب 22 جنوری کو ہوگی۔اِس تقریب کے مہمانِ خصوصی بھارت کے پردھان منتری نریندر مودی ہوں گے۔ یہ وہی رام مندر ہے جو تاریخی بابری مسجد کو شہید کرکے تعمیر کیا گیا ہے۔
برسبیلِ تذکرہ عرض ہے کہ بابری مسجد کی شہادت کے سانحے کی اصل ذمے دار کانگریس پارٹی ہے کیونکہ اُس وقت بھارت کے پردھان منتری نرسمہا راؤ تھے جن کا تعلق کانگریس سے تھا۔ مثل مشہور ہے کہ جیسا کرو گے ویسا بھرو گے، لہٰذا بابری مسجد کی شہادت کے نتیجے میں بھارت کی حکومت کی باگ ڈور کانگریس کے ہاتھوں سے نکل کر بی جے پی کے پاس چلی گئی۔
اب کانگریس پارٹی بُری طرح پچھتا رہی ہے لیکن اب پچھتاوت ہوت کیا جب چڑیاں چُگ گئیں کھیت۔اگرچہ کانگریس 2024 کے عام چناؤ جیتنے کے لیے بہت ہاتھ پاؤں مار رہی ہے اور ایڑی چوٹی کا زور لگا رہی ہے لیکن قرائن یہی بتا رہے ہیں کہ شکست نوشتہ دیوار ہے اور ہارکانگریس کا مقدر ہے۔ کمان سے نکلا ہوا تیر واپس نہیں آسکتا۔
1947 میں آزادی حاصل کرنے کے بعد بھارت میں ہونے والے پہلے عام چناؤ میں کانگریس بھاری اکثریت سے کامیاب ہوئی تھی جس میں کسانوں اور مسلمانوں کا بہت بڑا ہاتھ تھا۔ اُس وقت کانگریس کا انتخابی نشان دو بیلوں کی جوڑی تھی اور نعرہ یہ تھا۔
کانگریس نے دی آزادی
زنجیر غلامی کی توڑی
ووٹ ہمارا وہیں پڑے گا
جہاں بنی بیلوں کی جوڑی
اگرچہ بھارت کے اِس عام چناؤ کے وقت انتہا پسند ہندو جماعتیں آر ایس ایس ،ہندو مہاسبھا اور وِشوا ہندو پریشد بھی موجود تھیں لیکن کانگریس کی جڑیں بھارت کی جنتا میں اِس قدر گہری اور مضبوط تھیں کہ انتہا پسند ہندو پارٹیوں کو منہ کی کھانا پڑی اور انھیں عبرت ناک شکست کا منہ دیکھنا پڑا لیکن اِس کے بعد ہوا یوں کہ انتہا پسند جماعتیں اپنی پوزیشن مستحکم کرنے میں مصروف ہوگئیں اور کانگریس مطمئن ہوکر بیٹھ گئی جس کے نتیجہ میں نوبت یہ آگئی کہ حکومت کانگریس کے ہاتھوں سے نکل گئی۔
سوچنے کی بات یہ ہے کہ ناتھو رام گوڈسے نامی جس انتہا پسند ہندو نے راشٹر پِتا یعنی بابائے قوم گاندھی جی کو قتل کیا تھا، وہ آر ایس ایس کا سرگرم کارکن تھا۔
یہ بات بھی ریکارڈ سے ثابت ہے کہ بھارت کے پہلے وزیرِ اعظم پنڈت جواہر لال نہرو سیکولر مزاج رکھتے تھے اور انھوں نے آئین ساز اسمبلی کا سربراہ بابا صاحب امبیدکرکو مقرر کیا تھا تاکہ ہندوستان کا آئین سیکولر ازم کی بنیاد پر بنے اور درحقیقت ہوا بھی ایسا ہی۔
بدقسمتی سے آج نریندر مودی کی ہندو نواز سیاسی جماعت بھارت کے سیکولر آئین کی دھجیاں بکھیر رہی ہے۔
پنڈت نہرو کی ایک سیاسی کوتاہی یہ بھی تھی کہ انھوں نے اپنی کابینہ میں ولّبھ بھائی پٹیل جیسے انتہائی متعصب شخص کو وزارتِ داخلہ کا انتہائی اہم قلم دان سونپ دیا جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ 1947 کے فرقہ وارانہ فسادات میں ہندوؤں نے مسلمانوں کے خون سے کھل کر ہولی کھیلی اور ہندوستان کے مسلمانوں کو بھاری جانی اور مالی نقصان اٹھانا پڑا۔ درحقیقت پٹیل نہرو کی آستین میں پلا ہوا آر ایس ایس کا انتہائی زہریلا سانپ تھا۔
بھارت کے وزیرِ اعظم جیسے انتہائی اہم عہدے پر فائز شخص کے ہاتھوں آئین کی سنگین خلاف ورزی کا یہ پہلا واقعہ نہیں ہے۔ اِس سے بھی زیادہ سنگین واقعہ یہ ہے کہ وزیرِ اعظم جواہر لال نہرو کی سخت ناپسندیدگی کے باوجود صدر جمہوریہ ہند ڈاکٹر راجندر پرشاد نے سومنات مندر کی تزئین کی تقریب کا افتتاح بھی اِسی طرح کیا تھا۔
یاد رہے کہ رام مندر کے تنازع کے سلسلے میں ایک تجویز یہ آئی تھی کہ اِس کے اسٹرکچر کو جوں کا توں اٹھا کر تھوڑے فاصلہ پر رکھ دیا جائے، اگرچہ بظاہر یہ ایک مشکل کام تھا تاہم جرمنی میں ایسی مشینری موجود تھی جس کے ذریعے کسی بھی اسٹرکچر کو ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل کیا جاسکتا ہے لیکن انتہا پرست ہندو جماعتوں نے اس تجویز پر عمل کرنے سے صاف انکارکر دیا۔پھر یوں ہوا کہ انتہا پسند ہندو سیاسی جماعتوں نے راتوں رات رام کی مورتیاں بابری مسجد کے اندر رکھ دیں اور اُس کے بعد واویلا مچا دیا کہ رام یہاں موجود ہیں۔
بس پھر کیا تھا تاریخی بابری مسجد کی شہادت کا منصوبہ بروئے کار لایا گیا۔بی جے پی کے سرغنہ لال کرشن اڈوانی نے پہلے سے سوچی سمجھی اسکیم کے مطابق رتھ یاترا کے پروگرام پر عمل کیا جس کے نتیجے میں مسلم کُش فسادات ہوگئے جس میں ہزاروں بیگناہ مسلمانوں کو شہید کردیا گیا۔
اِس وقت جب کہ یہ کالم تحریر کیا جا رہا ہے پورے بھارت میں ایک سنسنی پھیلی ہوئی ہے اور بیچارے مسلمان ڈرے سہمے ہوئے ہیں کہ اب دیکھیے کیسا خون خرابہ ہوتا ہے۔
بھارت کی سپریم کورٹ کے چیف جسٹس چندر چور نے اِس موقعے پر نہ صرف بڑھ چڑھ کر بھاجپا کی تقریبات کے سلسلے میں رام مندر پر انتہائی ذوق و شوق کے ساتھ حاضری دی بلکہ ایک لمبا چوڑا بھاشن بھی دیا جس سے بھارت کے سیکولر ازم کے دعوے کا بھانڈہ پھوٹ گیا اور دنیا پر یہ واضح ہوگیا کہ بھارتی سیکولر ازم صرف ایک ڈھکوسلے کے علاوہ اور کچھ بھی نہیں۔