ایران کا حملہ اور فرقہ واریت

ایران کی جانب سے پاکستانی حدود میں حملہ پاکستان کی خودمختاری کی سنگین خلاف ورزی ہے


شاہد کاظمی January 19, 2024
ایران کی پاکستان کی سالمیت کے خلاف کارروائی کسی بھی طرح قابل قبول نہیں۔ (فوٹو: فائل)

وطن کی مٹی کی خوشبو کی قدر وہ انسان بہتر کرسکتا ہے جس نے پردیس کا کرب سہا ہو۔ وہ جانتا ہے کہ اپنے دیس کی محبت کیا ہے۔ آپ کے پاس اپنے وطن میں سہولیات کی کمی ہے، آپ مشکلات کا شکار ہیں، کھانے کو مشکل سے میسر ہے، لیکن ایک ضرب المثل بہت صادق ہے ہر طرح کے حالات میں کہ اپنے وطن میں آپ فٹ پاتھ پر بھی سو جائیں تو کم از کم کوئی ٹوکے گا نہیں۔


ایران نے پاکستان کے ایک سرحدی گاؤں سبز کوہ میں حملہ کیا۔ اس حملے کے بعد ایران کی طرف سے ایک لایعنی بیانیہ گھڑا گیا کہ اس حملے میں دہشت گرد تنظیم جیش العدل کو نشانہ بنایا گیا تھا۔ ایران کا پاکستان کی سالمیت کے خلاف یہ کارروائی کرنا کسی بھی طرح قابل قبول نہیں۔


ایران ایک شیعہ اکثریتی ملک ہے اور پاکستان پر ایران کے حملے کے بعد ملک میں یہ آوازیں بھی ابھر رہی ہیں جیسے کہ پاکستان کے شیعہ بھی ایران کی اس قبیح حرکت کی حمایت کریں گے۔ لیکن ایسا بالکل نہیں ہے۔ ایسی سوچ محض فرقہ وارانہ اختلافات کو ہوا دینے کی ایک کوشش ہے۔


ایک شیعہ اکثریت ملک ہونے کی وجہ سے پاکستان میں بسنے والے ملک کی کل آبادی کا کم و بیش 20 فیصد حصہ ذہنی و قلبی حوالے سے مکمل طور پر یکجان اور منفرد سوچ رکھتا ہے۔ یہ 20 فیصد افراد شیعہ مکتبہ فکر سے تعلق رکھتے ہوئے، ایران کے شیعہ اکثریتی ملک ہونے کے باوجود کسی بھی طرح یہ گوارا نہیں کرسکتے کہ ایران پاکستان کی سالمیت کے خلاف کسی بھی طرح کی ایسی بہیمانہ کارروائی کرے۔


فکری لحاظ سے پاکستان جذباتیت رکھتا ہے اور یہی جذباتیت پاکستانی عوام کا بھی خاصہ ہے۔ ہمارے لیے کچھ ممالک مقدس سرزمین کا درجہ رکھتے ہیں۔ مثال کے طور پر سعودی عرب کی سرزمین تو کُل عالم اسلام کےلیے اہم اور خاص ہے۔ اس کے علاوہ عراق میں مقدس مقامات کی وجہ سے یہ سرزمین سنی اور شیعہ دونوں کمیونیٹیز کےلیے اہم ہے۔ بغداد شریف کے حوالے سے سنی مکتبہ فکر کی خاص اہمیت ہے تو کربلا، نجف اشرف و دیگر مقامات شیعہ کمیونیٹی کےلیے متبرک ہیں۔ اسی طرح ایران کی سرزمین شیعہ مکتبہ فکر کےلیے امام رضا علیہ السلام کے حرم اور دیگر مزارات مقدسہ کی وجہ سے مقدس شمار کی جاتی ہے۔ اس حوالے سے کروڑوں افراد زیارات کے شرف سے فیض یاب ہوتے ہیں اور ایران کا رخ کرتے ہیں۔ لیکن یہ عقیدت کا سفر ہے۔ اس سفر میں ہرگز صورتحال ایسی نہیں ہے کہ پاکستان کی سالمیت کے خلاف بھی کوئی حرکت برداشت کرلی جائے۔


پاکستان میں ایک مخصوص سوچ طویل عرصے سے مصروفِ عمل ہے، جو ہمیشہ پاکستان میں بسنے والی شیعہ کمیونٹی کو ایران کے کسی بھی عمل سے جوڑنے کی کوشش میں مصروف رہتی ہے۔ حالانکہ حالات اس سے یکسر مختلف اور الگ ہیں۔ پاکستان میں بسنے والے افراد صرف اور صرف پاکستانی ہیں۔ سبز پاسپورٹ رکھنا یقینی طور پر پاکستانیوں کی پوری دنیا میں پہچان ہے۔ اس حوالے سے کسی بھی دوسرے ملک کی پاکستان کے خلاف کارروائی نہ صرف قابل مذمت ہے بلکہ مکمل اور باقاعدہ ردعمل کی متقاضی ہے۔ پاکستان میں اس وقت شیعہ مکتبہ فکر سے تعلق رکھنے والے افراد کی تعداد محتاط اندازے کے مطابق کم و بیش چار سے پانچ کروڑ ہے۔ اور ایک بھی فرد آپ کو ایسا نہیں ملے گا جو ایران کی محبت میں پاکستان کی مخالفت کرتا نظر آئے۔ یہ اپنے وطن سے محبت ہے۔ اور وطن کا عشق ہے کہ اس دھرتی سے آگے کچھ بھی نہیں ہے۔ پاکستانیوں کےلیے بطور مجموعی سعودی عرب ہو یا ایران محبت کا معیار پاکستانیت ہونا چاہیے۔ اگر کوئی بھی ریاست پاکستان کے خلاف کام کرے تو اس کی ہمارے دل میں کوئی جگہ نہیں۔


آخری اطلاعات یہ ہیں کہ پاکستان نے ایران کی سرحد کے اندر کم و بیش 50 کلومیٹر تک کارروائی کرتے ہوئے دہشت گرد تنظیم بلوچ لبریشن آرمی (بی ایل اے) کے ٹھکانوں کو نشانہ بنایا۔ یہ کارروائی یقینی طور پر ہونی بہت ضروری تھی۔


ایران کی جانب سے پاکستانی حدود میں حملہ نہ صرف پاکستان کی خودمختاری کی سنگین خلاف ورزی ہے بلکہ یہ بین الاقوامی قوانین اور پاکستان اور ایران کے درمیان دوطرفہ تعلقات کی روح کی بھی سنگین خلاف ورزی ہے۔ ایرانی فورسز نے اپنی اس حرکت کو جیش العدل پر حملے کا نام دینے کی کوشش کی۔ جبکہ حقیقت تو یہ ہے کے بی ایل اے اور بی ایل ایف کے کیمپس ایران میں موجود ہیں، کلبھوشن یادیو بھی ایران سے نیٹ ورک آپریٹ کرتا رہا ہے۔ ایران کا یہ خیال کے پاکستان اِس واقعہ کو کسی بھی صورت نظر انداز کرے گا اس کی بہت بڑی بھول ہے۔ ایران کو اس وقت ہوش کے ناخن لینے کی ضرورت ہے۔ کسی بھی کشیدگی کی صورت میں تمام پاکستانی بلاتفریق فرقہ ایران کے خلاف ہوں گے۔


نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔




اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔


تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں