8 فروری کون بنے گا نیلسن منڈیلا آخری حصہ
اس نئے سفر کے لیے چند اصول طے کرنے ہوں گے۔ سفر کا آغاز اس عہد سے ہوکہ پاکستان ایک وفاق ہے
جنوبی افریقا کی سفید فام اقلیتی حکومت کے ظالمانہ اور سفاکانہ نسلی امتیاز کے سبب یہ ملک عالمی برادری میں 1946سے 1994 تک ایک ناپسندیدہ اور پھر اچھوت کی طرح سمجھا گیا۔
جنوبی افریقا کے ایک سیاہ فام گھرانے میں وہ بچہ پیدا ہوا جو آگے چل کر نیلسن منڈیلا کے نام سے مشہور ہوا۔ جس نے جوانی سے ہی افریقی نیشنل کانگریس کی رکنیت اختیار کی اور جلد ہی اس کا شمار ANC کے اہم رہنماؤں میں ہونے لگا۔
یہی وہ شخص ہے جس نے زیر زمین رہ کر بھی جدوجہد کی اور جب 1962 میں گرفتار ہوا تو ملک کی کنگروکورٹس نے اسے عمر قید کی سزا سنائی۔ نیلسن منڈیلا جس نے ایک نسل پرست حکومت کی جیل میں دس ہزار دن اور دس ہزار راتیں گزاریں جب گرفتار ہوا تھا 44 برس کا تھا اور جب 28 برس جیل کاٹ کر رہا ہوا تو 72 برس کا ہوچکا تھا۔
جسے اپنی قوم کے ذلت آمیز ساڑھے تین صد سالہ تاریخ کا ایک ایک صفحہ ازبر تھا، جس نے اپنے عزیز از جان دوستوں کو نسل پرست حکومت کے ہاتھوں جان سے جاتے دیکھا تھا اور جسے عام اندازے کے مطابق ایک منتقم اور غیض و غضب سے بھرا ہوا انسان ہونا چاہیے تھا وہ جب رہا ہوا تو ایک آزاد انسان کے طور پر اس نے سب سے پہلے اپنے سفید فام جیلر کوگلے لگایا، اس کے دونوں گالوں کو بوسہ دیا اور اسے حیران چھوڑ کر آگے بڑھ گیا۔
اس نے رہائی سے پہلے ہی محسوس کرلیا تھا کہ '' اگر ہم نے جلد ہی مکالمے کا آغاز نہیں کیا تو دونوں فریقوں پر تشدد، جنگ اور ظلم کی ایک گہری، اندھیری اور لامتناہی رات چھا جائے گی۔
میں نے سمجھ لیا تھا کی اب لاکھوں یا ہزاروں جانوں کا زیاں لاحاصل ہوگا کیونکہ ہمارا حریف یہ سمجھ چکا ہے کہ اس کا موقف غلط ہے اور ہم حق پر ہیں چنانچہ اب ہمیں مکالمہ کرنا چاہیے۔''
یہ شخص جس کا نام نیلسن منڈیلا ہے جسے، امن کا پیامبر کہا جاتا ہے اور جو بیسویں صدی کے چند بڑے ناموں میں ایک نام ہے وہ ان دنوں مجھے بہت یاد آتا ہے۔
وہ مجھے اس لیے یاد آتا ہے کہ اس نے رہائی کے بعد اکثریت کے دباؤ میں پسپا ہونے والے اپنے سفید فام حکمرانوں سے اپنی زندگی کے تیرہ و تار 28 برسوں کا حساب نہیں مانگا۔
اس نے اپنی قوم کے ساتھ تین سو برس پر پھیلی ہوئی قتل و غارت گری کا قصاص طلب نہیں کیا اور اپنی جماعت کی عظیم الشان انتخابی جیت کے بعد جس تدبر، تحمل، رواداری اور راست بازی کا مظاہرہ کیا، جدید تاریخ میں اس کی نظیر نہیں ملتی۔
وہ جو کل تک ظالم آقا تھے اور ANC کی شاندار فتح کے بعد ساڑھے تین سو برس کی ستائی ہوئی اکثریت کے رحم و کرم پر تھے، ان میں سے کسی کی نکسیر نہیں پھوٹی، ملک کے طول و عرض میں خونی فسادات نہیں ہوئے۔
اس نے اپنی جماعت کے ایک حلقے کو ناراض کرتے ہوئے سب کو معاف کر دیا۔ اس نے کہا ہم سیاہ فام ہوں، سفید فام ہوں، ہم سب اسی ملک کی مٹی سے اٹھے ہیں اور ہم سب مل کر اس ملک کی تعمیرکریں گے۔ کسی سفید فام سے انتقام نہیں لیا جائے گا اور کوئی سیاہ فام ماضی میں ہونے والے مظالم کا بہی کھاتہ نہیں کھولے گا۔
اس نے سفید فام جماعت کے ایف ڈی کلارک کو بھی ساتھ لیا اور انھیں اپوزیشن میں بٹھانے کے بجائے اپنے ساتھ لے کر ایک قومی حکومت تشکیل دی اور جنوبی افریقا کی ایک ایسی نئی اور انوکھی تاریخ لکھنے میں مصروف ہوگیا جس کے بارے میں کسی کے وہم و گمان میں بھی نہ تھا۔
میں اس شخص کو دیکھتی ہوں اور پھر اپنے ملک کی سیاست پر نظر کرتی ہوں تو مجھے حسرت ہوتی ہے کہ کوئی نیلسن منڈیلا ہمارے درمیان کیوں موجود نہیں۔ ہمارے رہنما درگزر سے کام کیوں نہیں لیتے۔ اپنے سیاسی حریفوں کو انتقام کا نشانہ کیوں بناتے ہیں۔
جمہوری اصولوں کی پاسداری کیوں نہیں کرتے۔ مکالمے کے آغاز کو اپنی انا کا مسئلہ بنانے کے بجائے اس بارے میں آگے بڑھ کر اپنی بڑائی کا ثبوت کیوں نہیں دیتے، چھوٹی چھوٹی رنجشیں اور چشمکیں بھلا کر عوام کی طرف نظرکیوں نہیں جاتی جو سیاستدانوں کی اس جنگ عظیم میں روندے اور کچلے جارہے ہیں۔
غربت جنھیں کھا رہی ہے ، جہالت جنھیں گھن کی طرح چاٹ رہی ہے اور جس کے درد کا درماں کسی کے پاس نہیں۔ ایک ہاتھ میں اگر الزامات کی فہرست ہے تو دوسرا ماضی کے حوالوں سے اپنے جذبہ انتقام کو صبح سے شام تک آسودہ کرتا ہے۔
ایک کے پاس اگر احتجاج کی سیاست ہے تو دوسرے کا رویہ اسے جمہوری روایات کا جزو سمجھ کر اسے نظر انداز کرنے یا ناراض لوگوں کو مکالمے کی میز تک لانے کے بجائے اس احتجاج کو اور زیادہ شدت سے کچلنے کا ہے۔
ہمارے یہاں اب تک کسی سیاسی جماعت نے اپنے سیاسی مخالفین کے ساتھ وہ کچھ نہیں کیا جو کچھ جنوبی افریقا کے سیاہ فاموں کے ساتھ سفید فام حکمرانوں نے کیا۔ ہماری سیاسی جماعتوں کے درمیان نفرت اور عداوت کی 342 برس پرانی کوئی ایسی بھیانک اور چوڑی خلیج تو نہیں جو پاٹی نہ جاسکے ۔
ہمارے یہاں سفید فام اور سیاہ فام کی آویزش نہیں۔ کوئی بڑا نسلی، لسانی، مذہبی یا علاقائی تضاد بھی نہیں۔ دونوں طرف کے لوگ ایک مذہب کے ماننے والے، ایک ملک کے رہنے والے، ایک آئین کو تسلیم کرنے والے اور جمہوری اداروں کو محترم جاننے کا دعویٰ رکھنے والے ہیں۔ تو پھر تحمل اور تدبر سے کام کیوں نہیں لیا جاتا؟
8 فروری کو ہم سب کا امتحان ہے۔ ہمیں ووٹ دینے سے پہلے اپنے رہنماؤں سے یہ وعدہ لینا ہوگا کہ اقتدار میں آنے کے بعد وہ نیلسن منڈیلا جیسا طرز عمل اختیار کرتے ہوئے ایک نئے سفرکا آغاز کریں گے۔ اس نئے سفر کے لیے چند اصول طے کرنے ہوں گے۔ سفر کا آغاز اس عہد سے ہوکہ پاکستان ایک وفاق ہے۔
وفاقی اکائیاں اگر پاکستان کے حق میں ووٹ نہ دیتیں تو یہ ملک کبھی معرض وجود میں نہیں آتا، لہٰذا وفاق کو قائم اور مستحکم رکھنے کے لیے لازمی ہے کہ ہم سب اس عمرانی معاہدے یعنی پاکستان کے آئین کو مقدم اور مقدس جانیں جس پر وفاق پاکستان میں شامل تمام اکائیوں نے اتفاق کیا ہے۔
اس آئین کے تحت وفاق پاکستان کے عوام نے ایک جمہوری عمل کے ذریعے پارلیمنٹ تشکیل دی جو ملک کا قانون ساز ادارہ ہے۔ چونکہ آئین، پارلیمنٹ کا تخلیق کردہ ہے لہٰذا اس میں ترمیم یا تبدیلی بھی پارلیمنٹ کے ذریعے ہی کی جاسکتی ہے۔
اس اعتبار سے پارلیمنٹ کی حاکمیت کو تسلیم کرنا ریاست اور حکومت کے تمام اداروں کا آئینی فرض ہے جس کے لیے ضروری ہے کہ ہر ادارہ متعین کردہ دائرے کے اندر رہ کر کام کرے اور منتخب پارلیمنٹ کے معاملات میں کسی بھی جانب سے کوئی مداخلت نہ کی جائے۔
اس اصول پرکاربند رہنے کا سب عہد کریں کہ پاکستان کے ہر شہری کو مساوی اور یکساں حقوق حاصل ہیں اور اس ضمن میں ان کے درمیان کوئی تفریق روا نہیں رکھی جائے گی اور پاکستان کو حقیقی معنوں میں ایک وفاقی جمہوری ملک بنا دیا جائے گا۔
ان اصولوں پر اتفاق رائے کیے بغیر ملک میں 75سال سے جاری وہ سیاسی کشمکش اور محاذ آرائی ختم نہیں ہوگی جس کے نتیجے میں پہلے متحدہ پاکستان دو ٹکڑے ہوا اور اب باقی ماندہ پاکستان بھی معاشی طور پر دیوالیہ ہونے سے چند قدم دور رہ گیا ہے۔
اب دیکھتے ہیں 8 فروری کے بعد کیا کوئی سیاسی رہنما، نیلسن منڈیلا کی طرح آگے بڑھ کر پاکستان کو بدترین سیاسی تقسیم اور محاذ آرائی سے نکالنے اور ترقی کی شاہراہ پرگامزن کرنے کا تاریخی کردار ادا کرے گایا نہیں؟