کرام ویل اور برطانوی جمہوریت

کرام ویل نے برطانیہ میں خانہ جنگی کے خاتمے اور ایک ملک کے طور پر متحدہ کرنے میں اہم کردار اد ا کیا


Dr Tauseef Ahmed Khan January 17, 2024
[email protected]

برطانیہ کو جدید منظم ملک بنانے اور ریاستی اداروں کے قیام میں کرام ویل Crom Well کا ایک اہم کردار تھا،کرام ویل 1599 میں پیدا ہوئے، ان کا تعلق ایسٹ انگلینڈ کے چھوٹے زمیندار خاندان سے تھا۔ کرام ویل 1628ئ، 1629 اور 1640 سے 1642تک پارلیمنٹ کے رکن رہے۔

یہ وہ وقت تھا جب برطانیہ صنعتی معاشرے کی طرف بڑھ رہا تھا۔ لیفٹیننٹ جنرل اولیورکرام ویل برطانیہ کی خانہ جنگی کے دوران پارلیمانی کمانڈر کہا جاتا تھا۔ کرام ویل کو لارڈ پروٹیکٹر Lord Protactor کا اعزاز دیا گیا۔ 15ویں اور 16ویں صدی میں برطانیہ میں خانہ جنگی عروج پر تھی۔

کرام ویل نے برطانیہ میں خانہ جنگی کے خاتمے اور ایک ملک کے طور پر متحدہ کرنے میں اہم کردار اد ا کیا۔ برطانیہ کی تاریخ کے مطالعے سے پتا چلتا ہے کہ اس عرصے میں آئرلینڈ اور اسکاٹ لینڈ کے خلاف دو جنگیں لڑی گئیں۔

ایک جنگ Marston Moor اور دوسری جنگ Nasebyکے نام سے مشہور ہوئی۔ کرام ویل نے ان دو جنگوں میں برطانیہ کی پارلیمنٹ کی کامیابی کے لیے کامیاب حکمت عملی اختیارکی۔ کرام ویل کا عسکری کیریئر 1641ء سے شروع ہوا۔

کرام ویل نے برطانیہ کی ماڈل آرمی کے قیام میں اہم کردار ادا کیا۔ کرام ویل نے کنگ چارلس کے سزائے موت کے وارنٹ کے اجراء میں اہم کردار ادا کیا تھا۔ کرام ویل نے برطانیہ میں نچلی سطح کے بلدیاتی نظام کو استوار کرنے میں اہم اور مؤثر کردار ادا کیا تھا۔

بتایا جاتا ہے کہ خانہ جنگی کے دوران پارلیمنٹ کو برخاست کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔ کرام ویل کی زندگی کا خاتمہ فطری طور پر ہوا، مگر پھر پارلیمنٹ کی بحالی کے بعد کرام ویل کو سزائے موت دی گئی۔ یوں ریاست پر پارلیمنٹ کی بالادستی کا نظریہ قائم ہوا۔

پاکستان جمہوریت کے نام پر قائم ہوا۔ ملک کے قیام کے 7 سال بعد 1954میں تیسرے گورنر جنرل جنرل غلام محمد نے پہلی آئین ساز اسمبلی توڑ دی، صوبائی اسمبلیوں نے دوسری آئین ساز اسمبلیوں کا انتخاب کیا۔ اس آئین ساز اسمبلی نے 1956کا آئین بنایا۔

اسکندر مرزا پہلے منتخب صدر بنے مگر اسکندر مرزا نے 1958 میں آئین منسوخ کر کے ملک میں مارشل لاء نافذ کر دیا، یہ ملک کا دوسرا مارشل لاء تھا۔ 1962 میں جنرل ایوب خان نے اپنا آئین نافذ کیا۔ 1958 میں جنرل ایوب خان اسکندر مرزا کو اقتدار سے ہٹا کر خود صدر بن گئے اور 1962میں اپنی مرضی کا صدارتی نظام پر مشتمل آئین نافذ کیا مگر 1969 میں عوامی تحریک کا دباؤ برداشت نا کرسکے اور ایوب خان نے اپنا 1962کا آئین منسوخ کیا اور اقتدار فوج کے سربراہ جنرل یحییٰ خان کو سونپ دیا۔ 16 دسمبر 1971کو سقوط ڈھاکا ہوا۔

1973 میں پارلیمنٹ نے متفقہ آئین بنایا جس کی شق نمبر 6کے تحت آئین کو توڑنے کو غداری قرار دیا گیا، مگر جنرل ضیاء الحق نے 5 اگست 1977کو 1973کا آئین معطل کیا اور ملک میں مارشل لاء نافذ کیا۔ 1985 میں آئین میں کی گئی 8 ویں ترمیم کر کے آئین توڑنے کے عمل کو قانونی تحفظ فراہم کیا۔

جنرل ضیاء الحق نے 1985 میں غیر جماعتی بنیادوں پر قومی اسمبلی کے انتخابات کرائے اور محمد خان جونیجو کو وزیر اعظم نامزدکیا۔ جنرل ضیاء الحق نے 1988 میں محمد خان جونیجو کی حکومت کو برطرف کر دیا۔ بعد مین جنرل ضیاء الحق اپنے ساتھیوں سمیت طیارے کے حادثے میں مارے گئے ۔

جنرل مشرف نے 1999 میں سابق وزیر اعظم میاں نواز شریف کی حکومت کو برطرف کیا اور آئین معطل کیا۔ بعد میں سپریم کورٹ کے چیف جسٹس پر مشتمل فل بنچ نے صدر مشرف کی آئین توڑنے کی کارروائی کوایک فیصلے کے تحت قانونی تحفظ فراہم کیا۔

جنرل پرویز مشرف نے 2007 میں دوسری دفعہ صدارتی انتخاب میں حصہ لینے کا فیصلہ کیا تو ان کے اس اقدام کو سپریم کورٹ میں چیلنج کیا گیا۔ جنرل مشرف نے ملک میں ایمرجنسی نافذ کی اور عبوری آئینی حکم (P.C.O) نافذ کر کے سپریم کورٹ کے چیف جسٹس اور ججوں کو برطرف کیا۔

سابق وزیر اعظم میاں نواز شریف کے دورِ اقتدار میں جنرل مشرف کے آئین کو معطل کر کے ایمرجنسی نافذ کرنے کو آئین توڑنے کے مترادف قرار دیا گیا اور ان کے خلاف آرٹیکل 6کے تحت غداری کے مقدمہ کے لیے ایک خصوصی عدالت قائم کی گئی جس کا سربراہ جسٹس وقار سیٹھ کو بنایا گیا۔ اس مقدمے کی سماعت کے دوران جنرل مشرف کبھی عدالت میں پیش نا ہوئے ۔

خصوصی عدالت نے آئین کے آرٹیکل 6کی خلاف ورزی پر جنرل پرویز مشرف کو موت کی سزا سنائی۔ بعد میں لاہور ہائی کورٹ کے تین رکنی بنچ نے جس کی سربراہی جسٹس مظاہر علی نقوی کر رہے تھے خصوصی عدالت کے فیصلے کو معطل کیا، یہ فیصلہ 2019 میں ہوا تھا۔

سابق صدر پرویز مشرف نے جسٹس وقار احمد سیٹھ کے فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ میں اپیل دائرکی تھی مگر اس اپیل کی سماعت نہیں ہورہی تھی۔ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اور تین ججوں پر مشتمل بنچ نے لاہور ہائی کورٹ کے خصوصی عدالت کے فیصلے کو ختم کر کے جنرل پرویز مشرف کی سزائے موت برقرار رکھی۔ جس دن سپریم کورٹ نے یہ فیصلہ کیا جسٹس مظاہر اکبر نقوی جن کے خلاف سپریم جوڈیشل کونسل میں ریفرنس زیرِ سماعت ہے نے استعفیٰ دیدیا ۔

سپریم کورٹ کے اس فیصلے سے 700سال قبل برطانیہ میں سول وار کے ہیرو کرام ویل کو بعد از مرگ موت کی سزا کے فیصلے کی یاد تازہ ہوگئی، اگرچہ کرام ویل نے برطانیہ میں خانہ جنگی ختم کرکے جمہوری اداروں خاص طور پر مقامی حکومتوں کے قیام کے لیے نمایاں خدمات انجام دی تھیں اور وہ ایک قومی ہیروکی حیثیت اختیار کر گئے تھے مگر عوام کے ووٹوں سے قائم ہونے والی پارلیمنٹ کو توڑنے کے جرم میں انھیں علامتی سزائے موت دے کر پارلیمنٹ کی بالادستی کے تصور کو مستحکم کردیا تھا ۔

اس وقت ملک ایک مخمصے کا شکار ہے۔ سپریم کورٹ کے فیصلے کے تحت 8 فروری کو انتخابات ہونے ہیں مگر کئی سیاسی جماعتیں اور سینیٹ کے بارہ تیرہ آزاد اراکین انتخابات کو ملتوی کرنے کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ پی ٹی آئی انتخابی نشان سے محروم ہوچکی ہے، پی ٹی آئی کا دعویٰ ہے کہ انتخابی عمل کی حیثیت کم ہوگئی ہے۔

مبصرین کی یہ رائے ہے کہ اگر عام انتخابات چند ماہ کے لیے ملتوی ہوئے تو پھر دوبارہ انتخابات بہت مشکل ہوجائیں گے۔ جسٹس فائز عیسیٰ کے فیصلے سے ایک امید پیدا ہوگئی ہے کہ اب پاکستان میں کوئی طالع آزما آئین کو سبوتاژ نہیں کرے گا۔ ملک کے آئین کے تحت قومی اسمبلی، سینیٹ اور صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات منعقد ہوںگے اور عوام کی بالادستی کے اصول کی ہر ادارہ پاسداری کرے گا۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں