بولتے کیوں نہیں مِرے حق میں…
اپنے مسائل پر خاموشی پر کسی اور طرف انگشت نمائی کرنے کے بجائے ہمیں اپنے ہی گریبان میں جھانک لینا چاہیے
اگر آپ کو یہ شکوہ ہے کہ آپ کے مختلف مسائل پرکوئی صدا ہی بلند نہیں کرتا یا آپ کے حق کے لیے کوئی آواز ہی موجود نہیں ہے، تو اس میں دوسروں سے زیادہ آپ کا اپنا اور اپنے لوگوں ہی کا زیادہ قصور ہے، کیوں کہ یہ معاملات آپ کے ہیں، دن رات آپ ہی ان کا سامنا کرتے ہیں، یہ الجھنیں سرا سر آپ کی گلی، آپ کے نگر اور آپ کے شہرکی ہیں۔
آپ کے گلی، کُوچے کو آپ سے زیادہ بہتر اورکون جان سکتا ہے۔ وہ مثل مشہور ہے ناں کہ '' قبر کا حال تو مردہ ہی جانتا ہے!'' بالکل درست بات ہے کہ جب تک آپ خود ہی مصلحتوں کا شکار رہیں گے، توکسی دوسرے کوکیا پڑی ہے کہ وہ آکر آپ کے گردوپیش کے حالات اور ماحول سے مسائل ٹٹول کر نکالے اور ان پر صدا بھی بلند کرے ! باقی دنیا کو تو پتا ہی تبھی چلے گا، جب آپ کہیں کچھ لکھیں گے اور آگاہ کریں گے کہ آپ اس ظلم کا شکار ہو رہے ہیں، آپ کے یہ حقوق تلف کیے جا رہے ہیں، آپ کے ساتھ یہ دھوکا کیا جا رہا ہے وغیرہ وغیرہ۔
ہم تو اب اس بات کے قائل ہو چکے ہیں کہ اپنے مسائل پر خاموشی پر کسی اور طرف انگشت نمائی کرنے کے بجائے ہمیں اپنے ہی گریبان میں جھانک لینا چاہیے، کسی سے شکوہ شکایت کرنے کے بجائے ذرا اپنے لوگوں کے کردار کو دیکھنا چاہیے اور اپنی ہی آستینیں جھاڑ لینی چاہئیں۔ ہم پر اگر آج کچھ تلخ وترش گزر رہی ہے، تو ظالم تو ہمیشہ ہی ظلم کرتا ہے، لیکن یہ سوچیے کہ آپ کے اپنے لکھنے والے اور آپ خود لب کشائی کی زحمت کیوں نہیں کر رہے؟
اب تو جدید ذرایع کے توسط سے اظہارِ رائے کے وسیلے کسی اخبار، ٹی وی یا ریڈیو کے محتاج بھی نہیں۔ اس لیے یہ عُذر بھی اب کوئی معنی نہیں رکھتا کہ کوئی ذرایع اِبلاغ آپ کی آواز کو دبا رہا ہے۔ ہماری تو تاریخ یہ بتاتی ہے کہ محدود اور محتاط ذرایع اِبلاغ کے دور میں بھی ہمارے اہل قلم اور اہل علم و دانش نے کھل کر صدائے احتجاج بلند کی ہے اور اظہارِ رائے کے وہ کارہائے نمایاں انجام دیے ہیں کہ آج ہم اپنے حالات دیکھتے ہیں تو شرم سے ہماری نگاہیں نہیں اٹھتیں۔ کہاں وہ تھے اور کہاں آج ہم ہیں۔
اظہارِ رائے کی اتنی آزادی اور اتنی زیادہ سہولتوں کے باوجود ہمارے پیروں میں آسائشوں اور ذاتی مفادات کے گھنگھرو بندھے ہوئے ہیں اور ہمارے اندر حق گوئی کی کوئی ذرا سی رمق بھی باقی نہیں ہے کہ ہم کسی طرح اپنے ضمیرکی آوازکو اظہار کی راہ دے سکیں! بلکہ سچ پوچھیے تو شاید ہمارے ضمیر ہی مردہ ہو چکے ہیں، ورنہ زندہ ضمیر والے کسی بھی اہل قلم کے لیے اپنے ضمیرکی صدا کو دبانا ممکن نہیں ہوتا، اور وہ پابندیوں کے باوجود بھی کسی نہ کسی طرح اپنی بات پہنچائے بغیر نہیں رہتا۔
معزز اساتذہ، اہل علم و دانش، شاعر، ادیب اور اہل قلم کو تو '' سماج کا دماغ '' کہا جاتا ہے۔ یہ کسی بھی معاشرے کو سوچنے کی راہ پر گامزَن کرتے ہیں، انھیں راہ دکھاتے ہیں، آگاہی اور شعور دیتے ہیں، ان کے مسائل کا حل پیش کرتے ہیں، ساتھ ہی ظلم اور جبر کے خلاف بھی اپنا بھرپورکردار ادا کرتے ہیں۔
کہنے کو یہ صرف قلم اورگفتارکے میدان کے لوگ ہیں، لیکن کسی طرح میدان کار زار میں لڑنے والے مجاہدین سے کم نہیں ہوتے، لیکن یہ سب تو تب ہوتا ہے کہ جب یہ سارے اہل علم وہنر اور اہل قلم سچ کے پروردہ ہوں، حق کے طالب اور انصاف کے متلاشی ہوں، اپنی قوم اور اپنے لوگوں کا درد اور سچ کی پہچان رکھتے ہوں۔
شاید آج ہمارے اکثر اہل قلم شاید مصلحت کوش ہو چکے ہیں یا پھر بے پروا، انھیں اپنے سماج کے کچلے جانے والے لوگوں کی کوئی فکر ہی نہیں رہی ! اور یہی امر ظالموں کو اور شیرکرتا ہے کہ یہاں ظلم کیے جائیے، کوئی آواز تک بلند نہ کرے گا۔ اب یہ بھی تو نہیں ہے کہ روایتی ذرایع اِبلاغ سے لے کر جدید ذرایع اِبلاغ تک ان پر کوئی رکاوٹ اور بندش ہے۔
اصل کڑوا سچ یہ ہے کہ ہمارا دانشوَر اس درد کے احساس ہی سے ماورا ہو چکا۔ وہ اتنی اہلیت اور صلاحیت ہی نہیں رکھتا کہ اپنے گلی، کوچے کے ظلم کو لفظوں کی شکل دے کر کوئی صدا بنا سکے۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ وہ اپنے تار تار ہوتے لباس پر تیوری پر بل بھی نہیں لاتا، الّا یہ کہ کسی کو بتائے کہ دیکھیے! اس کے بنیادی حقوق تلف کیے جا رہے ہیں، وہ تو خود پر شکنجے کسے جانے پر ٹھٹھے لگاتا ہے، توکسی کو کیوں کرخبر ہوگی کہ اس کے سماج پر کیا بیت رہی ہے۔
کیوں کہ باقی سب تو اسی کو دیکھ کر اپنی رائے بنا رہے ہیں اور کتنا عجب ہے کہ وہ دنیا جہاں کے مظالم پر آہ وبکا تو خوب کرتا ہے، احتجاجاً اعزازات بھی لوٹا دیتا ہے، لیکن اس کی اپنی غزلیں، نظمیں، کالم، ناول، کہانی، نغمے اور کتابیں سبھی اسی '' فیشن'' کی اسیر رہتی ہیں، جس کا ہر طرف سکہ چل رہا ہے، کبھی اس کے مصرعوں اور فقروں کا عنوان اپنے شہر کے مظلوم نہیں بنتے۔
کسی بھی دانشور یا لکھنے والے کو تو ایسا نہیں ہونا چاہیے، کہ وہ بہائو میں بہتا رہے۔ نہ ہی وہ تنہا رہ جانے کے خوف سے کبھی کسی مصلحت کا شکار ہوتا ہے، وہ حلقۂ احباب کے چھِن جانے سے بھی قطعی بے پروا ہوتا ہے، اس کو صرف خلقِ خدا کے لیے انصاف اور مساوات عزیز ہوتا ہے۔ وہ ببانگ دُہل اپنے دلائل پیش کرتا ہے، صلے میں زمانے کی ٹھوکریں بھی کھاتا ہے، نام نہاد '' دوستوں'' کے چڑھی ہوئی تیوریاں سہتا ہے، لیکن اپنے شعبے میں امر رہتا ہے۔
اسے کوئی اپنے مشاعروں، پروگراموں اور کانفرنسوں میں نہیں بلاتا، لیکن وہ اپنے قلم کا حق ادا کر رہا ہوتا ہے، اسے سرکاری اور غیر سرکاری اعزازات سے بہت دور رکھا جاتا ہے، لیکن وہ تو حق اور سچ کی خاطر شہرت کی نائو کو ازخود بیچ منجدھار میں چھوڑ کر گم نامی کے سمندر میں اترا ہوا ہوتا ہے۔
پھر تاریخ بھی اسے سنہرے حروف میں یاد رکھتی ہے اور اس کی حق گوئی اور بے باکانہ کردار کو سونے میں تولتی ہے۔ اسے کبھی خوشامدی، درباری، مصلحت کوش یا اس نوع کے کسی لقب سے نہیں پکارا جاتا۔ یہی لوگ ابو الکلام آزاد، حسرت موہانی، فیض احمد فیض، حبیب جالب، خالد علیگ، احمد فراز، محسن بھوپالی اور عارف شفیق وغیرہ کی فہرست میں اپنا نام درج کرا جاتے ہیں۔
جس قوم کے اہل علم ودانش حق گوئی چھوڑ دیں، سچ کو تنہا اور انصاف کو رسوا کردیں۔ وہ سماج ایسی تاریکی میں ڈوبتے جاتے ہیں کہ جس سے نکلنے کے لیے پھر بہت طویل اور صبر آزما جدوجہد کرنی پڑتی ہے۔ بدقسمتی کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ آج ہماری صورتحال کچھ ایسی ہی معلوم ہوتی ہے اور آخر میں ہم جیسوں کا شکوہ بہ زبان جون ایلیا۔
بولتے کیوں نہیں مِرے حق میں
آبلے پڑ گئے زبان میں کیا...!