مقامی حکومتوں کا مقدمہ


Dr Tauseef Ahmed Khan January 18, 2024
[email protected]

عام انتخابات کا زمانہ ہے۔ سیاسی جماعتیں رائے عامہ ہموار کرنے کے لیے منشور پیش کر رہی ہیں۔ جمہوری نظام میں وفاق اور صوبوں کے ساتھ مقامی حکومتوں کی بنیادی اہمیت ہے۔

اب تک جن سیاسی جماعتوں کے منشور شایع ہوئے ہیں ان میں صرف متحدہ قومی موومنٹ نے مقامی حکومتوں کو آئینی حیثیت دینے کا مطالبہ اپنے منشور میں شامل کیا ہے۔

معروف دانشور، محقق اور تجزیہ نگار سلمان عابد کا شمار ان چند لوگوں میں ہوتا ہے جو مسلسل مقامی حکومتوں کی اہمیت کو اجاگرکرتے رہتے ہیں۔

سلمان عابد نے گزشتہ سال مقامی حکومتوں کا مقدمہ '' سیاست، جمہوریت، عدم مرکزیت اور شفاف حکمرانی'' کے عنوان سے ایک کتاب تخلیق کی تھی۔ سلمان عابد نے 392 صفحات پر مشتمل اس کتاب میں مقامی حکومتوں کے ارتقائ، دنیا کے مختلف ممالک کی مقامی حکومتوں کے ماڈلز، پاکستان میں بلدیاتی اداروں اور مقامی حکومتوں کے ارتقاء اور اس بارے میں رائج ہونے والے قوانین کا تفصیلی جائزہ لیا ہے۔

اس کتاب کا ابتدائیہ پروفیسر ڈاکٹر رسول بخش رئیس نے تحریر کیا ہے اور '' جمہوریت کی کنجی '' کے عنوان سے ڈاکٹر محمد نظام الدین کی ایک معلوماتی تحریرکو شامل کیا ہے، یہ کتاب آٹھ ابواب پر مشتمل ہے۔

سلمان عابد نے کتاب کے پیش لفظ میں لکھا ہے کہ یہ کتاب بنیادی طور پر پاکستان، جنوبی ایشیاء اور دنیا کے مختلف ممالک میں ہونے والے اچھے جائزے مقامی حکومتوں کے تجربات کی بنیاد پر ہیں۔

مصنف کا بیانیہ ہے کہ اس کتاب کو لکھنے کا بنیادی مقصد پاکستان کی سیاست اور جمہوریت کے تناظر میں مقامی حکومتوں کے نظام کی بحث کو نا صرف آگے بڑھانا ہے بلکہ ایک مضبوط مقامی نظام حکومت کو سیاسی پیرائے میں لانا ہے کیونکہ جب تک ہم مقامی حکومتوں کے نظام کو قومی بیانیہ یا ایک بڑی سطح کی سیاسی بحث کے طور پر نہیں منوائیں گے مقامی نظام مضبوط نہیں ہوسکے گا اور اس کا براہِ راست تعلق اس ملک کی شفافیت پر مبنی حکمرانی کے نظام سے جڑا ہوا ہے۔

معروف دانشور لاہورکی ایک یونیورسٹی کے پروفیسر ڈاکٹر رسول بخش رئیس اپنے ابتدائیہ میں لکھتے ہیں کہ یہاں انگریزوں کے آنے سے پہلے کئی حکمران سلطنتیں صدیوں سے بنتی اور بگڑتی رہیں مگر لوگ مقامی سطح پر اپنے مسائل خود ہی حل کرتے ہیں۔ کہیں جرگہ کی صورت میں اور اکثر گلیوں پر پنچایتی حکومتیں قائم ہیں۔

ڈاکٹر رئیس مزید لکھتے ہیں کہ یہ کہنا بھی ضروری ہے کہ امریکا میں ریاستوں نے وفاق کو پیدا کیا۔ اس لیے اختیارات کا توازن پہلے ڈیڑھ سو سال تک ان کے حق میں رہا۔ اسی طرح مقامی اور شہری حکومتوں کو خود مختاری دی گئی۔

ایسی مثالیں کسی اور ملک میں نہیں ملتیں۔ گجرات یونیورسٹی کے سابق وائس چانسلر ڈاکٹر محمد نظام الدین نے جمہوریت کی کنجی کے عنوان سے لکھا ہے کہ جنوبی ایشیاء میں حکمرانی کے نظام کی شفافیت ایک اہم مسئلہ ہے۔

ڈاکٹر نظام اپنے اس مقالے میں لکھتے ہیں کہ جو لوگ بھی مقامی حکومتوں کی بحث کو سمجھنا چاہتے ہیں، انھیں اس کتاب سے ضرور استفادہ کرنا چاہیے۔

اس کتاب کے پہلے باب کا عنوان '' پاکستان میں جمہوریت کا مقدمہ '' ہے۔ مصنف نے اپنا بیانیہ یوں ترتیب دیا ہے کہ اگرچہ پاکستان میں آمرانہ حکومتوں کے بعد جمہوری حکومتیں بھی آئیں لیکن سیاسی وجمہوری حکومتوں کا یہ المیہ رہا کہ انھوں نے طرزِ حکمرانی اور جمہوری سوچ اور کلچر کی بنیاد پر نا تو اچھی حکمرانی کی نا ہی آمرانہ مداخلت کا راستہ روکا۔ مصنف نے اپنے دلائل کو تقویت دینے کے لیے عوامی مؤرخ ڈاکٹر مبارک علی کی کتاب '' پاکستان میں جمہوریت ایک تجربہ'' سے مدد لی ہے۔

بقول ڈاکٹر مبارک اس کی مثال جرمنی کا معاشرہ ہے جس نے پہلی جنگ عظیم کے بعد نازی پارٹی کے اقتدار میں ایک سمٹ فاشسٹ حکومت کا تجربہ کیا جس میں گیٹالو یا خفیہ ایجنسی لوگوں کی حرکات و سکنات پر نظر رکھتی تھیں۔

حکومت کے خوف سے ہر شخص سہما اور ڈرا ہوا تھا۔ دوسری جنگ عظیم کے دوران جرمن قوم کو بھاری قیمت ادا کرنی پڑی۔ تباہی کے بعد جرمنی نے خود کو سنبھالا اور جمہوری نظام کو قائم کیا۔ انھوں نے اس تجربے سے یہ سیکھا کہ مستقبل میں آمریت کو کیونکہ ا ور کس طرح سے روکا جاسکتا ہے۔

مصنف کتاب کے دوسرے باب '' جمہوریت اور حکومتیں'' کے عنوان سے لکھتے ہیں کہ 1973کے آئین کی شق 141-A تمام صوبائی حکومتوں کو پابند کرتی ہے کہ وہ تین کاموں کو یقینی بنائیں گے۔

اول، صوبائی حکومتیں پابند ہیں کہ وہ اپنے صوبوں میں مقامی حکومتوں کے انتخابات کے بروقت انعقاد کو یقینی بنائیں گی۔ دوئم، مقامی حکومت کے نظام کو سیاسی، انتظامی اور مالی اختیارات دیے جائیں اور اس نظام میں اختیارات بیوروکریسی کے مقابلے میں عوام کے منتخب نمایندوں کو دیے جائیں لیکن آئین پرکسی حد تک صوبائی حکومتوں نے عملدرآمد کیا وہ 2015میں بنائے گئے مقامی حکومتوں کے نظام میں ملتا ہے۔

مصنف کا کہنا ہے کہ مقامی حکومتوں کا عروج صنعتوں کی قوت رفتار سے جڑا ہوا ہے۔ 19ویں صدی کے آغاز سے پہلے مقامی حکومت کا نظام ملک میں امن کا قیام عمل میں لانا تھا جس کے لیے ممالک مل کر کام کرتے تھے تاکہ لوگوں کی بنیادی ضروریات کو پورا کیا جاسکے، ان کا کام عام طور پر انتظامی اور عدالتی ہوتا تھا۔

19ویں صدی کے درمیانی حصے میں یورپی تاریخ نے شہری زندگی کا عروج دیکھا ہے جوکہ صنعتی ترقی کی وجہ سے وجود میں آیا ہے جس کی وجہ سے زراعت پر انحصار کم ہوا۔ آبادی کی دیہی علاقوں سے شہروں میں منتقلی کی وجہ سے بہت سے مسائل پیدا ہوئے، جن میں آبادی کا بڑھنا، صحت کے مسائل اور قانون کا نفاذ شامل ہے۔

موجودہ دور شہری علاقوں کو ناکافی ضروریات فراہم کرتا ہے۔ کتاب کے دوسرے باب ''جمہوریت اور مقامی حکومتیں'' میں بتایا گیا ہے کہ ہماری حکمرانی کا ایک بڑا المیہ یہ بھی ہے کہ ہم نے ملک میں اداروں کو خود مختار نہیں بنایا، جب تک حکومت یا ریاست کی سطح پر حکمرانی کے نظام کی نگرانی کا مؤثر نظام نہیں ہوگا تو نا تو نظام کی اصلاح ہوسکے گی نا ہی کوئی کسی کے سامنے جوابدہ ہوگا۔

اس کتاب کے چھٹے باب کا عنوان ''وفاق اور صوبائی حکومتوں کی ترجیحات'' ہے۔ اس باب میں کہا گیا ہے کہ صوبائی حکومتیں مقامی حکومتوں کے نظام میں سب سے زیادہ استحصال کر رہی ہیں۔ انھوں نے زیادہ سے زیادہ انتظامی اور مالی اختیارات کو اپنے پاس رکھ کر اس نظام کوکمزور بنایا ہے۔ اس کھیل میں اس کو وفاقی حکومت کی حمایت حاصل ہے۔

وفاقی اور صوبائی حکومتوں کا یہ گٹھ جوڑ مقامی وسائل کی تقسیم کے خلاف ہے۔ '' بڑے شہروں کی منصوبہ بندی '' کتاب کا ایک اور موضوع ہے۔ مصنف کا کہنا ہے کہ بڑے شہروں میں ایک طرف قومی اور صوبائی اسمبلی کے منتخب لوگ ہوتے ہیں تو دوسری طرف مقامی حکومتوں کے منتخب نمایندے ان کے درمیان ترقی کے عمل میں سے توازن پیدا کیا جائے اور ان سب کا دائرہ کار کیا ہو اس پر بھی سوچ وبچارکرنا ہوگی۔

مصنف نے سیاسی جماعتوں کے انتخابی منشور پر لکھا ہے کہ ملک کی نمایاں جماعتیں مقامی حکومتوں کے بارے میں کوئی مؤثر رائے نہیں رکھتیں۔

ان جماعتوں کے انتخابی منشور میں مقامی حکومتوں کے بارے میں تواترکے ساتھ انتخابات کی بات تو کرتی ہیں مگر ان کے دورِ حکومت میں کبھی یہ تسلسل نہیں ملتا۔ مصنف نے ملک میں بلدیاتی اداروں اور مقامی حکومتوں کے بارے میں ہونے والی قانون سازی کا بھی جائزہ لیا ہے، اگر سیاسی رہنما اس کتاب کا سنجیدگی سے مطالعہ کر لیں تو مقامی حکومت کے نظام کے بارے میں ان کے خیالات تبدیل ہوسکتے ہیں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔