اقتصادی و معاشی ترقی کے امکانات روشن

دونوں ممالک کے درمیان ریلوے، اقتصادی زون اور انفرا اسٹرکچر کے منصوبوں پر اتفاق کیا گیا


Editorial January 20, 2024
دونوں ممالک کے درمیان ریلوے، اقتصادی زون اور انفرا اسٹرکچر کے منصوبوں پر اتفاق کیا گیا۔ فوٹو: فائل

پاکستان اور متحدہ عرب امارات ( یو اے ای) کے درمیان 3 ارب ڈالر سے زائد سرمایہ کاری کے معاہدے پر دستخط ہو گئے۔

دونوں ممالک کے درمیان ریلوے، اقتصادی زون اور انفرا اسٹرکچر کے منصوبوں پر اتفاق کیا گیا، معاہدے میں فریٹ کاریڈور، ملٹی ماڈل لاجسٹک پارک اور فریٹ ٹرمینلز کا قیام بھی شامل ہے۔

اس سے قبل متحدہ عرب امارات نے پاکستان کو بڑا معاشی ریلیف فراہم کرتے ہوئے 2 ارب ڈالرز کا قرضہ مزید ایک سال کے لیے رول اوور کر دیا ہے، جب کہ اسٹیٹ بینک حکام کے حوالے سے بتایا کہ آئی ایم ایف سے ستر کروڑ ڈالر کی قسط موصول ہونے کے بعد پاکستان کو جاری کردہ رقم 1.9 ارب ڈالر ہوگئی ہے۔ آخری اقتصادی جائزے کے بعد پاکستان کو مزید 1.1 ارب ڈالر ملیں گے۔

دور حاضر میں تصورات اور نظریات تیزی سے تبدیل ہو رہے ہیں۔ جنگ اب میدان نہیں ابلاغی اور معاشی محاذ پر لڑی جاتی ہے۔ مضبوط معیشت کسی بھی ملک کو سپر پاور کا درجہ دے سکتی ہے۔

بلاشبہ دوست ممالک اور غیر ملکی سرمایہ کاروں کی جانب سے اربوں ڈالرز کی سرمایہ کاری کے نتیجے میں پاکستان رواں برس کامیابی کے ساتھ معاشی و اقتصادی بحرانوں سے نکل جائے گا، دوسری جانب چین کی مدد سے سی پیک منصوبوں پر بھی تیزی سے کام جاری ہے۔ پاکستان اسٹاک مارکیٹ مسلسل اوپر جا رہی ہے۔

ایشیائی ترقیاتی بینک نے اپنی رپورٹ میں کہا ہے کہ پاکستان کی جانب سے اپریل 2024 تک اقتصادی ایڈجسٹمنٹ پروگرام پر عملدرآمد میکرو اکنامک استحکام اور ملک کی ترقی کی بتدریج بحالی کے لیے اہم ہوگا۔سال 2024 کا آغاز ہے اور پاکستان کو اس وقت جمہوری اور مضبوط منتخب عوامی حکومت کی ضرورت ہے جو معاشی اصلاحات کرسکے اور اس وقت ووٹرز کی سب سے بڑی خواہش بس یہی ہے کہ ان کی مالی بہتری کے لیے کام ہو۔

ایک جانب تو امیدوں کے چراغ روشن ہیں لیکن دوسری جانب پاکستان ماحولیاتی تبدیلیوں کی زد میں ہے۔ زرعی اور انرجی شعبوں کی خرابیاں دور کرنے کی ضرورت ہے۔

پاکستان میں نظام، قرضوں کی لاگت اور ریاست کے آمدن کے ذرایع پائیدار نہیں ہیں۔ آبادی کی ایک وسیع تعداد کو آج بھی پینے کے لیے صاف پانی دستیاب نہیں، بنیادی صحت، کم از کم خوراک اور تعلیم کی مناسب سہولیات دور دراز علاقوں حتیٰ کہ بڑے شہروں میں بھی معیار سے کہیں کم ہیں، جنوبی ایشیا میں نوزائیدہ بچوں کی اموات کی سب سے زیادہ شرح پاکستان میں ہے۔

گزرے برس دہشت گردی کا بھی زور رہا۔ خاص کر صوبہ خیبر پختونخوا اور بلوچستان میں دہشت گردی کی سنگین وارداتیں ہوئی ہیں جن میں سیکیورٹی اداروں کے اہلکاروں کے ساتھ ساتھ سویلین کو بھی نشانہ بنایا گیا۔

دہشت گردی کی وارداتوں میں مالی نقصان کے علاوہ بڑی تعداد میں جانی نقصان بھی ہوا ہے۔ غیرملکی سرمایہ کاری لانے میں ایس آئی ایف سی کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ اس کے قیام کا مقصد ہی غیرملکی سرمایہ کاروں کے لیے ون ونڈو کے تحت بہترین ماحول فراہم کرنا اور غیر ضروری رکاوٹوں سے نجات دلانا ہے۔

ایس آئی ایف سی نے زراعت، انفارمیشن ٹیکنالوجی، انرجی اور کان کنی ( منرلز ) کے شعبوں پر فوکس کیا ہے۔ کئی منصوبوں پر تیزی سے کام جاری ہے۔

زراعت کے شعبے میں پرانے طریقوں کے بجائے بائیو ٹیکنالوجی کا استعمال شروع کیا جا رہا ہے، اس سے پاکستان میں چند سال میں ہی زرعی انقلاب آجائے گا۔ معاشی ترقی کے لیے حکومت کی جانب سے لانگ ٹرم اور شارٹ ٹرم منصوبہ بندی کی گئی ہے۔

معاشی پالیسیوں اور اصلاحات سے نہ صرف معیشت مضبوط ہوگی بلکہ پاکستان ایشین ٹائیگر بن کر ابھرے گا۔

نوجوانوں اور خواتین کو ہنرمند بنانے کے لیے وفاقی اور صوبائی سطح پر کئی پروگرام شروع کیے گئے ہیں جن میں لاکھوں نوجوان تربیت حاصل کر رہے ہیں۔

یہ ہنر مند نوجوان چند سال میں ہی معاشی انقلاب برپا کردیں گے۔ ماہرین کے مطابق آئی ٹی سیکٹر میں بہت گنجائش ہے ہمارے تربیت یافتہ نوجوان 30 ارب ڈالر تک ملک میں لانے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔

کسی بھی ملک کی ترقی کا انحصار اب روایتی ٹیکنالوجی کے بجائے ڈیجیٹل ٹیکنالوجی اور نئی کمپیوٹر، سافٹ وئیر ایجادات پر ہے۔ امریکی اور چینی کمپنیاں سکس جی کے تجربات کررہی ہیں جب کہ بہت سے ممالک فائیو جی کی طرف منتقل ہوچکے ہیں۔

اچھی خبر یہ ہے کہ پاکستان میں بھی فائیو جی ٹیکنالوجی لانے کے لیے اقدامات ہورہے ہیں۔ جس سے آئی ٹی سیکٹر کی ترقی میں بہت مدد ملے گی۔ موجودہ دور میں زراعت، زرعی صنعتوں کی ترقی اور پائیدار شرح نمو کے لیے جدید ٹیکنالوجی کا استعمال بہت ضروری ہے۔

فوڈ سیکیورٹی، صنعتوں کے لیے خام مال کی فراہمی، روزگار پیدا کرنے اور دیہی آبادی کی ترقی میں زراعت کا کردار انتہائی اہم ہے۔

بہت سے ممالک کے لیے زراعت برآمدی آمدنی کا اہم ذریعہ ہے اور مجموعی اقتصادی ترقی میں معاون ہے۔پچھلے چند ماہ میں پاکستان اسٹاک ایکسچینج میں ریکارڈ تیزی آئی ہے جس نے ماضی کے تمام ریکارڈ توڑ دیے ہیں۔ بیرونی سرمایہ کاروں نے بھی اربوں روپے کی سرمایہ کاری کی ہے۔

مارکیٹ کی کیپٹلائزیشن بیس ارب ڈالر سمجھی جاتی ہے، معاشی ماہرین کے مطابق شیئرز میں ابھی مزید تیزی آئے گی، نئی کمپنیاں رجسٹرڈ ہونے کی بھی امید ہے۔ بینکوں نے ایک سو پچاس ارب روپے کا منافع اپنے شیئرز ہولڈرز میں تقسیم کیا ہے۔

جن ممالک میں بینک دیوالیہ ہونے کے بجائے منافع کما رہے ہوں ان کی معیشت کو بہترین سمجھا جاتا ہے۔ پاکستان میں اسٹاک مارکیٹ میں سرمایہ کاری کرنیوالوں کی تعداد آٹے میں نمک کے برابر ہے۔ امریکی ڈالر کے مقابلے میں پاکستانی روپیہ مضبوط ہوا ہے۔ زرمبادلہ کے ذخائر میں بھی اضافہ ہوا ہے جب کہ آئی ایم ایف سے بھی اچھی خبریں آرہی ہیں۔

معاشی ماہرین اسے پاکستانی معیشت کے لیے اچھی خبر قرار دے رہے ہیں۔ پاکستان کو سیاسی و معاشی طور پر آج بھی دنیا کے طاقت ور ممالک میں شامل کیا جاتا ہے۔

امریکی ویب سائٹ یو ایس نیوز اینڈ ورلڈ رپورٹ چند سال پہلے بھی امریکا کو پہلی اور پاکستان کو بائیسویں معیشت قرار دے چکی ہے۔ غیر جانب دار عالمی جرائد اور ادارے اپنی رپورٹس میں اس بات کا اقرار کر چکے ہیں کہ پاکستان میں جی 20 ممالک میں شامل ہونے کی صلاحیت ہے۔

پاکستان کی چونسٹھ فیصد آبادی کی عمر 30سال سے کم ہے۔ نوجوانوں کی آبادی کے اعتبار سے ہم دنیا میں چوتھے نمبر پر ہیں۔ عالمی معیشت اور دنیا کا مستقبل نوجوانوں کے ہاتھوں میں ہے۔ پاکستان کے کروڑوں نوجوان دنیا کی قیادت کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔

ہمارے نوجوان ایک ڈیجیٹل، گلوبلائزڈ اور حیران کن ترقی کرتی دنیا میں پیدا ہوئے ہیں۔ وہ لوگ جو اپنی زندگی کی پچاس بہاریں دیکھ چکے ہیں، ان کے لیے اس تیزی سے ترقی کو سمجھنا اور اس کے ساتھ قدم سے قدم ملا کر چلنا ذرا مشکل ہے، لیکن ہمارے نوجوان یہ کام کرسکتے ہیں۔

آج جب کئی یورپی ممالک اور جاپان جیسے ملک میں نوجوانوں کی تعداد مسلسل کم ہو رہی ہے، بزرگوں کی تعداد بڑھ رہی ہے، ان ممالک کو افرادی قوت کی شدید کمی کا سامنا ہے۔ ایک دور تھا زیادہ آبادی کو بوجھ سمجھا جاتا تھا۔

چین، برازیل اور اسلامی ملک انڈونیشیا نے اپنی زیادہ آبادی کا بھرپور فائدہ اٹھایا، اپنے نوجوانوں کو ہنر مند بنایا اور برآمدات بڑھا کر معیشت کو مضبوط بنایا۔ پاکستان 24 کروڑ سے زیادہ آ بادی کے ساتھ دنیا میں پانچویں نمبر پر ہے۔

ذرا تصور کیجیے ہم اس بڑی آبادی کو مختلف شعبوں میں مہارت پیدا کرکے با آسانی دنیا کی پانچویں بڑی معیشت بن سکتے ہیں۔

ہر شخص کوئی کام کرے، ملک و قوم کی تقدیر بھی بدل جائے گی۔ پاکستانی دنیا کے ہر ملک میں مل جائیں گے، امریکا ہو یا برطانیہ یا یورپ کا کوئی چھوٹا سا ملک ہو، پاکستانی وہاں کی ترقی میں اپنا مثبت کردار ادا کر رہے ہیں۔ ذرایع وزارت تجارت کے مطابق دسمبر کے پہلے 20 روز میں یکم سے 20 دسمبر 2023 تک برآمدات ایک ارب 92 کروڑ ڈالر رہیں جب کہ گزشتہ برس اسی عرصے میں برآمدات کا حجم ایک ارب 45کروڑ ڈالر تھا۔

درآمدات میں 12.8 فیصد کمی ہوئی جب کہ یکم تا 20 دسمبر 2023 تک درآمدات 2 ارب 76 کروڑ ڈالر رہیں۔ درآمدات کا حجم 3 ارب 17 کروڑ ڈالر تھا۔ وقت کا تقاضا ہے کہ زری پالیسی کو ایسا بنایا جائے کہ صرف برآمدات اور بیرونی براہ راست سرمایہ کاری کی بنیاد پر ترقی کی حوصلہ افزائی ہو۔

مقامی شرح سود کو اگر 15 سے 17 فیصد کی شرح پر رکھا جائے تو اس سے بچت کی حوصلہ افزائی ہوگی اس کے علاوہ رئیل اسٹیٹ میں بے تحاشا سرمایہ کاری کو قابو کرنا ہوگا، آیندہ دو برسوں کے لیے اہداف کا تعین کیا جانا چاہیے ۔

عالمی مالیاتی فنڈ کی جانب سے دی گئی شرائط گو بہترین حل نہیں ہیں تاہم قرض لینے والا ملک اپنی مرضی سے محروم ہوتا ہے، نئی حکومت کے قیام کے بعد نقصان میں چلنے والے اداروں، بجلی کی ترسیلی کمپنیوں کے نقصانات کو وفاق کے بجائے صوبوں پر تقسیم کرنے، سرکاری ترقیاتی کاموں، صحت، تعلیم، زرعی شعبے کے لیے زر اعانت، بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کو جاری رکھنے کے لیے کسی قسم کی سیاسی تاخیر اور نااہلیت کی گنجائش نہیں ہوگی، صوبوں، ضلعوں اور مقامی حکومتوں کو ترغیب دینا ہوگی کہ وہ سروسز سیکٹر سے اپنے محاصلات وصول کرسکیں اور رئیل اسٹیٹ، زراعت اور رٹیل سیکٹر کو بھی ٹیکس نیٹ میں لایا جائے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں