پاک ایران کشیدگی اور غیر ریاستی عناصر

دہشت گرد گروہ دنیا بھر میں بلیک اکانومی کا اہم ہتھیار بن چکے ہیں


Editorial January 19, 2024
دہشت گرد گروہ دنیا بھر میں بلیک اکانومی کا اہم ہتھیار بن چکے ہیں۔ فوٹو: فائل

پاکستان نے سرحدی خلاف ورزی پر ایران کے سفیرکو ملک بدرکرنے کا فیصلہ کیا ہے جب کہ ایران سے اپنے سفیر کو بھی واپس بلانے کا اعلان کیا ہے۔

دوسری جانب ایران کے میزائل حملے کے جواب میں پاکستان کی جانب سے ' آپریشن مرگ بر سرمچار ' کی صورت میں بھرپور جواب دے دیا گیا ہے۔ ترجمان کے مطابق پاکستان کئی سالوں سے ایران میں دہشت گردوں کی پناہ گاہوں پر تحفظات کا اظہارکرتا رہا ہے، پاکستان نے دہشت گردوں کی موجودگی سے متعلق متعدد ڈوزیئر بھی شیئر کیے۔

پاکستان اور ایران کے درمیان بارڈر کنٹرول مینجمنٹ سسٹم کا باضابطہ میکنزم موجود ہے، جس کے تحت کسی بھی مسئلے پر ہاٹ لائن، ریڈیو فریکوئنسی یا ٹیلیفون کے ذریعے رابطہ کیا جاتا ہے۔

یہی نہیں ضرورت کے مطابق دونوں ملکوں کے سرحدی حکام اہم ایشوز پر فلیگ میٹنگ بھی کرتے ہیں، اگر ایران کو مطلوب کوئی دہشت گرد پاکستانی حدود میں تھا تو پاکستان کو مطلع کیا جانا لازم تھا، لیکن ایرانی حکام نے دوطرفہ میکنزم کے اصول کی پاسداری نہیں کی اور پاکستان کی حدود میں اپنے مطلوبہ ٹارگٹ کو نشانہ بنایا۔ یہ صورتحال کسی بھی طور اچھی نہیں ہے ،دونوں ملکوں کے درمیان 900 کلومیٹر سے زائد طویل مشترکہ سرحد ہے جب کہ پاک افغان سرحد ڈھائی ہزار کلومیٹر سے زائد ہے۔

دنیا ایسے دور سے گزر رہی ہے جہاں دہشت گرد گروہ ریاستوں کے لیے خطرات بن رہے ہیں۔دہشت گرد گروہ سرحدوں کے آرپار کارروائیاں کرتے ہیں، ان کی وجہ سے آرگنائزڈ اورساورن اسٹیٹس کے درمیان جنگ کے خطرات مسلسل بڑھ رہے ہیں۔

دہشت گرد گروہ دنیا بھر میں بلیک اکانومی کا اہم ہتھیار بن چکے ہیں، منظم ریاستوں کو غیرمستحکم کرنا ، دہشت گردوں کے ماسٹر مائنڈز ، فنانسرز اور بینفیشریز کے مفادات کا تحفظ اسی صورت ممکن ہوتا ہے جب ریاستوں کا سسٹم ٹوٹ جائے، ریاستیں غیرمستحکم ہو جائیں، ریاستیں ایک دوسرے کے ساتھ جنگ میں الجھ جائیں۔ایرانی حکام نے جو راستہ اختیار کیا ہے۔

اس کا فائدہ صرف دہشت گردوں کو ہوگا کیونکہ ان کی کوشش ہے کہ جنگ کے شعلے بھڑک اٹھیں۔پاکستان کے لیے لازم ہوگیا تھا کہ وہ جواب دے،اس خطے میں بیلنس آف پاور کو برقرار رکھنے لیے پاکستان کا جواب دینا لازم ہوچکا تھا۔

پاکستان نے انتہائی تیزی سے ایرانی بلوچستان، سیستان کے علاقے میں موجود بی ایل اے اور بی ایل ایف کے ٹھکانے کو نشانہ بنایا،اس اسٹرائیک کو مرگ بر سرمچار کا نام دیا گیا ہے اور یہ اپنے اہداف کے حوالے سے سوفیصد کامیاب رہی ہے۔

پاکستان اور ایران کے درمیان تعلقات ہمیشہ اچھے رہے ہیں۔ایران میں انقلاب کے بعد بھی پاکستان اور ایران کے درمیان دوستانہ تعلقات میں کوئی فرق نہیں آیا ہے لیکن حالیہ چند برسوں میں حالات نے کروٹ لی ہے تاہم اس کے باوجود دونوں ملک ایک دوسرے کے کردار سے مطمئن رہے۔

البتہ ایران نے مشرق وسطیٰ کی سیاست میں اپنی پراکسی کے ذریعے اپنا اثر و رسوخ بڑھایا ہے ۔ایران یمن میں حوثیوں کی کھل کر مدد کررہا ہے جب کہ لبنان میں حزب اﷲ کی مدد کررہا ہے البتہ مشرق وسطیٰ میں داعش کے خلاف لڑنے والے گروپوں کو ایران نے سپورٹ کیا ہے۔

ایران عراق اور شام میں پھنسا ہوا ہے ، امریکا کے ساتھ ایران کا تنازعہ کسی سے ڈھکا چھپا نہیں ہے،ایرانی معیشت سخت دباؤ میں ہے کیونکہ اس پر کئی عالمی پابندیاں عائد ہیں۔ عالمی سطح پر پہلے ہی تنہا ایران کے لیے ایسی کارروائیاں کوئی اچھا فیصلہ ثابت نہیں ہوگا اور اس کی آئسولیشن مزید بڑھے گی۔

ایران پر عالمی پابندیوں کے باوجود پاکستان، ایران کی مدد کر رہا تھا لیکن اب پاکستان کے لیے کسی بھی عالمی ایشو پر ایران کی حمایت کرنا ممکن نہیں رہا ہے۔

ایران کی جانب سے پاکستان کے ساتھ کشیدگی بڑھانے کی وجہ واضح نہیں لیکن شاید وہ مغربی دنیا کو اپنے ہمسایوں کے ذریعے یہ پیغام دینا چاہتا تھا کہ وہ کسی قسم کا دباؤ برداشت نہیں کرے گا۔ دوسری طرف پاکستانی سر زمین پر حملے کو اس نقطہ نظر سے بھی دیکھا جا سکتا ہے کہ یہ مقامی سطح پر پذیرائی حاصل کرے اور اسے سراہا جائے۔

کبھی ایسا نہیں ہوا کہ دونوں ممالک کے درمیان سرحدی کشیدگی اس نہج پر جا پہنچے جو اب دیکھی جا رہی ہے۔ کشیدگی میں حالیہ اضافے کے دوران پاکستان نے حد سے زیادہ ردِ عمل ظاہر کرنے سے گریزکیا، جو مثبت عمل ہے۔

پاکستان کی سرزمین پر ' جیش العدل' پر ایرانی حملہ ایک ایسے وقت میں ہوا جب دونوں ملکوں کے حکام ، پاکستان کے نگران وزیر اعظم انوار الحق کاکڑ اور ایرانی وزیر خارجہ حسین امیر عبد اللہیان، ڈیوس میں ورلڈ اکنامک سمٹ کے دوران ملاقات کر رہے تھے۔

درحقیقت پاکستان اور ایران خطے میں ایک ہی چیلنج کا سامنا کر رہے ہیں۔ پاک، ایران سرحد بہت طویل اور کھلی ہوئی ہے۔ انسانوں کے اسمگلرز بھی انھی باتوں کا فائدہ اٹھاتے ہوئے، غیر قانونی طور پر لوگوں کو یورپ بھجوانے کے واسطے، انھیں ایران میں داخل کر دیتے ہیں جب کہ اس علاقے میں منشیات اسمگلر بھی ایک مسئلہ ہیں، لیکن اس وقت بطورِ خاص بین السرحدی عسکریت پسندی کا مسئلہ درپیش ہے، جس کے اندر دونوں ملکوں کے باہمی تعلقات کو نقصان پہنچانے کی بھرپور صلاحیت موجود ہے۔

پاکستان اور ایران، دونوں کو سرحدی علاقوں میں بدامنی کا سامنا ہے ۔ 2014 سے سیستان و بلوچستان سرحد کی 300 کلو میٹر کے حساس علاقوں کی ذمے داری پاسداران انقلاب کو دی گئی تھی۔ یہاں وہ علاقہ بھی شامل ہے جس کی سرحد ایران، پاکستان اور افغانستان سے ملتی ہے۔

مغربی اور عرب ممالک اکثر ایران پر خطے میں عدم استحکام پھیلانے کا الزام لگاتے ہیں، مگر اب پاکستانی سرزمین پر حملہ ایک ایسی بازی ہے جو شاید وہ نتائج نہ دے سکے جو اس کی حکمت عملی بنانے والے چاہتے تھے۔

خطے میں ایرانی سرگرمیوں اور سفارتی میدان میں اس نے تہران کے لیے بڑی مشکلات کھڑی کی ہیں جن کا مقابلہ کرنا آسان نہیں ہوگا۔ غزہ میں تین ماہ سے زیادہ عرصے سے جاری اسرائیلی بربریت پر دنیا کو لگتا ہے کہ یہ معاملات کو آہستہ آہستہ ایک بڑی جنگ کی جانب دھکیل رہی ہے۔ بحرہ احمر میں بھی آگ لگی ہوئی ہے اور امریکا نے چوتھی بار حوثی ملیشیا پر حملے کیے ہیں۔

امریکا، برطانیہ اور دیگر مغربی حامی ممالک اسرائیل کو نا تو جنگی جنون سے روک پا رہے ہیں اور نا ہی عالمی عسکری حدت کو قابل قبول سطح پر رکھنے میں کامیاب ہو پا رہے ہیں، لیکن بدقسمتی یہ ہے کہ کئی عالمی عناصر یہی چاہتے تھے جو اس وقت پاک ایران سرحد پر ہو رہا ہے۔ وہ چاہتے ہیں کہ یہ دو مسلمان ہمسایہ ملک گتھم گتھا ہوجائیں۔

چین جس کی پاکستان اور ایران دونوں بات اگر مانتے نہیں تو سنتے ضرور ہیں ثالثی کا اس وقت کردار ادا کرسکتا ہے۔ چین نے ایران کی سعودی عرب کے ساتھ کشیدگی میں کمی لانے میں بھی کردار ادا کیا ہے ۔

پاکستان کی ایران کے ساتھ تقریباً ایک ہزار کلومیٹر طویل مشترکہ سرحد حالیہ کارروائی سے سیکیورٹی اعتبار سے مستحکم نہیں بلکہ غیرمستحکم ہوگئی ہے۔

پاکستان اپنے بڑے شہروں جیسے کہ کراچی اور بلوچستان کے کئی علاقوں میں تسلسل سے جاری حملوں میں ملوث ان عسکریت پسندوں کے خلاف ایران سے مطالبہ کرتا رہا ہے جن کی پناہ گاہیں اور اڈے پڑوسی ملک میں ہیں۔

دوسری جانب ایران بھی بعض ایران مخالف شدت پسند تنظیموں کی بلوچستان میں موجودگی اور ان کے خلاف کارروائی کا مطالبہ کرتا رہا ہے۔ شکایات تو دونوں کو تھیں لیکن کسی حد تک تعاون بھی جاری تھا۔

پاکستانی اور ایرانی سیکیورٹی فورسز کی صلاحیت کے پیش نظر ایسا نہیں لگتا کہ دونوں ملکوں کے لیے اپنے سرحدی علاقوں میں شدت پسند تنظیموں کے خلاف کارروائیاں کرنا زیادہ سخت اور پیچیدہ کام ہوگا، لیکن دونوں ممالک کے سرحدی، سیکیورٹی اور پولیس کے اعلی عہدیداروں کی ملاقاتوں کے نتیجے میں دہشت گردی کے خلاف مشترکہ مہم اور سرحدوں پر سیکیورٹی بڑھانے کے لیے کئی معاہدوں کے باوجود ایسا لگتا ہے کہ انھیں سنجیدہ نہیں لیا گیا ہے۔

چین اور روس کے عالمی منظر پر ابھرنے کے بعد جنوبی ایشیاء میں امریکا کا اثر و رسوخ کم ہوا ہے۔ چین ،روس، پاکستان اور ایران ایک دوسرے کے قریب آنے لگے ہیں۔ پاک چین اقتصادی راہداری نے ریجن کو متاثرکیا ہے۔ چین ''معاشی کارڈ'' استعمال کرکے عالمی قیادت کے حصول کے راستے پر گامزن ہے۔

چین پاکستان اور ایران دونوں ممالک میں بھاری سرمایہ کاری کررہا ہے، لہذا پاکستان اور ایران ایک دوسرے کے قریب آرہے ہیں۔ بھارت بھی ایران میں سرمایہ کاری کررہا ہے مگر چین کی جنوبی ایشیا میں بالادستی کی وجہ سے بھارت کی سازش کامیاب نہیں ہوسکے گی۔

اس کی پوری کوشش ہے کہ افغانستان اور ایران کے پاکستان سے تعلقات کشیدہ رہیں تاکہ پاکستان ''سینڈوچ'' بن کررہ جائے۔ پاکستان اور ایران اس خطے کے اہم ممالک ہیں، اس خطے میں موجود نان اسٹیٹ ایکٹرز چاہتے ہیں کہ ان کے درمیان جنگ کے شعلے بھڑک اٹھیں تاکہ ان کے خلاف آپریشن نہ ہوسکے ۔

ایران کی قیادت کو حالات کی سنگینی کا احساس کرنا چاہے کیونکہ پاکستان اپنی سرحدوں کی خلاف ورزی پر چپ نہیں رہ سکتا ہے ، کشیدگی دونوں ملکوں کے لانگ ٹرم مفاد میں نہیں ہوگی۔ ایران اور پاکستان کا مستقبل اور استحکام ایک دوسرے کے ساتھ جڑا ہوا ہے لہذا دونوں ہمسائے کسی صورت کشیدگی اور تناؤ کے متحمل نہیں ہوسکتے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں