سپریم کورٹ اور بلے کا نشان
پی ٹی آئی کو بلے کا نشان نہ ملنا، اس میں کسی کا نہیں، صرف عمران خان اور تحریک انصاف کا اپنا قصور ہے
سپریم کورٹ نے پی ٹی آئی کے فراڈ انٹرا پارٹی الیکشن ثابت ہوجانے پر تحریک انصاف سے عام انتخابات میں بلے کا نشان لے لیا ہے۔
چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں تین رکنی بنچ نے متفقہ فیصلہ دیا ہے کہ تحریک انصاف کے انٹرا پارٹی الیکشن درست نہیں تھے اور اس حوالے سے الیکشن کمیشن کا فیصلہ درست تھا، اس ضمن میں پشاور ہائی کورٹ کے فیصلے کو کالعدم کر دیا گیا ہے۔
یاد رہے کہ گزشتہ دنوں پشاور ہائی کورٹ کے ایک دو رکنی بنچ نے الیکشن کمیشن کو حکم دیا تھا کہ وہ تحریک انصاف کو بلا کا نشان الاٹ کرے اور پی ٹی آئی کے انٹرا پارٹی انتخابات کو قبول کرے ۔ الیکشن کمیشن نے پشاور ہائی کورٹ کے اس فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ میں اپیل دائر کی تھی۔
سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد ملک بھر میں تحریک انصاف کا کوئی امیدوار نہیں ہے، ان کے تمام امیدوار آزاد تصور ہوںگے۔ اس ضمن میں الیکشن کمیشن نے انھیں مختلف انتخابی نشانات بھی الاٹ کر دیے ہیں۔آپ کہہ سکتے ہیں کہ تحریک انصاف کے تمام امیدوار توانتخابی میدان میں موجود ہیں لیکن ان کے پاس نشانات مختلف ہیں۔ وہ اب بے شک عمران خان اور تحریک انصاف کے نام پر ہی جیت کر آئیں لیکن آزاد ہی تصور ہوںگے۔
اب یہ ان امیدواران پر منحصر ہے کہ اگر وہ جیت کر پارلیمان پہنچتے ہیں تو وہ عمران خان اور تحریک انصاف کے وفادار رہتے ہیں یا نہیں۔ اگر وہ چاہیں تو وفادار رہ سکتے ہیں۔ لیکن اگر وہ نہ چاہیں تو ان پر کوئی آئینی اور قانونی دباؤ نہیں ہے، تحریک انصاف انھیں ڈنڈے سے اپنے ڈسپلن میں نہیں رکھ سکے گی۔ وہ اپنی مرضی سے تحریک انصاف کے ڈسپلن میں رہ سکتے ہیں۔
سپریم کورٹ کے فیصلے پر ایک رائے یہ ہے کہ اس سے انتخابات میں لیول پلئنگ فیلڈ کو بہت نقصان پہنچا ہے۔ سپریم کورٹ کو یہ خیال کرنا چاہیے تھا کہ ان کے اس فیصلے سے ایک سیاسی جماعت انتخابات سے آئوٹ ہو جائے گی ، عام انتخابات متنازع ہوجائیں گے ، سیاست میں عدم توزان پیدا ہو جائے گا۔ سپریم کورٹ کو اس فیصلے کے سیاسی محرکات کو بھی سامنے رکھنا چاہیے تھا۔
اگر انٹرا پارٹی انتخابات درست نہیں بھی ہوئے تھے، تب بھی پی ٹی آئی کو عام انتخابات میں حصہ لینے کی اجازت ہونی چاہیے تھی۔ یہ رائے دی جا رہی ہے کہ بہت ظلم ہو گیا ہے،ایک سیاسی جماعت کا قتل ہو گیا ہے۔ پہلے ہی اس کا لیڈر نا اہل ہوگیا ہے، اب اس کی جماعت کو بھی الیکشن سے باہر کر دیا گیا ہے۔
میں سمجھتا ہوں کہ یہ سب خدشات اور دلائل قانون اور آئین کے دائرے میں نہیں ہیں، کسی سیاسی جماعت کو لیول پلئنگ فیلڈ دینا سپریم کورٹ کا کام نہیں ہے۔ سپریم کورٹ کا کام اپنے سامنے آنے والے مقدمات میں قانون اور آئین کے مطابق فیصلہ کرنا ہے۔
سپریم کورٹ '' لیول پلئنگ فیلڈ'' کے فلسفے اور تصور کو سامنے رکھ کر فیصلہ نہیں کر سکتا، قانون میں کہیں نہیں لکھا کہ اگر کوئی جماعت فراڈ انٹرا پارٹی انتخابات بھی کرالے، تب بھی اسے ملکی انتخابات میں حصہ لینے کا صرف اس لیے موقع دے دینا چاہیے کہ اس سے ملک میں لیول پلئنگ فیلڈ خراب ہو جائے گی۔
لیول پلئنگ کی خاطر آئین و قانون کا قتل کہیں بھی جائز نہیں ہے۔ سپریم کورٹ مقدمات کا آئین و قانون کے مطابق فیصلے کرنے کا پابند ہے۔ سپریم کورٹ کے چیف جسٹس اور تمام ججز نے آئین و قانون کی پاسداری کا حلف اٹھایا ہوا ہے۔ انھوں نے لیول پلئنگ فیلڈ فراہم کرنے کا حلف نہیں اٹھایا ہوا ہے۔
پاکستان کا قانون اور آئین صرف انتخابات کو سامنے رکھ کر کسی فرد یا سیاسی جماعت کو کسی بھی قسم کی قانونی رعایت دینے کا حقدار نہیں ٹھہراتا۔ قانون میں کہیں نہیں لکھا کہ اگر انتخابات قریب ہوں تو سیاسی جماعت کوئی بھی غیر قانونی کام کرے ،تب بھی اس کے خلاف کوئی ایکشن نہیں لیا جائے گا۔
قانون میں کہیں نہیں لکھا کہ الیکشن قریب آتے ہی سیاسی جماعت ا ور اس کی قیادت کو آئین وقانون سے استثنیٰ حاصل ہو جائے گا۔ عدالتیں انتخابات کے قریب آتے ہیں قانون کو نہیں لیول پلئنگ فیلڈ کے فلسفہ کو سامنے رکھتے ہوئے فیصلہ کریں گی۔اس لیے مجھے دوستوں کے دلائل مضحکہ خیز لگ رہے ہیں۔
یہ ایسے ہی دلائل ہیں جیسے کچھ دن پہلے پشاور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس نے زرتاج گل کی ضمانت لیتے ہوئے کہا تھا کہ میں نے پشتون روایات کے تحت رات کو عدالت کھولی ہے، اور پشتون روایات کے تحت زرتاج گل کو آدھی رات کو ضمانت دی ہے۔ میں نے تب بھی لکھا تھا کہ پاکستان میں عدالتیں پشتوں روایات یا کسی اور صوبے کی روایات کے تحت فیصلہ نہیں کر سکتی ہیں، عدالتیں صرف اور صرف آئین وقانون کے تحت ہی فیصلے کر سکتی ہیں۔
اگر زرتاج گل کی ضمانت آئین وقانون کے تحت نہیں بلکہ پشتون روایات کے تحت لی گئی ہے تو پھر یہ غیر قانونی ضمانت ہے۔ کیونکہ چیف جسٹس پشاور ہائی کورٹ نے پشتون روایات کی پاسداری کا نہیں بلکہ آئین وقانون کی پاسداری کا حلف اٹھایا ہوا ہے۔ اگر آج پشاور ہائی کورٹ پشتون روایات کے تحت فیصلے کرنے شروع کر دے گا تو اس نظیر کو بنیاد کر کل سندھ ہائی کورٹ سندھی روایات کے تحت فیصلے کرنا شروع کر دے گی۔
بلوچستان ہائی کورٹ بلوچ روایات کے مطابق فیصلے کرنے شروع کر دے گی ۔لاہو ر ہائی کورٹ پنجابی روایات کے تحت فیصلے کرنے شروع کر دے گا۔ پھر آئین وقانون کہاں جائے گا؟ یکساں نظا م انصاف اور یکساں قانون کا سارا نظام عدل زمین بوس ہو جائے گا۔اسی لیے نظر یہ ضرورت کی بھی مخالفت کی گئی تھی۔
نظریہ ضرورت کے مطابق کیے گئے فیصلے چاہے حالات کے مطابق کتنے ہی جائز کیوں نہ ہوں ۔ لیکن وہ آئین وقانون کے مطابق نہیں ہوتے۔ اس لیے نظریہ ضرورت کو دفن کرنے کی بات کی گئی۔ یہ کہا گیا کہ حالات کچھ بھی کہہ رہے ہوں، عدالت کے فیصلے معروضی حالات کو دیکھ کر نہیں، آئین قانون کے مطابق کیے جائیں گے۔
آج بھی جو دوست سپریم کورٹ کو لیول پلئنگ فیلڈ اور دیگر دلائل سے تحریک انصاف کے ساتھ نرمی کا مشورہ دے رہے ہیں، دراصل وہ سپریم کورٹ کو آئین وقانون کے مطابق نہیں بلکہ نظریہ ضرورت کے تحت فیصلہ کرنے کا مشورہ دے رہے ہیں، جو درست نہیں۔
تحریک انصاف کی لیگل ٹیم پر بھی بہت اعتراض کیا جا رہا ہے۔ کہا جا رہا ہے کہ ان کی تیاری نہیں تھی، ان کے دلائل کمزور تھے، وہ بنچ کے سوالات کے تسلی بخش جواب نہیں دے سکے۔ یہ بھی کہاجا رہا ہے کہ بنچ کے سامنے ان کی نالائقی کھل کر سامنے آگئی۔ میں سمجھتا ہوں یہ بھی ٹھیک نہیں ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ ایک کمزور کیس کو اس سے زیادہ لڑا ہی نہیں جا سکتا تھا، پی ٹی آئی کے وکلا نے جو کچھ ہوسکتا تھا، وہ کیا۔ لوگ یہ کیوں نہیں سمجھتے کہ ایک کمزور کیس کا اس سے زیادہ دفاع ممکن ہی نہیں تھا۔ انٹرا پارٹی الیکشن فراڈ تھے، ان کا فراڈ ہونا سب کے سامنے عیاں تھا، لہٰذا ان کا کیسے دفاع کیا جا سکتا تھا۔ بنچ کے جن سوالات کے جواب نہیں دیے جا سکے، ان کے جواب تھے ہی نہیں ۔ وکیل ایک کمزور کیس اس سے زیادہ کیا لڑ سکتا ہے۔
بہر حال جج لائق ہیں، یہ بات پوری قوم کو سمجھ آگئی ہے۔ پی ٹی آئی کو بلے کا نشان نہ ملنا، اس میں کسی کا نہیں، صرف عمران خان اور تحریک انصاف کا اپنا قصور ہے۔اگر شفاف انٹرا پارٹی انتخابات کرا لیے جاتے تو کیا ہوجاتا۔ پندرہ منٹ میں الیکشن کرانے کی کیا ضرورت تھی، دو سال تک الیکشن نہ کرانے کا کیا فائدہ ہوا۔
اگر بروقت انٹرا پارٹی الیکشن کرا لیے جاتے تو آج یہ مشکل نہ ہوتی۔ کھیل کو آخری دن تک تحریک انصاف اور عمران خان خود لے کرگئے ہیں۔کسی کو اس کا ذمے دار نہیں ٹھہرایا جا سکتا۔ عدالت کو ذمے دار قرار دینے کے بجائے اپنے گریبان میں بھی جھانکنے کی ضرورت ہے۔