وہ ہدایت کار جن کے باپ بھی ہدایت کار تھے

ایک ہدایت کار و فلم ساز سعید رضوی اور دوسرے ہدایت کار اقبال یوسف تھے جو آج اس دنیا میں نہیں ہیں


یونس ہمدم January 16, 2024
[email protected]

فلمی دنیا بالی ووڈ کی ہو یا لالی ووڈ کی کئی نامور ہیروز کے بیٹوں نے بھی فلمی دنیا میں ہیرو بن کر نام کمایا، کئی نامور ہدایت کاروں کے بیٹے کامیاب ہدایت کار بن کر منظر عام پر آئے، ایسے ہی دو ہدایت کاروں سے میری بڑی اچھی دوستی رہی ہے۔

ایک ہدایت کار و فلم ساز سعید رضوی اور دوسرے ہدایت کار اقبال یوسف تھے جو آج اس دنیا میں نہیں ہیں۔ آج کے کالم میں کچھ پرانی یادیں ان دو ہدایت کاروں کی شیئر کروں گا۔ سعید رضوی کے والد بمبئی کی فلم انڈسٹری میں باپو رفیق رضوی کے نام سے مشہور تھے۔

ہندوستان کی تقسیم کے بعد یہ بھی پاکستان آگئے اور بطور ہدایت کار کئی فلمیں بنائیں جن میں بیداری، واہ رے زمانے، سویرا، اپنا پرایا، دو استاد، نیلوفر، شرارت، آرزو، پھر صبح ہوگی اور ان کی آخری فلم تھی پھر چاند نکلے گا۔

باپو رفیق رضوی کے بیٹے سعید رضوی نے بحیثیت کیمرہ مین اپنے فلمی کیریئر کا آغاز کیا، ایک ہارر فلم سرکٹا انسان بنائی اور ایک فلم طلسمی جزیرہ کے نام سے بنائی جن کے لیے میں نے بھی گیت لکھے تھے اور جب کراچی میں، میں نے پہلی فلم ''تم سا نہیں دیکھا'' کا اسکرپٹ اور گانے لکھے تھے تو اس فلم میں پہلی بار فل فلیش کیمرہ مین کی حیثیت سے سعید رضوی نے کام کیا تھا، اس سے پہلے وہ مشہور کیمرہ مین مدد علی مدن کے اسسٹنٹ تھے، اور پھر وہ نام ور ہدایت کاروں کی فہرست میں شامل ہوگئے تھے۔

ان سے آج بھی میرے مراسم برقرار اور دوستی قائم ہے جب بھی میں امریکا سے آتا ہوں ان کے اسٹوڈیو میں میری ایک دو ملاقاتیں ضرور ہوتی ہیں، اسی طرح مشہور فلم ساز و ہدایت کار ایس ایم یوسف کے فرزند اقبال یوسف صاحب سے بھی میری بڑی اچھی دوستی رہی۔ اقبال یوسف کے والد ایس ایم یوسف بھی انڈین فلم انڈسٹری کے ایک نام ور ہدایت کار اور فلم ساز رہے تھے۔ پھر وہ بھی ہندوستان سے ہجرت کرکے پاکستان آگئے تھے۔

ایس ایم یوسف 1910 میں بمبئی میں پیدا ہوئے تھے، ایک طویل عرصہ ہندوستان کی فلم انڈسٹری میں گزارا اور بڑا نام کمایا اور ان کا پورا نام شیخ محمد یوسف تھا یہ مسلم سوشل فلموں کے حوالے سے بڑے مشہور ہدایت کار تھے۔ ان کو ابتدا میں اداکاری کا شوق تھا۔

انھوں نے پہلی مرتبہ آغا حشر کے ڈرامے نیک پروین میں کام کیا اور ایک عورت کے کردار میں کام کرنا پڑا تھا ، یوں یہ اسٹیج آرٹسٹ بن کر ابھرے، یہ وہ دور تھا جب مشہور فلم ساز و ہدایت کار راج کپور کے والد پرتھوی راج کپور بھی اسٹیج پر کام کیا کرتے تھے اور وہ دور اسٹیج کے مشہور ڈرامہ نگار اور ہدایت کار آغا حشر کاشمیری کا دور تھا۔

انھوں نے شیکسپیئر کے ڈراموں کو اردو میں اسٹیج پر پیش کیا پھر انھوں نے اپنے لکھے ہوئے کئی ڈرامے بھی اسٹیج کیے اور خوب شہرت کمائی، اسٹیج آرٹسٹ کے بعد ایس ایم یوسف ہدایت کاری کی طرف آگئے تھے اور پھر بحیثیت ہدایت کار بہت سے سوشل فلموں سے شہرت پائی۔ ان کی ایک فلم مہندی کی سارے ہندوستان میں بڑی دھوم مچی تھی۔ پھر یہ بھی پاکستان بننے کے بعد پاکستان آگئے تھے۔

یہاں آ کر انھوں نے کئی خوبصورت فلمیں بنائیں جن میں اولاد اور توبہ کو بے مثال شہرت حاصل ہوئی ،اسی دوران ان کے ایک بیٹے اقبال یوسف کو بھی پہلے اداکاری کا شوق ہوا تھا، وہ بھی پہلے اداکاری کی طرف آئے تھے بعد میں ہدایت کار بنے۔

ہدایت کار اقبال یوسف نے پہلی بار اپنے والد کی فلم عید مبارک میں ایک معاون کردار کیا پھر بحیثیت ہیرو فلم سپیرا میں کام کیا مگر وہ فلم کامیاب نہ ہو سکی اور فلمی دنیا کی ریت کے مطابق جس کی پہلی فلم فلاپ ہو جاتی ہے پھر اسے دوبارہ کوئی چانس نہیں دیتا ہے، یہی اقبال یوسف کے ساتھ ہوا جب اسے کسی فلم ساز نے کوئی چانس نہ دیا تو یہ اپنے والد ایس ایم یوسف کے ساتھ بطور معاون ہدایت کار کام کرنے لگے۔ یہ شعبہ ان کو بہت جلدی راس آگیا اور جلد ہی ایک ذہین ہدایت کار بن کر ابھرے۔

انھوں نے پہلی فلم رات کے راہی کی ڈائریکشن دی اور اس فلم کی کہانی ان کے والد کی انڈیا میں بنائی گئی فلم ''گرو گھنٹال'' کی کاپی تھی، اس فلم کی کامیابی سے اقبال یوسف کے حوصلے بلند ہوگئے،اس کے بعد ان کی کئی فلمیں بطور ہدایت کار اور فلم ساز منظر عام پر آئیں جن میں جوش، اک سپیرا، ہل اسٹیشن، دال میں کالا، جاسوس، نہلے پہ دہلا، ہیرو، زلزلہ، صورت سیرت اور تم ملے پیار ملا کو بڑی شہرت ملی تھی۔

اقبال یوسف نے مجموعی طور پر 17,18 فلمیں بنائی تھیں جن میں کچھ ان کی پروڈیوس کی ہوئی بھی فلمیں تھیں۔ لاہور کی فلم انڈسٹری میں انھوں نے اپنا ایک ممتاز مقام بنا لیا تھا۔ اسی دوران ان کی ملاقات اداکارہ بہار سے ہوگئی تھی۔ بہار نے ان کی کئی فلموں میں کردار بھی ادا کیے تھے، وہ کانووینٹ کی پڑھی لکھی تھی اور اقبال یوسف بھی اچھے تعلیم یافتہ تھے، دونوں کی چند ملاقاتیں محبت میں بدل گئیں اور پھر دونوں نے شادی کرلی، پھر چند سالوں کے بعد دونوں نے بڑی خوش اسلوبی کے ساتھ ایک دوسرے سے علیحدگی اختیار کرلی تھی۔ میری لکھی ہوئی چند فلموں میں اداکارہ بہار نے بھی کام کیا تھا۔

میری بھی ان سے اچھی بے تکلفی کے ساتھ گفتگو ہوتی تھی۔ اداکارہ سنگیتا کی ڈائریکشن میں بنائی گئی ایک فلم لال آندھی کی جن دنوں ملتان کے صحرائی علاقے میں آؤٹ ڈور شوٹنگ تھی، اس دوران میں بھی اکثر و بیشتر شوٹنگ پر موجود ہوتا تھا۔ میری اس دوران اداکارہ بہار صاحبہ سے اچھی خاصی باتیں رہتی تھیں، میں نے ان کو بہت ہی سلجھی ہوئی خاتون پایا تھا۔ وہ بہت اچھی گفتگو کرتی تھیں اور دیگر اداکاراؤں سے بالکل مختلف نظر آتی تھیں۔

اقبال یوسف نے سندھی فلموں کی ایک اداکارہ ماہ پارا سے دوسری شادی کرلی تھی۔ فلم انڈسٹری کے زوال کے بعد اقبال یوسف بھی لاہور سے کراچی آگئے تھے۔کراچی میںوہ بہت بجھے بجھے سے رہتے تھے، فلم انڈسٹری زوال پذیر ہوتی چلی گئی اور اقبال یوسف مایوس ہو کر لندن چلے گئے تھے مگر وہ وہاں جا کر بھی کچھ نہ کرسکے اور مایوسی کی چادر اوڑھے 1995 میں لندن ہی میں انتقال کر گئے تھے۔

اس طرح فلم انڈسٹری کا زوال نہ جانے کتنے لوگوں کو کھا گیا تھا اور آج فلم انڈسٹری کا وجود نہ ہونے کے برابر ہے۔ کراچی و لاہور کے بیشتر بلکہ تمام سینما ہال ختم ہو چکے ہیں اور ہر سینما ایک کاروباری پلازہ بن چکا ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔