پاک ایران تعلقات میں بہتری کے اشارے

پاکستان اور ایران کے درمیان رابطے اچھے مستقبل کی نوید دیتے ہیں


Editorial January 21, 2024
پاکستان اور ایران کے درمیان رابطے اچھے مستقبل کی نوید دیتے ہیں۔ فوٹو: فائل

پاکستان کی قومی سلامتی کمیٹی کا اہم اجلاس گزشتہ روز اسلام آباد میں نگران وزیراعظم انوار الحق کاکڑ کی سربراہی میں ہوا۔ اس اجلاس میں دفاع، خارجہ امور، خزانہ اور اطلاعات کے وفاقی وزراء، چیئرمین جوائنٹ چیفس آف اسٹاف کمیٹی، چیف آف دی آرمی اسٹاف، چیف آف نیول اسٹاف اور چیف آف دی ایئر اسٹاف کے علاوہ انٹیلی جنس ایجنسیوں کے سربراہان نے شرکت کی۔

اجلاس میں قومی سلامتی کے امور پر غور کیا گیا اور حالیہ صورت حال کے ہر پہلو کا بغور جائزہ لیا گیا۔ قومی سلامتی کمیٹی نے اس عزم کا اعادہ کیا ہے کہ پاکستان کی خودمختاری اور علاقائی سالمیت ناقابل تسخیر ہے اور اس کا ہر قیمت پر تحفظ کیا جائے گا، کسی کی طرف سے اور کسی بھی بہانے، اسے پامال کرنے کی کوشش کا ریاست کی پوری طاقت سے جواب دیا جائے گا۔

اجلاس نے پاکستان کی بلااشتعال اور غیرقانونی فضائی خلاف ورزی کے خلاف افواج پاکستان کی پیشہ ورانہ لگن اور متناسب ردعمل کو سراہا گیا۔ اجلاس کے دوران شرکا کو پاکستان اور ایران کے درمیان موجودہ صورت حال اور خطے میں مجموعی سیکیورٹی صورت حال پر اس کے اثرات کے حوالے سے سیاسی اور سفارتی پیش رفت سے آگاہ کیا گیا۔

قومی سلامتی کمیٹی نے آپریشن ''مرگ بار سرمچار'' کا بھی جائزہ لیا جو ایران کے اندر مقیم پاکستانی بلوچستان سے تعلق رکھنے والے دہشت گردوں کے خلاف کامیابی سے انجام دیا گیا۔

پاکستان کی موجودہ صورت حال میں قومی سلامتی کمیٹی کا یہ اجلاس انتہائی اہمیت کا حامل ہے۔ جن امور پر غور ہوا، ان کے حوالے سے ایک لائحہ عمل تیار کرنے کی اشد ضرورت ہے۔

میڈیا کی اطلاعات کے مطابق قومی سلامتی کمیٹی کے اجلاس میں قومی خودمختاری کی کسی بھی خلاف ورزی کا جامع جواب دینے کے لیے ضروری تیاریوں پر غور کیا گیا۔ فورم نے اس غیر متزلزل عزم کا اعادہ کیا کہ پاکستان کی خودمختاری اور علاقائی سالمیت قطعی طور پر ناقابل تسخیر ہے اور اسے پامال کرنے کی ہر کوشش کا ریاست کی پوری طاقت سے جواب دیا جائے گا۔

بلاشبہ پاکستان کا یہ جواب وقت کی اہم ترین ضرورت ہے، کوئی بھی ملک اپنی سرحدوں کی خلاف ورزی کسی صورت برداشت نہیں کر سکتا۔ یہ خلاف ورزی چاہے زمینی سرحد کی ہو، فضائی سرحد کی ہو اور چاہے سمندری سرحد کی ہو، اس کا ہر صورت جواب دیا جائے گا۔ پاکستان نے خطے کے امن کو برقرار رکھنے کے لیے ہر ممکن صبر وتحمل کا رویہ اختیار کیا ہے لیکن جب معاملات حد سے بڑھ جائیں تو اس کا جواب دیا جانا لازم ہو جاتا ہے۔

پاکستان کی سرحدیں کسی بھی ملک کے لیے تر نوالہ نہیں ہیں۔ وہ ملک خواہ کوئی بھی ہو، اسے اپنے کیے کا خمیازہ بھگتنا ہو گا۔ برادرانہ تعلقات، دوستانہ تعلقات یا تاریخی تعلقات اس وقت تک ہی قائم رہ سکتے ہیں جب تک سرحدوں کا احترام قائم رہے لیکن جب کوئی ملک یہ احترام ختم کر دے تو پھر ریاستوں کے درمیان کوئی تعلق نہیں رہتا۔

قومی سلامتی کمیٹی کے اجلاس میں اس بات کا اعادہ کیا گیا ہے کہ پاکستانی عوام کی سلامتی اور تحفظ انتہائی اہمیت کے حامل ہیں۔ اسے یقینی بنانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی جائے گی۔

قومی سلامتی کمیٹی نے اس بات کا اظہار بھی کیا ہے کہ ایران پاکستان کا ایک ہمسایہ اور برادر مسلم ملک ہے، دونوں ممالک کے درمیان موجود مواصلاتی ذرایع کو ایک دوسرے کے سیکیورٹی خدشات کو دور کرنے کے لیے باہمی طور پر استعمال کیا جانا چاہیے۔

اجلاس نے اقوام متحدہ کے چارٹر اور بین الاقوامی اصولوں کے مطابق تمام ممالک کی خودمختاری، علاقائی سالمیت کے لیے پاکستان کے عزم کا اعادہ کیا۔ کمیٹی نے اس عزم کا اعادہ بھی کیا کہ دہشت گردی کی لعنت کی تمام شکلوں سے آہنی ہاتھوں سے نمٹا جائے گا۔ پاکستان کو دہشت گردی کی اس لعنت سے کسی بھی دوسرے ملک سے کہیں زیادہ نقصان پہنچا ہے۔

اجلاس میں یہ نتیجہ بھی اخذ کیا گیا کہ اچھی ہمسائیگی کے تعلقات کے عالمی اصولوں کے مطابق دونوں ممالک باہمی طور پر بات چیت اور سفارت کاری کے ذریعے اپنے تاریخی تعلقات کو مزید گہرا کرنے کی راہ ہموار کریں گے۔

اس اجلاس کے بعد نگران وفاقی کابینہ کا اجلاس ہوا، اس میں قومی سلامتی کمیٹی اجلاس کے فیصلوں کی توثیق کی گئی اور اہم فیصلے کیے گئے۔ وفاقی کابینہ نے ایران سے سفارتی تعلقات بحال کرنے کی منظوری دی اور کہا ہے کہ پاکستانی سفیر جلد تہران واپس جاکر ذمے داریاں سنبھالیں گے۔ نگران وزیر خارجہ نے کابینہ کو بریفنگ دی اور کہاکہ ایران حالیہ تناؤ ختم کرنا چاہتا ہے۔

وزارت خارجہ نے نگران وفاقی کابینہ کو 16جنوری 2024 کو پاکستان پر ایرانی حملے سے پیدا ہونے والی صورت حال سے آگاہ کیا۔ وفاقی کابینہ کے اجلاس میں ملکی سیکیورٹی کی صورت حال پربھی تبادلہ خیال کیا گیا اور حملے کی تفصیلات کے ساتھ ساتھ پاکستان کے ردعمل کا بھی جائزہ لیا گیا۔کابینہ نے افواج پاکستان کی اعلیٰ پیشہ وارانہ مہارت کی تعریف کی جس نے پاکستان کی خودمختاری کی خلاف ورزی کا جواب دیا اور اس سلسلے میں پوری حکومتی مشینری نے متحد ہو کر کام کیا۔

اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے نگران وزیراعظم انوار الحق کاکڑ نے کہا کہ پاکستان قانون کی پاسداری کرنے والا اور امن پسند ملک ہے اور تمام ممالک بالخصوص ہمسایہ ممالک کے ساتھ دوستانہ اور تعاون پر مبنی تعلقات کا خواہاں ہے، پاکستان اور ایران کے مفاد میں ہے کہ وہ اپنے تعلقات کو بحال کرنے کے لیے اقدامات کریں، جیسے 16 جنوری سے پہلے تھے، پاکستان ایران کی جانب سے تمام مثبت اقدامات کا خیرمقدم کرے گا۔

کابینہ اجلاس کے بعد جاری اعلامیے میں کہا گیا ہے کہ پاکستان ہمسایہ ممالک سے کشیدگی نہیں چاہتا، ہم نہیں چاہتے کہ ایران سے تعلقات خراب ہوں، ایران نے غلط اقدام کیا جس کا جواب دے دیا گیا۔ ایک اور اہم پیش رفت میں جمعہ کو ایرانی وزیر خارجہ امیر عبدالہیان نے نگران وزیر خارجہ جلیل عباس جیلانی سے رابطہ کیا۔ دوران گفتگو دوطرفہ تعلقات میں تناؤکم کرنے ، باہمی اعتماد اور سفارتی تعلقات کی بحالی پر غور کیا گیا۔ اس حوالے سے دیگر جزیات دونوں ممالک کی خارجہ وزارتیں باہمی مشاورت سے طے کریں گی۔

دونوں وزرائے خارجہ نے باہمی احترام،امن و سلامتی،علاقائی امن و امان اور مستحکم تعلقات کو اہم قرار دیا۔وزیر خارجہ جیلانی نے پاکستان کی طرف سے ایران کے ساتھ باہمی اعتماد اور تعاون کی روح پر مبنی تمام مسائل پر کام کرنے کے لیے آمادگی کا اظہار کیا۔ انھوں نے سیکیورٹی کے معاملات پر قریبی تعاون کی ضرورت پر بھی زور دیا۔

ترجمان دفتر خارجہ کے مطابق وزیر خارجہ جلیل عباس جیلانی نے ایران کے ساتھ باہمی اعتماد اور تعاون کی بنیاد پر تمام مسائل پر کام کرنے کے لیے آمادگی کا اظہار کیا۔انھوں نے سیکیورٹی سے متعلق معاملات پر بھی قریبی تعاون کی ضرورت پر زور دیا ہے۔

گزشتہ روز پاکستان کے ایڈیشنل سیکریٹری خارجہ رحیم حیات قریشی کا بھی ایرانی ہم منصب سید رسول موسوی سے رابطہ ہوا جس میں دونوں کے درمیان تناؤکی موجودہ صورتحال کے بعد مثبت پیغامات کا تبادلہ ہوا۔

ایرانی وزارت خارجہ نے اپنے ایک بیان میںکہا ہے کہ اسلامی جمہوریہ ایران اپنے عوام کی سلامتی اور علاقائی سالمیت کو ریڈ لائن سمجھتا ہے لیکن دشمنوں کو پاکستان کے ساتھ دوستانہ اور برادرانہ تعلقات کو خراب کرنے کی اجازت نہیں دیں گے۔

پاکستان کی دوست اور برادر حکومت سے پختہ توقع رکھتے ہیں کہ وہ اپنی سرزمین پر مسلح دہشت گرد گروہوں کو پناہ گاہیں بنانے سے روکنے کی اپنی ذمے داریوں کی پاسداری کرے گی۔ گزشتہ روز نگران وزیر خارجہ جلیل عباس جیلانی اور ترکیہ کے وزیر خارجہ خاقان فیدان کے مابین بھی ٹیلفونک رابطہ ہوا جس میں پاکستان اور ایران کے درمیان جاری پیشرفت پر تبادلہ خیال کیا گیا۔

دونوں ملکوں کے درمیان پیدا ہونے والی حالیہ کشیدگی کے تناظرمیں مبصرین کا کہنا ہے کہ ایران کے پاس پاکستان کے ساتھ تعلقات کو برقراررکھنے کے سوا کو ئی چارہ نہیں ہے، اس ماحول میں یہ سوالات بھی کیے جارہے ہیں کہ ایران کو ایسے موقع پر جب کہ وہ مشرق وسطیٰ کے بحران میں الجھا ہوا ہے پاکستان کے ساتھ فرنٹ کھولنے کی ضرورت کیوں پیش آئی؟

تاہم ایران کی طرف سے جوکچھ بھی ہوا، اس کے فوری بعد اس کی طرف سے مصالحانہ پیغامات آنا شروع ہوگئے تھے۔ایرانی وزارت خارجہ نے بیان جاری کیا تھا کہ ان کا ملک پاکستان کے ساتھ دوستانہ تعلقات کو برقرار رکھنا چاہتا ہے اور کسی کودونوں ملکوں میں کشیدگی پیدا کرنے کی اجازت نہیں دے گا۔

پاکستان اور ایران کے درمیان رابطے اچھے مستقبل کی نوید دیتے ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ دہشت گردی دنیا میں کسی ملک کے لیے بھی قابل قبول نہیں ہے۔ اگر ایران کے تحفظات ہیں کہ پاکستان کے بلوچستان میں ایرانی مفادات کو نقصان پہنچانے والے لوگ موجود ہیں، تو لازم ہے کہ پاکستان ان کے خلاف کارروائی کرے۔

اسی طرح اگر پاکستان یہ کہتا ہے کہ ایران کے سرحدی صوبے سیستان میں پاکستانی بلوچستان سے تعلق رکھنے والے علیحدگی پسند گروپ قیام پذیر ہیں تو ایران کی یہ ذمے داری ہے کہ وہ ایسے عناصر کے خلاف سخت کارروائی کرے۔ اس کے لیے دونوں ملکوں کی سیکیورٹی فورسز کے درمیان اور حکومتوں کے درمیان معلومات کا تبادلہ ہونا چاہیے تاکہ دہشت گردوں کے خلاف کسی بھی کارروائی کے دوران کوئی غلط فہمی نہ پیدا ہو۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں