بشنو این نی چون شکایت می کند رومی
پاکستان اپنا جواب ایران کو دے چکا ہے اور اس کے سوا کوئی چارہ بھی نہ تھا
بڑا بھاری گزرا، یہ ہفتہ ہمارے ملک پر۔ عام انتخابات سر پرکھڑے ہیں، تمام سیاسی جماعتیں ان انتخابات کی تیاریوں میں مصروف ہیں، ہم اپنے داخلی خلفشاروں کی نذر تھے، نو مئی کی باقیات کو سمیٹنے میں مصروف تھے، ادھر ایران نے دہشت گردوں کی موجودگی کا بہانہ بنا کر پاکستان کی سرحدوں پر میزائل داغ دیے۔
ایران کا یہ کہنا ہے کہ پاکستان کی سرحدوں پر ان دہشت گرد تنظیموں کے ٹھکانے ہیں جو ایران کے خلاف کام کر رہی ہیں۔ ایران نے جن دہشت گردوں کے ٹھکانوں کو ہدف بنایا، ان کا وجود توکہیں نہ تھا، البتہ دو معصوم بچے ان حملوں میں مارے گئے اور بہت سے لوگ بھی زخمی ہوئے۔
ایران کے اس حملے کے بعد ایسا لگا کہ جیسے ہماری سرحدیں اب محفوظ نہ رہیں اورکوئی بھی پڑوسی ملک بڑی آسانی سے ہماری سرحدوں کی پامالی کرسکتا ہے، وہ چاہے افغانستان ہو، بھارت ہو یا پھر ایران۔ چار سال پہلے ہم نے ہندوستان کے ایک جہاز کو گرایا، گرفتارپائلٹ ابھی نندن کو خیر سگالی کے جذبے کے تحت رہا کیا۔
ہمارے ملک میں افغانستان کے راستے دہشت گرد داخل ہوتے رہے، سرحد پر لگی باڑ تباہ کرتے رہے ، منشیات اورکلاشنکوف کا کاروبار ہوتا رہا، دہشت گردی پنپتی رہی، کوئی پوچھنے والا ہی نہ تھا اور اب ایران نے بھی یہ سوچا کہ چلو ہم بھی اس راہ میں کچھ کرتے چلیں۔
اب ہم نے تمام ڈروخوف اپنے دل سے نکال دیے ہیں۔ جنرل ضیا ء الحق اور کے ساتھیوں خصوصاً حمید گل کی پالیسیزکا خمیازہ ہم اب تک بھگت رہے ہیں۔ انھوں نے ریاست میں جو انتہا پسندی کا بیج بویا وہ ہم نے اب تک بھگت رہے ہیں، افغانستان، پاکستان مخالفین کا قلعہ ہے ، شروع دن ہی افغانستان کا یہی کردار ہے ، ظاہر شاہ تب بھی یہی کردار تھا، داؤد اور اس کے ساتھی بھی اسی پالیسی پر گامزن رہے، ترکئی ، امین ، کارمل ، نجیب حکومتیں بھی پاکستان مخالف رہیں، مجاہدین بھی مخالف رہے ، طالبان کا بھی یہی کردار رہا اور اب بھی ہے۔
ہندوستان، ایران اور بلوچستان میں علیحدگی پسند گروپوں کی پشت پناہی کرتے ہیں،ایسا بھی ممکن ہے کہ انھیں سازشوں کے ماسٹر مائنڈز ایران کے خلاف بھی کام کر رہے ہوں جن کو بنیاد بنا کر ایران نے پاکستان کی سرحدوں پر میزائل داغ دیے۔ اس منظرنامے کے پیچھے کچھ تاریخی حقائق کا بھی عمل دخل ضرور ہے وہ اس طرح کہ ایرانی صوبے سیستان میں بھی بلوچ بستے ہیں اور پاکستان کے صوبے بلوچستان میں۔
سیستان میں ترقی نہیں ہے،یہاں غربت اور پسماندگی کے ڈیرے ہیں جب کہ پاکستان کے صوبے بلوچستان میں پسماندگی اور غربت ہے۔ سیستان میں ایران کے خلاف بغاوت ہے اور بلوچستان میں پاکستان کے خلاف شورش ہے۔ ایران اور پاکستان کے بارڈر اسمگلنگ کا گڑھ ہے، یہاں اسمگلنگ کا حجم پاک افغانستان کے بارڈر سے بھی زیادہ ہے۔
بلوچستان اور سیستان قبائلی طرز پر چلتا ہے اس پسِ منظر میں دیکھا جائے تو بلوچستان اور سیستان کے لوگ شاید پسماندگی اور غربت کی بناء پر اسمگلنگ، دہشت گردی یا پھر منشیات جیسے کاروبار کرنے والے مافیاز کے جھانسے میں آکر بطور آلہ کار کام کرنے میں ملوث ہیں اور پھر ایسی ہی صورتحال میں وہ پاکستان یا پھر ایران کے خلاف استعمال کیے جا رہے ہوں۔
یہی ماجرہ ہے افغانستان اور پاکستان ان علاقوں کا جو فاٹا کا حصہ تھے اور پاکستان کا آئین ان پر لاگو نہیں ہوتا تھا، جہاں آئین کی حکمرانی ہوتی ہے وہاں دہشت گردی، اسمگلنگ، ہتھیار اور قبائلی کلچر دم توڑ جاتے ہیں۔ بے شک ہندوستان سے سو اختلاف ہوں مگر اس خطے میں اگرکوئی ملک ایسا ہے جہاں آئین کی حکمرانی ہے، وہ ہندوستان ہے۔
پاکستان کی اندرونی اور بیرونی سرحدیں نہ صرف ہندوستان یا ایران کی طرف سے غیرمحفوظ ہیں بلکہ افغانستان اور وہاں سے اسمگل کی ہوئی منشیات، ہتھیار اور دہشت گردی کے خطروں سے بھی دوچار ہیں۔ ہم نے افغان پالیسی بنا کر اس ملک کی جمہوری قوتوں کے خلاف استعمال کیا۔
تاریخی اعتبار سے ایران کی تہذیب عربوں سے بھی قدیم ہے اور یہ بات اس تہذیب کی لاشعور میں رچی بسی ہے۔ ایران میں انقلاب اس وقت آیا جب ایرانی عوام بادشاہت سے تنگ آگئے۔ اس انقلاب کے منظر نامے میں وہ لوگ بھی آیت اللہ خمینی کے حامی ہوئے جو بائیں بازوکی سیاست کے حامی تھے۔ اس انقلاب کی جہدوجہد میں ایرانی بائیں بازوکے لوگوں نے بھی کلیدی کردار ادا کیا لیکن مذہبی طبقے کی حکومت نے ان بائیں بازو کے حامیوں کوکوئی راستہ نہیں دیا گیا۔ اس وقت ایران کی مذہبی جمہوریت ایرانی عوام کے بڑے حصے میں انتہائی غیر مقبول ہے۔
اب حالات بدل چکے ہیں نہ امریکا سرد جنگ والا امریکا ہے اور نہ ہی سعودی عرب قدامت پرستا رہا ہے۔ ایران کو اس بات کی خلش ہے کہ بہت سے مسلم ممالک بمع سعودی عرب اب اسرائیل سے اپنے سفارتی تعلقات قائم کرنے جا رہے ہیں۔ اسرائیل کے غزہ پر حملے کی وجہ سے پورا مشرقِ وسطیٰ اس وقت جنگ کی کیفیت میں ہے اور ایران نے اس حوالے سے کلیدی کردار ادا کیا کہ ان جماعتوں اور گروپوں کی ایران بھرپور امداد کی جو اس جنگ کو مزید ہوا دے رہے ہیں۔
سوویت یونین کی طرح اب ایران کی نظریاتی حکومت بھی اپنے معنی کھوچکی ہے۔ وہ مشرقِ وسطیٰ میں تضادات کو تیزکر کے سبب ڈھونڈ رہے ہیں ،کیا معلوم ان سب میں روس بھی شامل ہوکہ دنیا کی توجہ یوکرین کے حملے سے ہٹائی جا سکے۔
پاکستان اپنا جواب ایران کو دے چکا ہے اور اس کے سوا کوئی چارہ بھی نہ تھا مگر اب اس بات پر توجہ دی جائے کہ ہمیں ایران سے بات چیت کے ذریعے معاملات کو حل کرنا ہوگا۔