انتخابات 2024 اور متنازعہ مسائل
پی ٹی آئی کا یہ دعویٰ کے وہ ان حالات کے باوجود بہت کچھ حاصل کرسکیں گے، ممکن نظر نہیں آتا
انتخابات2024 کے نتائج کسی کے بھی حق میں ہوں اورکسی کی بھی حکومت بنے، اس کی سب سے بڑی مشکل ساکھ کا بحران ہوگا۔ کیونکہ پی ٹی آئی نے یہ بیانیہ بنالیا ہے کہ انتخابات متنازعہ ہوگئے ہیں۔
پی ٹی آئی کے وکیل رہنما کئی بار کہہ چکے ہیں کہ داخلی اور خارجی محاذ پر کوئی بھی ان انتخابات کی حیثیت کو تسلیم نہیں کرے گا، کیونکہ پری پول رگنگ شروع ہے۔ پی ٹی آئی کے ہمدرد اور حامی سوشل میڈیا پر بڑی تیزی سے اس بیانئے کو پھیلا رہے ہیں۔ اس بیانئے سے ہٹ کر ماضی کو دیکھیں تو یہی کھیل نظر آتا ہے۔
اصولاً ماضی میںجو کھیل کھیلا گیا، وہ بھی غلط تھا اور آج جوکھیل کھیلا جارہا ہے، وہ بھی غلط ہے ۔ سب کو یہ تسلیم کرنا ہوگا کہ ہماری سیاست،جمہوریت، انتخابات، آئین اور قانون کی حکمرانی اور سیاسی اخلاقیات کے اصول کے مطابق نہیں ہے ۔ ہم نے ماضی کی غلطیوں سے کچھ نہیں سیکھا ہے۔
پی ٹی آئی کی عام انتخابات 2024میں انتخابی نشان سے محرومی ، عمران خان کی گرفتاری، نااہلی، بڑے ناموں کا پارٹی چھوڑ دینا، سمیت جو کچھ بھی ہوا ہے یا ہورہا ہے، وہ کوئی انہونا کھیل نہیں۔ ہماری ماضی کی سیاسی تاریخ ایسے ہی واقعات سے بھری پڑی ہے۔ اس کلچر نے ہمیںجمہوریت ، آئین اور قانون کی حکمرانی کے بحران سے دوچار ہیں۔
یہ ایک ریاستی بحران ہے اوراس کی جڑیں کافی گہری ہیں اور سیاست کو خراب کرنے میں کسی ایک فریق کا نہیں بلکہ تمام ہی فریق کسی نہ کسی شکل میں ان حالات کے ذمے دار ہیں۔ بظاہر پی ٹی آئی کے لیے سیاسی راستے بند ہوتے جارہے ہیں، لیکن یہ نقصان محض پی ٹی آئی کا نہیں بلکہ جمہوریت کا بھی نقصان ہے۔ آج پی ٹی آئی کی باری ہے ماضی میں یہ ہی کھیل پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ ن کے ساتھ کھیلا گیا اور کل ان ہی جماعتوں کے ساتھ یا نئی جماعتوں کے ساتھ کھیلا جائے گا۔
پی ٹی آئی جس نے قومی اسمبلی کے 230اور صوبائی اسمبلی کے تقریبا 593امیدوار اس انتخاب میں کھڑے کیے ہیں، وہ مختلف انتخابی نشانات کی صورت میں حصہ لیں گے ۔ ماضی میں بیشتر جماعتوں کے ایسے مسائل کا سامنا کرنا پڑا لیکن انتخابی عمل سے انتخابی نشان سے محرومی پہلی بار دیکھنے کو مل رہی ہے۔
اس وقت پی ٹی آئی مخالف افراد یا قوتیں خوش ہو رہی ہوں گی، ماضی میں اگر کوئی پارٹی زیر عتاب آئی، اس کے مخالفین خوشی کے ڈھول بجاتے رہے مگر اصولی طور پر اس کھیل کی کسی بھی صورت حمایت نہیں کی جاسکتی، پی ٹی آئی مخالفین کو اس پر خوش نہیں ہونا چاہیے کیونکہ کل ان کے ساتھ بھی یہی کچھ ہوسکتا ہے۔
ایسا نہیں ہے کہ لوگوں کو نظر نہیں آرہا، ماضی میں بھی عوام دیکھتے رہے لیکن اصل مسئلہ سیاسی قیادت کی موقع پرستی ہے۔ مسئلہ محض پی ٹی آئی کے امیدواروں کا انتخابی نشان سے محرومی تک محدود نہیں بلکہ ان کے مورال کا بھی ہے۔
پی ٹی آئی کے حامی سمجھ رہے ہیں کہ جو لوگ آزاد حیثیت سے انتخابات میں حصہ لے رہے ہیں، انھیں بھی آزادانہ بنیادوں پر انتخابی مہم چلانے نہیں دی جائے گی اور تجزیہ نگار بھی سمجھتے ہیں کہ پی ٹی آئی کے لیے کوئی گنجائش نہیں۔ بنگلہ دیش کا حالیہ الیکشن سب کے سامنے ہے۔ ہم نے ماشااللہ بنگلہ دیش سے یہی سیکھا ہے کہ الیکشن کیسے کراتے ہیں۔
پری پول رگنگ کی سیاسی اصطلاع دہائیوں سے استعمال ہو رہی ہے، اب ایک نئی سیاسی اصطلاح ''لیول پلیئنگ فیلڈ'' سامنے آئی ہے۔ پی ٹی آئی یہ اصطلاح استعمال کررہی ہے، یہ درست ہے کہ پی ٹی آئی کو مشکل حالات کا سامنا ہے۔ کچھ مسائل اس نے خود 9مئی کے واقعات کی بنیاد پر اپنے لیے پیدا کیے ہیں۔
لیکن پی ٹی آئی پارلیمنٹرینز اور استحکام پاکستان پارٹی کے لیے پی ٹی آئی کے لوگوں کی وفاداریاں تبدیل کرانا، پریس کانفرنسیں اورپارٹی چھوڑنے یا لاتعلقی کا اعلان کرانا، گرفتاریاں، نااہلی، ضمانتوں کے باوجود نئی گرفتاریاں جیسے اقدامات، وفاقی نگران حکومت اور صوبائی نگران حکومتوں کی غیرجانبداری پر سوالیہ نشان ہے۔
مسئلہ یہ نہیں کہ پی ٹی آئی کے داخلی انتخابات کی صحت متنازعہ یا جعلی تھی ، لیکن مسئلہ یہ ہے کہ پی ٹی آئی کو محض قانونی مسائل کا سامنا نہیں ہے بلکہ انتظامیہ کی روش بھی ان کے لیے مسائل کا سبب ہے ۔کیونکہ جب ہم یہ طے کرلیتے ہیں کہ کس کے لیے راستہ بنانا ہے اورکس کا راستہ روکنا ہے تو اس کے بعد کی حکمت عملیوں کو ہم اسی ہی نقطہ کے درمیان رکھ کر مسائل یا معاملات کو سمجھ سکتے ہیں۔
پی ٹی آئی تو اب خواتین اوراقلیتوں کی مخصوص نشستوں سے محروم ہوچکی ہے، ان کا پلان اے، بی اور سی سب ہی ناکارہ بنادیے گئے ہیں۔ بغور جائزہ لیں تو کہا جاسکتا ہے کہ پی ٹی آئی الیکشن 2024 سے باہر ہوچکی ہے جو ظاہر کرتا ہے کہ 2024کا الیکشن مائنس پی ٹی آئی ہی ہوگا۔
پی ٹی آئی کا یہ دعویٰ کے وہ ان حالات کے باوجود بہت کچھ حاصل کرسکیں گے، ممکن نظر نہیں آتا، اس کا اعتراف پی ٹی آئی کے معروف قانون دان حامد خان کرتے ہیں۔پی ٹی آئی میں جو لوگ عمران خان کی سخت گیر پالیسی کے مقابلے میں عملاً مفاہمت کے ساتھ آگے بڑھنا چاہتے تھے، ان کو بھی ناکامی کا سامنا کرنا پڑا ہے اور ان کو بھی لگا ہے کہ ان کی مفاہمت پر مبنی پالیسی کے باوجود ان کی جماعت کو کوئی راستہ نہیں دیا گیا۔
بہرحا ل انتخابات 2024جیسے بھی ہوںگے یا کرادیے جائیں گے اورنئی حکومت بھی بن جائے گی۔ لیکن ہمارا سیاسی بحران ختم نہیں ہوگا ۔ ہم مزید انتشار، بگاڑ ،ٹکراو اور محاذ آرائی کے فیز میں داخل ہورہے ہیں۔