عدالتی فیصلے

کچھ عدالتی فیصلوں نے جمہوری نظام کو مستحکم کیا، کچھ فیصلوں سے انسانی حقوق کو تحفظ حاصل ہوا


Dr Tauseef Ahmed Khan January 20, 2024
[email protected]

عدالتی فیصلوں کی بھی عجب ہی تاریخ ہے۔ کچھ عدالتی فیصلوں نے جمہوری نظام کو مستحکم کیا، کچھ فیصلوں سے انسانی حقوق کو تحفظ حاصل ہوا اورکچھ ایسے عدالتی فیصلے بھی آئے جن سے عوام کا حکمرانوں کے انتخاب کا حق بھی مجروح ہوا۔

مشرقی بنگال سے تعلق رکھنے والے خواجہ ناظم الدین کا شمار بانی پاکستان بیرسٹر محمد علی جناح کے قریبی ساتھیوں میں ہوتا تھا، جب بیرسٹر محمد علی جناح کا ستمبر 1948 کو انتقال ہوا، تو خواجہ ناظم الدین کو گورنر جنرل کا عہدہ سونپا گیا۔

خواجہ ناظم الدین نے پارلیمانی نظام کی روایت کے تحت کبھی وزیر اعظم اورکابینہ کے معاملات میں مداخلت نہیں کی۔ پہلے وزیر اعظم لیاقت علی خان کو 16 اکتوبر 1951 کو راولپنڈی میں ایک جلسے میں فائرنگ کر کے قتل کر دیا گیا۔

برسر اقتدار مسلم لیگ نے خواجہ ناظم الدین کو وزیر اعظم کے عہدے پر نامزد کیا اور برطانوی ہند حکومت کے ریٹائرڈ بیوروکریٹ غلام محمد نے گورنر جنرل کا عہدہ سنبھالا۔ وزیر اعظم خواجہ ناظم الدین کا دورِ حکومت خاصا ہنگامہ خیز رہا۔

سیاسیات اور وفاقیت کے استاد معروف دانش ور ڈاکٹر سید جعفر احمد نے اپنی کتاب '' شبِ گزیدہ سحر'' پاکستان میں لکھا ہے کہ گورنر جنرل نے وزیر اعظم اور وفاقی وزراء کو اپنے دفتر طلب کیا جہاں ان افراد سے استعفے طلب کیے گئے ۔

خواجہ ناظم الدین اور ان کے ساتھیوں نے استعفے دینے سے انکار کیا۔ خواجہ ناظم الدین کا مؤقف تھا کہ انھوں نے اسمبلی سے اعتماد کا ووٹ ایک ہی ماہ قبل لیا تھا۔ گورنر جنرل کے پاس ان سے استعفیٰ کا کوئی جواز نہیں ہے۔

خواجہ ناظم الدین کے انکار پر گورنر جنرل غلام محمد نے دوسرا راستہ اختیارکیا۔ وزیر اعظم خواجہ ناظم الدین اور ان کی حکومت کی برطرفی کا اعلان صادر کیا۔ معروف دانش ور ڈاکٹر سید جعفر احمد نے اس کتاب کے آغاز میں لکھا ہے کہ اکتوبر 1954 میں آئین ساز اسمبلی کے اسپیکر مولوی تمیز الدین نے گورنر جنرل کے فیصلے کو سندھ ہائی کورٹ میں چیلنج کرنے کا فیصلہ کیا۔

تمیز الدین کا یہ مؤقف تھا کہ یہ اسمبلی قانون ساز اسمبلی ہی نہیں بلکہ آئین ساز اسمبلی تھی۔ آئین ساز اسمبلی کو توڑنے کا اختیارکسی اتھارٹی کے پاس نہیں ہے۔

یہ اسمبلی آئین بنانے کا کام مکمل کر لیتی تو پھر یہ تحلیل ہوجاتی اور اس سے پہلے صرف اسمبلی اس صورت ختم ہوسکتی تھی کہ جب اسمبلی خود اپنی تحلیل کا فیصلہ کرتی۔ مولوی تمیز الدین کا یہ بھی مؤقف تھا کہ اسمبلی توڑنے کے گورنر جنرل کے اعلان نامے میں تو یہ کہا گیا تھا کہ اسمبلی اپنی موجودہ شکل میں عوام کے اعتماد سے محروم ہوچکی ہے مگر پورے اعلان نامہ میں اسمبلی کو توڑنے کا لفظ شامل نہیں تھا۔

تمیز الدین صاحب کا کہنا تھا کہ اعلان نامہ میں اسمبلی توڑنے کا لفظ اس لیے درج نہیں کیا گیا تھا۔ مولوی تمیز الدین اسمبلی کی اولین حیثیت میں اسمبلی کے صدر تھے جب کہ دوسری حیثیت میں وہ اس کے اسپیکر بھی تھے۔ تمیز الدین صاحب کا گورنر جنرل کے اس اقدام کو چیلنج کرنا ایک جرات مندانہ قدم تھا۔ انھیں اس مقدمہ کو دائر کرنے میں سخت مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔

یہاں تک کہ عدالت تک پہنچنا بھی ان کے لیے بڑا مشکل ثابت ہوا کیونکہ ان کی نقل و حرکت کی نگرانی کی جا رہی تھی۔

مولوی تمیز الدین کو برقعہ اوڑھ کر رکشے کے ذریعے کورٹ پہنچنے کا فیصلہ کرنا پڑا۔ ان کے ایک وکیل منظر عالم کو عدالت کے دروازہ پر حفاظتی تحویل میں لے لیا گیا۔ اس وقت سندھ چیف کورٹ کے رجسٹرار روش علی شاہ نے ہمت کا مظاہرہ کیا۔

اس بناء پر مولوی تمیز الدین عدالت میں پیش ہونے میں کامیاب ہوئے۔ روشن علی شاہ نے وکیل منظر عالم کی گرفتاری کی اطلاع چیف جسٹس کو دی۔ چیف جسٹس کے حکم پر منظر عالم کو رہا کیا گیا۔ تمیز الدین کے پاس وکلاء کی فیس کے لیے پیسے نہیں تھے۔

ان کے وکلاء نے فیس نہیں لی۔ مولوی تمیز الدین کی قانونی ٹیم نے ایک انگریز وکیل ڈی این پرینٹ کی خدمات حاصل کی تھیں۔ اس انگریز وکیل کی فیس ایک انشورنس کمپنی سے وابستہ معروف شخصیت روشن علی بھیم جی نے ادا کی تھی۔

سندھ ہائی کورٹ نے چیف جسٹس سر جارج کانٹا ٹائن کی سربراہی میں فل بنچ نے 9 فروری 1955کو متفقہ طور پر یہ فیصلہ دیا کہ آئین ساز اسمبلی کو توڑنے کا اقدام غیر آئینی ہے۔ اس فیصلہ میں تحریر کیا گیا تھا کہ اسمبلی اور اس کے صدر قانون کی نظر میں اپنا وجود رکھتے ہیں۔ چنانچہ حکومت کو ان کی ذمے داریوں کی ادائیگی کی راہ میں رکاوٹ نہیں بننا چاہیے۔

اس بنچ کے فاضل رکن جسٹس محمدبخش میمن نے اپنی رائے لکھتے ہوئے کہا کہ '' میں اس بات پر غیر متزلزل یقین رکھتا ہوں کہ گورنر جنرل کو آئین ساز اسمبلی کو توڑنے کا اختیار نہیں تھا اور اسمبلی کو توڑنے کے اعلان نامہ کی زبان بھی غیر معیاری ہے۔

اس میں واضح الفاظ میں آئین ساز اسمبلی کا ذکر نہیں کیا گیا۔ جب کوئی حکم نامہ جاری کیا جاتا ہے تو اس میں قانون کی شق کا حوالہ دیا جاتا ہے جس کے تحت یہ اختیار استعمال کیا گیا ہو۔ گورنر جنرل کے اعلان نامہ میں کسی قانون کا حوالہ نہیں دیا گیا کیونکہ ایسا کوئی قانون ہی نہیں جس کا حوالہ دیا جاسکے۔ '' گورنر جنرل غلام محمد نے سندھ ہائی کورٹ کے اس فیصلہ کو فیڈرل کورٹ میں چیلنج کیا۔

فیڈرل کورٹ کے چیف جسٹس جسٹس محمد منیر نے 21 مارچ 1955کو سندھ ہائی کورٹ کے فیصلہ کو کالعدم قرار دیدیا۔ فیڈرل کورٹ نے آئین ساز اسمبلی کو توڑنے کے اقدام کے قانونی یا غیر قانونی ہونے پر رائے نہیں دی بلکہ قرار دیا کہ سندھ ہائی کورٹ نے آئین کی جس شق کی بنیاد پر فیصلہ دیا وہ شق باضابطہ قانون کی حیثیت نہیں رکھتی کیونکہ اس پرگورنر جنرل کے دستخط نہیں تھے۔ ڈاکٹر سید جعفر احمد لکھتے ہیں کہ جسٹس منیر نے جس شق کا حوالہ دیا تھا، وہ دراصل دستوری ترمیم کی حیثیت سے منظور ہوئی تھی۔

6 جولائی 1954کو آئین ساز اسمبلی نے یہ شق A-222 آئین میں شامل کی تھی جس کی رو سے افراد اور عوامی نمایندگی کے منصب پر فائز اتھارٹیز کے حقوق و فرائض کو قانونی تحفظ فراہم کرنے کی غرض سے ہائی کورٹوں کو نئے اختیارات دیے گئے تھے۔ یہ آئینی ترمیم اسمبلی کے آئین ساز اسمبلی کے طور پر منظور کی گئی۔

لہٰذا اس پر اسمبلی کے صدر کے دستخط کافی تھے اور قانون ساز اسمبلی کے منظور کردہ بلوں کے قانون کا درجہ حاصل کرنے کے لیے گورنر جنرل کے دستخطوں کی شرط کا اس صورت میں اطلاق نہیں ہوتا تھا۔ اس فیصلہ کے ملک کے مستقبل پر خطرناک نتائج برآمد ہوئے مگر جسٹس منیر کو اپنی غلطی کا احساس ہوا۔

جسٹس منیر نے 22 اپریل 1960کو اپنی ریٹائرمنٹ پر لاہور ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن سے خطاب کرتے ہوئے یہ اقرار کیا کہ سپریم کورٹ کا فیصلہ حالات کے دباؤ کا نتیجہ تھا اور یہ کہ سندھ ہائی کورٹ نے اسمبلی کی بحالی کا جو حکم دیا تھا اس حکم پر خون خرابہ کے بعد ہی حکومت کو عملدرآمد پر مجبور کیا جاسکتا ہے۔

جسٹس منیر نے اپنی کتاب ''جناح ٹو ضیاء '' میں اپنی غلطی کا اعتراف کیا تھا۔ الیکشن کمیشن نے تحریک انصاف کے انٹرا پارٹی انتخابات کو قانون کے خلاف قرار دیتے ہوئے '' بلا '' کا انتخابی نشان واپس لیا جس پر تحریک انصاف نے پشاور ہائی کورٹ میں رجوع کیا اور پشاور ہائی کورٹ نے الیکشن کمیشن کے اس فیصلے کو کالعدم قرار دے دیا۔

سپریم کورٹ نے پشاور ہائی کورٹ کے فیصلہ کو کالعدم قرار دے دیا۔ اگرچہ تحریک انصاف کے انٹرا پارٹی انتخابات درست نہیں تھے مگر ایسے ملک میں جہاں ووٹروں کی اکثریت ناخواندہ ہو وہاں حالات مختلف ہوتے ہیں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں