ینگسٹرز کو جلدی آسمان پر نہ چڑھائیں

اس سے شاید صلاحیتیں کھل کر سامنے آ جائیں ورنہ پھر سابقہ جوڑی کو واپس لانا ہوگا


Saleem Khaliq January 15, 2024

دنیا میں سب سے آسان کام شاید کسی پر تنقید کرنا ہی ہے، آپ گھر بیٹھے اپنے قلم یا کی بورڈ سے باآسانی نشتر برسا سکتے ہیں، ٹی وی چینل پر کسی سوال پر کھلاڑیوں کو بْرا بھلا کہہ سکتے ہیں، فلاں خراب کھیلا، ایسا کرنا چاہیے تھا، کوچ یہ کرے، باہر بیٹھ کر ہمارے ذہنوں میں ایسے بے تحاشا خیالات آ رہے ہوتے ہیں، البتہ زمینی حقائق کا علم صرف انہی کو ہوتا ہے جو اس صورتحال سے گذرتے ہیں۔

ہم میڈیا والوں کو تو کوئی یہ نہیں کہہ سکتا کہ فیلڈ میں جاؤ گے تو پتا چلے گا،البتہ سابق کرکٹرز کو کچھ کہتے ہوئے احتیاط کرنی چاہیے کیونکہ اگر بعد میں کوچنگ وغیرہ کا موقع مل گیا تو اپنے ہی الفاظ پلٹ کر واپس آتے ہیں، محمد حفیظ ان دنوں ایسے ہی حالات سے گذر رہے ہیں، بطور ٹی وی ماہر باتوں سے لگتا تھا کہ ہر مسئلے کا حل پروفیسر کے پاس ہے۔

اس سے اوپننگ کراؤ، اسے بولنگ دو، اسے نہ کھلاؤ، سب انھیں پتا تھا لیکن جب بطور ٹیم ڈائریکٹر اختیارات ملے تو تبدیلیاں بھی کسی کام نہیں آ رہیں، پاکستان کو مسلسل شکستیں ہو رہی ہیں، حفیظ بھی دباؤ میں لگ رہے ہیں،شاید اب انھیں احساس ہوا ہو گا کہ ٹی وی پر بیٹھ کر صرف تنقید کرنا آسان تھا، ایسی اطلاعات بھی سامنے آئیں کہ کھلاڑی ان کے رویے سے خوش نہیں ہیں،لیگز کیلیے این او سی وغیرہ میں انھوں نے جو سخت موقف اپنایا یا ڈسپلن کی خلاف ورزی پر جرمانوں کا اعلان کیا تو پلیئرز ناراض تو ہوں گے، البتہ سب کو ٹیم کا سوچنا چاہیے جو ان دنوں مشکل دور سے گزر رہی ہے۔

آسٹریلیا میں ہارنا تو سمجھ آتا تھا، 59 برسوں سے وہاں کوئی سیریز نہیں جیتے مگر نیوزی لینڈ میں تو گرین شرٹس ماضی میں بہتر کھیل پیش کر چکے، وہاں کیوں نہیں کھیلا جا رہا؟اس کا جواب فی الحال شاید ٹیم مینجمنٹ میں سے کسی کے پاس موجود نہیں ہے، مجھے حفیظ کی نیت پر شک نہیں، وہ یقینی طور پر بہتری کیلیے بہت کوششیں کر رہے ہوں گے لیکن شائقین کو مثبت نتائج چاہئیں، محمد رضوان اور بابراعظم کی جوڑی پر حفیظ ماضی میں تنقید کر چکے۔

ان کا کہنا تھا کہ دونوں ایک ہی طرح سے کھیلتے ہیں، اسٹرائیک ریٹ کم ہونے سے سارا دباؤ مڈل آرڈر پر آ جاتا اور کارکردگی متاثر ہوتی ہے، جب انھیں اختیارملا تو یہ جوڑی تبدیل کر دی، بظاہر یہ فیصلہ غلط بھی نہیں لگتا، رائٹ اور لیفٹ ہینڈر کی موجودگی کا فائدہ ہی ہوتا ہے، البتہ اب تک رضوان اور صائم توقعات پر پورا نہیں اتر پائے، پہلے میچ میں صائم نے کچھ بہتر کھیل پیش کیا جس پر لوگوں نے انھیں آسمان پر چڑھا دیا تھا، ''نیو لک'' چھکے کا بھی سوشل میڈیا پر بڑا چرچا رہا لیکن پھر گذشتہ روز ویسا ہی شاٹ کھیلتے ہوئے وہ ایک رن پر کیچ ہو گئے۔

ہمارے ملک میں ایک مسئلہ یہ بھی ہے کہ کوئی بیٹر اچھا شاٹ کھیلے یا بولر یارکر پر وکٹ لے جائے تو ہم کسی کو سعید انور یا وسیم اکرم قرار دے دیتے ہیں، اس کا بیچارے نوجوان کھلاڑی کو فائدہ نہیں نقصان ہی ہوتا ہے وہ توقعات کے بوجھ تلے دب جاتا ہے، ایسا ہی کہیں صائم کے ساتھ بھی نہ ہو، میں سب سے یہی درخواست کروں گا کہ انھیں صائم ہی رہنے دیں کسی سے موازنہ نہ کریں۔

اس سے شاید صلاحیتیں کھل کر سامنے آ جائیں ورنہ پھر سابقہ جوڑی کو واپس لانا ہوگا، رضوان کو شاید بابر اعظم کا اوپننگ میں ساتھ چھوٹنا راس نہیں آ رہا اسی لیے وہ بڑی اننگز نہیں کھیل پا رہے، البتہ بابر نے ثابت کر دیا کہ بڑا پلیئر کسی بھی نمبر پر کھیلے کوئی فرق نہیں پڑتا، انھوں نے دونوں اننگز میں نصف سنچریاں بنائیں، البتہ میچ فنش نہیں کر پائے، بابر پر تنقید بھی آسان کام ہے لیکن ہمیں اس پر نشتر برسانے چاہیئں جو دونوں میچز میں ٹاپ اسکورر رہا یا وہ کھلاڑی جو کچھ نہیں کر پائے؟ نوجوان کرکٹرز کے بارے میں ہم سب شور مچاتے ہیں کہ موقع دیں، اب ایسا ہوا تو وہ پرفارم نہیں کر پا رہے۔

اعظم خان لیگز کی اپنی فارم کو انٹرنیشنل سطح پر ظاہر نہیں کر سکے،انھیں ایک اور میچ کھلانا چاہیے، اگر اس میں بھی بڑی اننگز نہ کھیلی تو پھر شاید دوبارہ کم بیک کیلیے کئی برس انتظار کرنا پڑے، افتخار احمد جو چاچا کہنے پر خوش ہوتے تھے اب شائقین سے لڑ رہے ہیں اس سے ان کی فرسٹریشن واضح ہے،وہ بھی آؤٹ آف فارم نظر آتے ہیں،فخرزمان نیچرل اوپنر ہیں مگر انھیں چوتھے نمبر پر بھیجا جا رہا ہے، البتہ وہ کبھی ناراضی کا اظہار نہیں کرتے، دوسرے میچ میں ان کی ففٹی ٹی ٹوئنٹی میچ کی آئیڈیل اننگز تھی ۔

اگر صائم ایک اور میچ میں ناکام رہے تو پھر رضوان کے ساتھ فخر سے بھی اوپننگ کرانے کا آپشن موجود ہوگا، شاہین شاہ آفریدی کی فارم ویسے ہی خراب تھی، اب قیادت کا اضافی بوجھ بھی پڑ گیا، لوگ ان کے بھی پیچھے لگ گئے ہیں،البتہ میرا یہ خیال ہے کہ بطور کپتان شاہین کی کارکردگی کو سیریز کے اختتام پر ہی جانچنا چاہیے، ٹی ٹوئنٹی میں اسپنرز کا اہم کردار ہوتا ہے بدقسمتی سے اس شعبے میں ہم پیچھے چلے گئے ہیں۔

شاداب خان کی انجری پر اسامہ میر کو موقع ملا وہ بالکل بھی متاثر نہیں کر پائے، حارث رؤف دونوں میچز میں بہتر بولنگ کرتے نظر آئے، انھیں نئی گیند تھمانے کے بجائے اختتامی اوورز میں ہی بولنگ دینا کارآمد رہے گا، بولنگ کوچ عمر گل کے بھتیجے عباس آفریدی کا متاثر کن ڈیبیو ہوا، ان کے پاس ورائٹیز بھی ہیں، سلو گیند پر وکٹیں بھی ملیں، وہ اگر محنت کا سلسلہ برقرار رکھیں تو ٹیم کے کام آ سکتے ہیں،آسٹریلیا سے ٹیسٹ سیریز کے ہیرو عامر جمال وائٹ بال سے تاحال افادیت ثابت نہیں کر سکے۔

درحقیقت بولنگ نے ہی پاکستان کو اس حال تک پہنچایا، پہلے میچ میں 226 اور دوسرے میں 194 رنز بنوانا ٹیم کے شایان شان نہیں، فیلڈنگ بھی خصوصا پہلے ٹی ٹوئنٹی میں بہت غیرمعیاری رہی،اس وقت گرین شرٹس کوہر شعبے میں بہتری درکار ہے۔

اب غلطیوں کی گنجائش نہیں، تیسرا میچ جیت کر پہلے سیریز میں واپس آئیں پھر آگے کا سوچیں،یہ ورلڈکپ کا سال ہے، پہلے ایسا لگ رہا تھا کہ ہماری ٹیم خاصی مضبوط ہے لیکن اب تک گراؤنڈ میں کارکردگی بالکل برعکس رہی، دیکھتے ہیں کھلاڑی بقیہ میچز میں کچھ کر پاتے ہیں یا اس سیریز کے بعد بھی ٹیم ڈائریکٹر کا یہی بیان سامنے آئے گا کہ '' نیوزی لینڈ کے دورے میں بہت کچھ سیکھنے کا موقع ملا''۔

(نوٹ: آپ ٹویٹر پر مجھے @saleemkhaliq پر فالو کر سکتے ہیں)

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں